کرائم شو اور معاشرے پر ان کے اثرات


کچھ روز قبل میرے دوست فرحان احمد خان معروف صحافی اور مترجم جن کا تعلق لاہور سے ہے، نے اپنے فیس بک پر کرائم شوز سے متعلق چند سوالات کیے تھے؛ ان کے سوالوں کا میں نے اپنی فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔ بعد میں خیال آیا کہ کیوں نہ ان کو ترتیب دے کر ایک مضمون کی شکل دے دی جائے، تا کہ دیگر قارئین تک یہ خیالات پہنچیں۔ ہند و پاک، گر چہ دو ہیں، لیکن دونوں ممالک کے مسائل ایک سے ہیں۔ عامتہ الناس یہاں ہندوستان میں جن مسائل سے دو چار ہیں، پاکستان میں بھی لگ بھگ وہی احوال ہے۔

فرحان احمد خان کا سب سے پہلا سوال تھا، کہ کیا یہ ’’کرائم شوز‘‘ جیسے  پروگرام معاشرے کے سدھار کے لیے ضروری ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے؟

میرے خیال میں اس سے سماج کے سدھار کے بارے میں سوچنا، ویسا ہی ہے، جیسا ریگ زار میں سراب کے پیچھے دوڑنا۔ ایک منفی رویے کو فروغ دے کر، اس سے مثبت نتیجے کی توقع کیسے کی جا سکتی، ببول بو کر، گلاب نہیں اگائے جا سکتے۔ چوں کہ کرائم شو میں با ضابطہ طور پر جرم کو فلما کر دکھایا جاتا ہے، اس کی تفصیلات بتائی جاتی ہیں کہ فلاں ظلم کس طرح وقع پذیر ہوا، اس کے پیچھے کیا کیا عوامل  تھے، کس طرح کا اسلحہ، زہر اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے والی اشیا کا کیسے  استعمال کیا گیا اور آج کل چھوٹے سے لے کر بڑے، تک یہاں تک کہ بچے بھی  ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے ذریعے، ایسے پرگراموں تک با آسانی رسائی  رکھتے ہیں؛ ان کا متاثر نہ ہونا ممکن نہیں ہے۔

دوسرا سوال تھا کیا جرائم پیشہ افراد کی آپ بیتیاں نشر کر کے جرائم ختم ہو جائیں گے؟ میرا کہنا ہے، آپ بیتی، سوانح، افسانہ، کہانی یہ سب کچھ در اصل معاشرے کا آئنہ ہوتے ہیں۔ معاشرے کو جس طرح کا آئنہ دکھائیں گے، اثر اس کا ویسا ہی ہو گا۔ اگر چہ اس معاملے میں کچھ لوگ کہتے ہیں، کہ جب تک برائی کو برائی نہیں کہا جائے گا، کوئی کیسے جانے گا، کہ یہ غلط ہے  یا صحیح۔ اپنی جگہ یہ بات درست ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جرائم پیشہ لوگوں کی آپ بیتیاں شایع نہیں کرنی چاہیے۔ اگر شایع کرنا بہت ضروری بھی ہو تو اسکرپٹ اس انداز سے لکھا جانا چاہیے، کہ بجائے اس سے ہم دردی پیدا ہو، اس کو واقعی جرم تصور کیے جانے کا مادہ پیدا ہو۔ خاص کر بچے اس کو آئڈیل کے طور پر قبول نہ کریں، بلکہ جانیں کہ یہ ایک خراب آدمی تھا، جس کو لوگ آج اس کے خراب کام سے یاد کر رہے ہیں نا کہ اچھے کام سے۔ 

سوال تھا، جرائم کی تمثیلی منظر کشی اور پیش کش جرائم کی تعلیم بن رہی ہیں؟ میں نے عرج کیا، کہ بہت حد تک  بن رہی ہیں؛ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے اور اکثر نوجوانوں کی زبان سے اس طرح کی باتیں سنیں گے، کہ اس نے اس چیز کو یوں انجام دیا اور اس کو فلاں فلم میں یوں دکھایا گیا ہے؛ وغیرہ۔  جب کسی پر جنون سوار ہوتا ہے، تو پھر اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی منظر کشی یا لٹریچر جنونی کیفیت پیدا کرنے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل کہیں میں نے یہ پڑھا تھا کہ نوجوان بڑی تعداد میں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں اور سیکس اور جنسی موضوعات کے علاوہ وہ جن چیزوں کو گوگل میں تلاش کر رہے ہیں ان میں ’بنا تکلیف آسان طریقہ خود کشی کیا ہے‘۔ ایسے معاشرے میں جرائم کی تمثیلی منظر کشی جذبات کو مزید برانگیختہ کرنے کا کام کرے گا، چہ جائیکہ ہم اس سے اصلاح اور سدھار کی امید رکھیں۔ 

ایک سوال یہ تھا، کہ پولیس سرکاری ادارہ ہے، بتایا جا سکتا ہے، کہ کس ضابطے کے تحت کسی نجی چینل کو پولیس کی نفری بطور ایکٹر فراہم کی جاتی ہے؟ میں نے اظہار کیا، میرے خیال میں پولیس کی باضابطہ نفری تو کسی چینل کو فراہم نہیں  کی جاتی ہو گی، جو چینل یا پروڈکشن ہاوس اس طرح کے پروگرام کراتے ہیں، ان کے پاس مختلف قسم کے کاسٹیوم اور میک اپ کا ساز و  سامان ہوتا ہے، جس سے وہ اپنا مطلوبہ کیریٹر ڈیولپ کرلیتے ہیں۔ اگر کسی چینل یا ادارے کو واقعی اداکاری کے لیے باضابطہ اور حقیقی کارکن فراہم کیے جا رہے ہیں، تو یہ تباہی کا عندیہ ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے سماجی کارکنوں اور سنجیدہ طبقے کو آگے آنا چاہیے۔ 

ریٹنگ اور منافع کے لیے پروگرام چلانے والے ٹی وی چینلز کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے تن خواہ پانے والے پولیس اہل کار کیسے میسر آجاتے ہیں؟ انھیں پیشہ وارانہ مصروفیات میں سے فلم شوٹنگ کا وقت کیسے مل جاتا ہے؟ میرے لیے اس کا جواب دینا اتنا آسان نہیں تھا، سو کہا، کہ یہ تحقیق کا موضوع ہے، صحافی اور سماجی کارکنوں کو اس  پر نظر رکھنا چاہیے اور اس کے خلاف نہ صرف احتجاج کرنا چاہیے، بلکہ ان پر  تادیبی کارروائی کے لیے، منسلک اداروں کے ذمہ داروں کے علاوہ، عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے۔ 

فرحان کا ایک نکتہ یہ تھا، کہ کرائم پروگراموں کے اینکرز کو جیلوں میں ملزمان یا مجرموں سے براہ راست بات چیت کی اجازت کس ضابطے کے تحت اور کیوں دی جاتی ہے؟ وہ کس اختیار کے تحت سوال پوچھ کر نشر کرتے ہیں؟ میں اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا تھا، کہ اس کی اجازت  کسی بھی ملک کا قانون نہیں دیتا، یہ ساری چیزیں افسروں اور ایسے افراد کے ملی بھگت سے انجام دی جاتی ہیں۔  

جب لیزلی اڈون نے دسمبر 2012 میں دہلی میں ایک چلتی بس میں لڑکی کو ریپ کرنے والے مجرموں سے بات چیت پر مبنی دستاویزی فلم بنائی تھی، تو اس وقت ہندوستان سمیت عالمی سطح پر اس  موضوع پر خاصی بحث ہوئی تھی۔ حالاں کہ اس فلم پر ہندوستانی سرکار نے پابندی عائد کر دی تھی؛ یہ الگ بات ہے کہ وہ فلم بعد میں لندن سے نشر ہوئی۔ اس سلسلے میں ماہرین کی رائے، گوگل سرچ انجن سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah