میں پنسل ہوں


\"zeeshanمعیشت ایک پیچیدہ مظہر ہے کیونکہ یہ ایک ملک یا پوری دنیا کے انسانوں کے پیداواری عمل میں رضاکارانہ تعاون و تبادلے اور معاشی فیصلوں سے وجود میں آتی ہے – مثال کے طور پر پاکستان کی کل آبادی بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ، یوں پاکستانی معیشت سے مراد یہاں کے لوگوں کی کل پیداوار ، معاشی فیصلے ، اور اندرونی و بیرونی سرحدوں میں واقع دوسرے افراد سے آزاد تعاون و تبادلے کا نام ہے – فری مارکیٹ معیشت کے نزدیک معیشت کے اس پیچیدہ مظہر کو کنٹرول کرنا تو کجا اس کی بدلتے ٹائم اور جگہ (Place ) کی مناسبت سے درست اور مکمل سمجھ بوجھ بھی ناممکن ہے – آزاد معیشت میں خود تنظیمی کی آزاد اور خودمختار قوت پائی جاتی ہے جسے ایڈم سمتھ اپنے الفاظ میں Invisible Hand (نادیدہ ہاتھ ) کہتا ہے- جب معیشت غیر پیداواری رکاوٹوں سے آزاد ہوتی ہے تو خود تنظیمی کی یہ آزاد و خودکار طاقت اسے متوازن رکھتی ، ترقی دیتی اور خوشحال بناتی ہے –

یہ عملی طور پر کیسے ممکن ہوتا ہے اسے آپ ذیل کے مضمون سے سمجھ سکتے ہیں جسے Leonard E Read نے لکھا ہے جس میں ایک پنسل اپنی اور دوسرے پروڈکٹس کی کہانی سناتی ہے – اس مضمون کے ترجمے میں محترم زبیر حسین صاحب کی مدد حاصل رہی ہے جس کے لئے میں ان کا شکرگزار ہوں – مضمون کے ترجمہ کے لئے فاونڈیشن آف اکنامک ایجوکیشن سے اجازت لی گئی ہے –

…………………………….

میں عام سی لکڑی سے بنی ہوئی ایک لیڈ پنسل ہوں. لڑکے لڑکیاں اور بالغ افراد جنہیں لکھنا پڑھنا آتا ہے مجھے اچھی طرح جانتے ہیں.

لکھنا میرا پیشہ ہے اور مشغلہ بھی.

آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ مجھے اپنا شجرہ نسب بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے. اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ میری داستان \"Iدلچسپ ہے اور پراسرار بھی. سچ تو یہ ہے کہ میری کہانی جنگل کی ہیبت، غروب آفتاب کے سحر انگیز منظر، یا بجلی کی چمک کڑک سے بھی زیادہ پراسرار ہے. لیکن المیہ یہ ہے کہ میں ان لوگوں کی نظروں میں بھی ایک حقیر یا بے وقعت شئے ہوں جو مجھے ہر دم استعمال کرتے ہیں. گویا میرا وجود بس اتفاقی ہے اور میرا کوئی پس منظر نہیں. ان کے اس حقارت آمیز رویے سے ظاہر ہے کہ وہ مجھے نہایت ہی حقیر چیز سمجھتے ہیں. یہ انسانوں کی ایک فاش غلطی ہے اور اس پر اصرار کا نتیجہ ہرگز خوشگوار نہیں نکلے گا. عقلمندوں کے لیے جی. کے. چیسٹرٹون کا یہ بیان کافی ہے.

\”ہم کسی ایک عجوبے کی تلاش میں ہلکان ہو رہے ہیں اور اس حقیقت سے بےخبر کہ بیشمار عجائبات ہمارے آس پاس موجود ہیں.\”

بظاھر سادہ نظر آنے کے باوجود میں ایک عجوبہ ہوں. حتی کہ میرا وجود کسی معجزے سے کم نہیں. اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے میرے پاس ثبوت موجود ہیں. لہذا میں بجا طور پر آپ کے احترام کی مستحق ہوں. میرے معجزاتی وجود سے آگاہی آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ آپ نوع انسان کی آزادی، جسے وہ اپنی مرضی کے بغیر کھو رہے ہیں، کا تحفظ کر سکیں. میرے پاس آپ کو سکھانے کے لئے بیش قیمت سبق ہے. نیز میں یہ سبق آپ کو گاڑی یا جہاز یا کپڑے دھونے کی برقی مشین سے بھی بہتر پڑھا سکتی ہوں. کیوں؟ دیکھو! میں کس قدر سادہ اور معصوم ہوں.

سادہ؟ اس قدر سادہ اور آسان نظر آنے کے باوجود اس زمین پر بسنے والا شائد ہی کوئی فرد جانتا ہو کہ میری تخلیق کیسے ہوتی ہے. کیا یہ بات عجیب نہیں؟ خیال رہے صرف امریکہ میں مجھے ہر سال ڈیڑھ ارب کی تعداد میں پیدا کیا جاتا ہے.

مجھے ہاتھ میں پکڑ کر بغور دیکھو. آپ کو کیا نظر آتا ہے؟ کچھ زیادہ نہیں. بس لکڑی، روغن، لیبل، گریفائٹ لیڈ، کچھ دھات، اور ربڑ کی کھرچنی.

جس طرح آپ اپنے خاندان کے شجرہ نسب کی تلاش میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جا سکتے کچھ ایسا ہی معاملہ میرا ہے. میرے لیے اپنے شجرہ نسب میں موجود ہر فرد کا تعارف ممکن نہیں. بہرحال میرے چند قریبی آباؤاجداد کا تعارف ہی میرے خاندان کی دھاک بٹھانے کے لیے کافی ہے.

میرے شجرہ نسب کا آغاز صنوبر کے درخت سے ہوتا ہے جو کہ شمالی کیلی فورنیا اور ارگن میں بکثرت پایا جاتا ہے. اب ان ہزاروں لاکھوں\"pencil4\" مزدروں، کاریگروں، ڈرائیوروں، کلہاڑیوں، آریوں، رسیوں، ٹرکوں، اور دیگر سازوسامان کو چشم تصور میں لائیں جو ان درختوں کو کاٹ کر شہتیر بنانے اور انہیں ریلوے سٹیشن پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں. اسی طرح ان بیشمار ہنرمندوں کو بھی ذہن میں رکھیں جو کانوں سے خام دھاتیں نکالنے، ان سے فولاد تیار کرنے، اور پھر اس فولاد سے کلہاڑیاں، آریاں، اور موٹریں تیار کرتے ہیں. ان ہزاروں لاکھوں کسانوں کو نہ بھولیں جو پٹ سن اگاتے ہیں. پھر کارخانوں میں کاریگر اس پٹ سن کو مختلف مراحل سے گزار کر مضبوط رسیاں تیار کرتے ہیں. صنوبر کے جنگلوں میں بنائے گئے شہتیروں کے کیمپوں کو بھی نگاہ میں رکھیں جہاں مزدور سوتے اور کھانا کھاتے ہیں. اور ان ہزاروں باورچیوں اور خدمت گزاروں کو بھی دیکھیں جو ان مزدروں اور کاریگروں کے لیے کھانے، کافی، چائے، اور دوسرے مشروب تیار کرتے ہیں.

شہتیروں کو کیلی فورنیا کے شہر سان لینڈرو کے کارخانے بھیجا جاتا ہے. کیا آپ کو معلوم ہے کہ شہتیروں کو کارخانے پہنچانے کے لیے جو سپاٹ فرش والے ٹرک، ریلوے بوگیاں، اور انجن استعمال ہوتے ہیں ان کو بنانے اور مواصلات کا نظام نصب کرنے میں کتنے ماہرین کا ہاتھ ہے؟ یہ بیشمار کاریگر اور ماہرین بھی میرے اجداد ہی ہیں.

اب ہم سان لینڈرو کے کارخانے کا رخ کرتے ہیں. وہاں صنوبر کے ان شہتیروں کو ایک چوتھائی انچ سے بھی کم موٹائی کے پنسل سائز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیا جاتا ہے. پھر ان ٹکڑوں کو بھٹی یا تندور میں تاپ کر ان پر ہلکا رنگ چڑھا دیا جاتا ہے. یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے عورتیں خوبصورتی کے لیے اپنے چہروں پر غازہ ملتی ہیں. یوں بھی لوگ چاہتے ہیں کہ میں دلکش نظر آؤں ناکہ پیلی زرد. پھر لکڑی کی ان پتریوں پر موم چڑھا کر انھیں دوبارہ بھٹی میں تپایا جاتا ہے. کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہلکا رنگ یا غازہ اور بھٹیوں یا تندوروں کو بنانے اور کارخانے کے لیے حرارت، روشنی، توانائی، انجن، پیٹیاں، اور دیگر سازوسامان کا بندوبست کرنے کے لیے کتنے ماہرین اور ہنرمندوں نے اپنے خون پسینہ صرف کیا؟ نیز ان ماہرین یا ہنر مندوں کو نہ بھول جائیں جنہوں نے پیسفک گیس اور الیکٹرک کمپنی، جو کہ کارخانے کو توانائی فراہم کرتی ہے، کے لیے کنکریٹ کا ڈیم تیار کیا. یہ سب ہنرمند بھی میرے اجداد میں شمار ہوتے ہیں.

مزید براں میرے ان قریبی اور دور کے رشتہ داروں کو بھی یاد رکھیں جو کہ مجھے بوگیوں میں لاد کر ملک کے ایک حصے سے دوسرے \"pencil6\"حصے میں پہنچاتے ہیں.

جس کارخانے میں میں جنم لیتی ہوں اس کی عمارت اور مشینری پر چار ملین ڈالر لاگت آئی . یہ کثیر سرمایہ میرے والدین نےاپنی بچت سے جمع کیا اور لگایا. لکٹری کی ہر پتری میں ایک پیچیدہ مشین کے ذریعے آٹھ نالیاں بنائی جاتی ہیں. پھر ایک اور مشین ان پتریوں کی نالیوں میں لیڈ یعنی گریفائٹ بھرتی اور انھیں گوند سے چپکا دیتی ہے. گویا پتریوں اور لیڈ کا ایک سینڈوچ سا بن جاتا ہے. آخر میں لکڑی اور لیڈ کے اس سینڈوچ سے میں اور میرے سات بھائی بہن جنم لیتے ہیں.

عجیب بات یہ ہے کہ میرے اندر جو لیڈ ہے وہ سیسہ ہرگز نہیں. یہ لیڈ اصل میں گریفائٹ ہے جو کہ سیلون (سری لنکا) کی کانوں سے نکالا جاتا ہے. اب تصور کریں ان کان کنوں کا جو گریفائٹ کانوں سے نکالتے اور کاغذ کے تھیلوں میں بھرتے ہیں، کاغذ کے تھیلے بنانے والوں کا، کاغذ کے تھیلوں کو باندھنے کے لیے ڈوریں بنانے والوں کا، ان تھیلوں کو بحری جہازوں پر لادنے والوں کا، بحری جہاز بنانے والوں کا، اور ان بحری جہازوں کو چلانے والوں کا. یہ سب افراد حتی کہ لائٹ ہاؤس پر کام کرنے والے بھی میرے اجداد ہی ہیں یعنی یہ سب کسی نہ کسی شکل میں میری پیدائش میں اپنے حصہ ڈالتے ہیں.

گریفائٹ کو مسسسپی (Mississippi ) کی چکنی مٹی میں ملا کر ایک آمیزہ تیار کیا جاتا ہے اور پھر اس آمیزے کو امونیم ہائيڈروآکسائيڈ کے محلول کے ذریعے پاک و صاف کیا جاتا ہے. پھر اس آمیزے میں نمی پیدا کرنے کے لیے اس میں حیوانی چربی اور گندھک کے تیزاب کا آمیزہ ملا دیتے ہیں. اس آمیزے کو بہت سی مشینوں سے گزارا جاتا ہے. بالآخر یہ آمیزہ مشین سے یوں برآمد ہوتا ہے جیسے گرنڈر یا چکی سے قیمہ بھری آنت. اسے مخصوص سائز میں کاٹ کر خشک کرتے اور 1,850 ڈگری فارن ہائیٹ میں پکاتے ہیں. آخر میں اس آمیزے یا لیڈ کو میکسیکو سے درآمد کردہ کندلیو پودے کے موم ( candelilla wax )، مٹی کے تیل، اور ہائیڈ روجن سے مرکب قدرتی تیل یا چکنائی سے غسل دے کر اسے مضبوط کرنے کے ساتھ اس میں نرمی یا چکنا پن پیدا کرتے ہیں.

ادھر میری صنوبر کی لکڑی پر روغن کی چھ تہیں چڑھائی جاتی ہیں. کیا آپ روغن\"pencil2\" (lacquer )کے تمام اجزا سے وقف ہیں؟ کون جانتا ہے کہ ارنڈ (castor ) کی کاشت کرنے والے اور ارنڈ کے تیل کی ریفائنری والے بھی میری پیدائش کے عمل میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں؟ اس روغن کو خوبصورت زرد رنگ دینے کے لیے جن کاریگروں کی مہارت کام آئی آپ شائد ان کی تعداد کا شمار نہ کر سکیں.

اب ایک نظر میرے لیبل پر بھی ڈالیں. یہ ایک فلم ہے جو کہ کاربن بلیک یا کاجل کو گوند میں ملا کر بنائی جاتی ہے. کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ گوند کیسے بنتا ہے؟ نیز یہ کاربن بلیک کیا شئے ہے؟

میرا دھاتی چھلا یا ٹوپی پیتل سے بنایا جاتا ہے. اب ان کان کنوں کو چشم تصور میں لائیں جو جست اور تانبے کو کانوں سے نکالتے ہیں. ان ماہرین کو بھی ذہن میں رکھیں جو ان قدرتی عناصر کو ملا کر پیتل کی چمکدار چادریں تیار کرتے ہیں. میری ٹوپی پر سیاہ دائرے سیاہ نکل سے بنے ہیں. یہ سیاہ نکل کیا ہوتا ہے اور اسے پیتل کی ٹوپی پر کیسے چسپاں کیا جاتا ہے؟ نیز میری ٹوپی کے وسط سے سیاہ نکل کے دائرے کیوں غائب ہیں؟ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے مجھے کئی صفحے سیاہ کرنے پڑیں گے.

اب آتے ہیں میرے جسم کے سب سے نمایاں حصے یعنی تاج کی طرف جسے آدمی اپنی غلطیوں کو مٹانے کے لیے استعمال کرتے ہیں. معلوم نہیں کیوں وہ اسے پلگ کہتے ہیں جو کہ میرے نزدیک ایک بھونڈا یا ناشائستہ نام ہے. میرے تاج کا جو جزو غلطیاں مٹانے کا فریضہ ادا کرتا ہے اسے فیکٹس (factice) کہتے ہیں. یہ ربڑ میں توریے یا تلی کا تیل، جو کہ انڈونیشیا سے آتا ہے، اور سلفر کلورائڈ ملا کر تیار کیا جاتا ہے. نیز اسے سخت کرنے اور اس میں سرعت پیدا کرنے کے لیے اس میں کچھ اور اجزا مثلا\” ہلکی مسام دار آتِش فِشانی چٹان اور کیڈمیم سلفائڈ بھی شامل کئے جاتے ہیں. اول الذکر اٹلی سے آتی ہے اور موخر الذکر تاج یا پلگ کو رنگ دیتی ہے.

کوئی نہیں جانتا

کیا کوئی میرے اس دعوے کو چیلنج کر سکتا ہے کہ دنیا میں ایک بھی فرد ایسا نہیں جسے علم ہو کہ میری پیدائش یا تخلیق کیسے ہوتی ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ میری تخلیق میں لاکھوں افراد کا ہاتھ ہے. لیکن ان لاکھوں افراد میں صرف گنتی کے چند افراد ہی ایک دوسرے کو جانتے ہیں.\"pencil3\" جب میں اپنا سلسلہ نسب برازیل کے دور افتادہ علاقوں میں کافی بیری چننے والوں اور کئی دوسرے ملکوں میں غذائی اجناس اگانے والوں سے جوڑتی ہوں تو شائد آپ اسے دور کی کوڑی لانا سمجھیں. بہرحال مجھے اپنے دعوے کی صداقت پر یقین ہے. یہ ایک حقیقت ہے کہ میری تخلیق میں شریک لاکھوں افراد جن میں پنسل کمپنی کا سربراہ بھی شامل ہے میری تخلیق کے عمل کے ایک بہت معمولی حصے کا علم رکھتے ہیں. نیز میرے بارے میں سری لنکا میں گریفائٹ کے کان کنوں کا علم امریکی ریاست ارگون کے درخت کاٹنے والوں کے علم سے مختلف ہے. کچھ ایسا ہی معاملہ فیکٹری میں کام کرنے والے کیمیا دانوں اور تیل کے کنوؤں پر کام کرنے والے محنت کشوں کا ہے جو کہ تیل سے موم حاصل کرتے ہیں.

ایک حیران کن بات یہ ہے کہ تیل کے کنوؤں پر کام کرنے والے مزدور، فیکٹری کے کیمیا دان، کانوں سے گریفائٹ نکالنے والے کان کن، بحری جہازوں، ٹرینوں، اور ٹرکوں کو بنانے والے انجنئیر اور انہیں چلانے والے آپریٹر، جو مشینیں میرے سر پر دھات کی ٹوپی چڑھاتی ہیں ان پر کام کرنے والے کاریگر، اور پنسل کمپنی کے سربراہ اپنے اپنے حصے کا کام اس لئے نہیں کرتے کہ انھیں میری ضرورت یا طلب ہے. اگر ہو بھی تو ان کی حاجت پہلی جماعت کے طالب علم کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے. میری تخلیق میں حصہ ڈالنے والے لاتعداد افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی میری شکل نہیں دیکھی اور انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مجھے استعمال کیسے کیا جاتا ہے. ان کا جذبہ محرک میں نہیں، کچھ اور ہے. یہ لاکھوں افراد اپنا اپنا علم اور مہارت میری تخلیق میں اس لئے صرف کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکیں. انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ میرا وجود ان کی ضروریات زندگی کا حصہ ہے یا نہیں.

ایک اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ میری پیدائش بیشمار عوامل و مراحل سے گزرنے کا نتیجہ ہے لیکن کسی مرحلے میں بھی آپ کو کسی منصوبہ ساز یا ہداہت کار کا نام و نشان نہیں ملے گا. ایسا لگتا ہے کہ کوئی غیر مرئی یا خفیہ ہاتھ میری تخلیق کا سبب بن رہا ہے. یہ وہ پہیلی ہے جس کی طرف میں پہلے بھی اشارہ کر چکی ہوں.

یہ حکایت مشہور ہے کہ صرف خدا ہی ایک درخت بنا سکتا ہے. لوگ اس حکایت پر فورا\” ایمان لے آتے ہیں. کیوں؟ ایک درخت بنانا تو دور کی بات ہے شائد ہی کوئی انسان کسی درخت کی ماہیت کے بارے میں کچھ جانتا ہو یا اسے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو. اس بارے میں انسان کا علم بس سطحی ہے. مثلا\” وہ زیادہ سے زیادہ یہ جانتا ہے کہ سالماتی مادوں کی ایک مخصوص ترتیب و تشکیل کے نتیجے میں درخت وجود میں آتا ہے. لیکن کیا کسی انسان کے پاس ایسا دماغ ہے جو ایک درخت کی طویل زندگی کے دوران سالماتی مادوں میں مسلسل وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی رہنمائی نہ سہی تو کم از کم انھیں ریکارڈ ہی کر سکے؟ ظاہر ہے اس کار عظیم کے لئے جو دماغ چاہئیے وہ کسی انسان کے پاس نہیں.

ایک درخت کی ماںند میرا یعنی پنسل کا وجود بھی پے در پے معجزات کا مرہون منت ہے. درخت، جست، تانبا، گریفائٹ، اور بہت سی دوسری \"pencilاشیا، جن کا اپنا وجود کسی معجزے سے کم نہیں، میرے وجود کا حصہ ہیں. ان قدرتی معجزات میں ایک اور معجزے کا اضافہ کر لیں. وہ ہے انسانوں کی طلب یا مانگ کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں انسانوں کی انفرادی تخلیقی توانائیوں، علوم و فنون، اور مہارتوں کا ایک منظم ترتیب سے بے ساختہ استعمال اور وہ بھی کسی منصوبہ ساز یا ہدایت کار کی رہنمائی کے بغیر. جیسے انسان تسلیم کرتا ہے کہ درخت صرف خدا بناتا ہے، ویسے ہی اسے تسلیم کرنا ہو گا کہ مجھے یعنی پنسل کو بھی خدا (آزاد فطری ہدایت ) ہی بناتا ہے. جس طرح ایک انسان سالماتی مادوں کو ایک مخصوص ترتیب و تشکیل دے کر درخت پیدا نہیں کر سکتا، اسی طرح لاکھوں مختلف علوم و فنون کی ایک سلسلہ وار ترتیب سے رہنمائی کرکے مجھے وجود میں لانا بھی اس کے لئے ممکن نہیں.

اوپر میں نے جو کچھ لکھا ہے اگر آپ اسے سمجھ گئے ہیں تو میرا درج ذیل بیان بھی آپ کی سمجھ میں آ جائے گا. \”میرے معجزاتی وجود کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد آپ نوع انسان کی آزادی، جسے کوئی انسان اپنی مرضی یا خوشی سے نہیں کھوتا، کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے.\” اگر آپ کو یہ ادراک حاصل ہو گیا ہے کہ انسانی طلب یا مانگ کے نتیجے میں انسانوں کے حاصل کردہ علوم و فنون خود بخود تخلیقی اور پیداوری سرگرمیوں میں لگ جاتے ہیں اور وہ حکومت یا کسی جابر مرکزی رہنما کے بغیر بھی ایسا کر سکتے ہیں، تو آپ نہ صرف آزادی کی اہمیت و افادیت کو سمجھ گئے بلکہ آزاد انسانوں کی صلاحیتوں پر آپ کا ایمان بھی پختہ ہو گیا. انسان کی صلاحیتوں پر یقین و ایمان کے بغیر آزادی ممکن نہیں.

جب کسی تخلیقی عمل یا سرگرمی، مثلا\” پورے ملک میں ڈاک کی ترسیل، پر حکومت کی اجارہ داری قائم ہو جائے تو بیشتر لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ آزادی سے کام کرنے والے مرد و زن ڈاک کی ترسیل کا فریضہ بخوبی ادا نہیں کر سکتے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاک کے شعبے سے وابستہ ہر فرد تسیلم کرتا ہے کہ اسے ڈاک کی ترسیل کے تمام مراحل کا علم نہیں. لہذا وہ \”رہنمائی\” کے بغیر ڈاک کی ترسیل کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا. نیز اسے یقین ہے کہ دوسرے بھی اس کی طرح بے خبر ہیں. یہ قیاسات یا مفروضات درست ہیں. کسی تنہا شخص کے پاس بھی اتنا علم نہیں کہ وہ ڈاک کی ترسیل کے نظام یا مراحل کو جان سکے. یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی نہیں جانتا کہ پنسل کیسے وجود میں آتی ہے. لوگوں کی آزادی پر ایمان کے فقدان یا اس حقیقت سے لاعلمی کہ انسان لاکھوں چھوٹے چھوٹے علوم و فنون کو قدرتی یا معجزاتی طریقے سے ترتیب و تشکیل دے کر یا ان کے باہمی رضاکارانہ تعاون سے انسانی طلب یا مانگ کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کا نتیجہ ہے کہ افراد حکومت کی مداخلت یا کنٹرول کے بغیر ڈاک کی ترسیل کو ناممکن سمجھ لیتے ہیں.

اگر صرف میں یعنی پنسل تنہا ہی شہادت دوں کہ اگر خواتین و حضرات اپنی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں آزاد ہوں تو وہ کیا کیا کارنامے سر انجام نہیں دے سکتے تو شائد کمزور ایمان والے میری شہادت کو کافی نہ سمجھیں. خوش قسمتی سے میں تنہا نہیں ہوں. میری شہادت کی تائید کے لئے بے شمار ہاتھ کھڑے ہیں. آپ جانتے ہیں کہ آٹو موبائل، حساب کتاب کی مشین، فصل کاٹنے یا آٹا پیسنے کی مشین، اور دوسری بے شمار مشینوں کو بنانے کے مقابلے میں ڈاک کی ترسیل بہت آسان کام ہے. نیز جب انسان کوئی بھی کام کرنے میں آزاد ہوں تو وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں انسانی آواز اور تصویر حتی کہ کسی واقعے کی لائیو کوریج دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا دیتے ہیں، ڈیڑھ سو مسافروں کو چار گھنٹے سے بھی کم وقت میں سیٹل سے بالٹی مور لے جاتے ہیں، ٹیکساس کے میدانوں سے گیس نکال کر ناقابل یقین حد تو کم نرخوں میں نیویارک کی بھٹیوں کو فراہم کر دیتے ہیں، اور چار پونڈ تیل خلیج فارس سے امریکہ کے مشرقی ساحل تک لانے کی جو قیمت وہ وصول کرتے ہیں وہ اس رقم سے بہت کم ہے جو امریکی حکومت ایک اونس وزن کے خط کو بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچانے کے لئے چارج کرتی ہے.

میری کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں اور توانائیوں کے آگے غیر ضروری ضابطوں اور بندشوں کے بند باندھنا درست نہیں. اس سبق کی روشنی میں انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں نظم و ضبط اور اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کریں اور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں، توانائیوں، اور علوم و فنون کے آزادانہ بہاؤ کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہوں انھیں قانونی ذرائع سے دور کریں. نیز یقین رکھیں کہ آزاد مرد و زن فطرت کے اس غیر مرئی یا خفیہ ہاتھ کے اشاروں کو سمجھنے اور ان پر چلنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو کہ ہمارے آس پاس بیشمار معجزات اور عجائبات کے وجود میں آنے کا سبب ہے. میں بھی اس غیر مرئی ہاتھ کا ایک معجزہ ہوں. گو بہت سادہ اور معصوم ہوں لیکن میرا وجود اس بات کی دلیل اور شہادت کے لئے کافی ہے کہ آزاد انسانوں کی صلاحیتوں پر عملی ایمان اور بھروسے سے ویسے ہی نتائج نکلتے ہیں جن کے چند قدرتی نمونے سورج، بارش، صنوبر کے درخت، اور خوبصورت زمین کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں.

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments