ساختیات، سیمیات اور بیانیات


کچھوے اور خرگوش کی کہانی سے ہر کسی کو شغف ہے۔ یہ کہانی انسانی تخیل کی بہت اہم کام یابی ہے، جس میں جانوروں کی دنیا کی ان ہونی کو انسانی سماج میں ایک قابلِ یقین ہونی میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس کہانی میں کچھوے اور خرگوش کا انتخاب جس نے بھی کیا بہت سوچ سمجھ کے کیا؛ کیوں کہ کچھوا ایک مستقل مزاج قسم کی رفتار کی علامت ٹھہرتا ہے اور خرگوش ایک ایسی ردِ استغراق ولاسٹی کی علامت، جس میں ایک بے معنی اضطراب ہے۔ کچھوے کا پیداواری کشٹ اس کی شناخت کو آفاقی بنا گیا؛ اس کے بر عکس خرگوش، اس تمثیل میں، ایک کھوکھلے تفاخر کی بے ثمر علامت۔

اس چھوٹی سی، لیکن گہرے معنوی نظام کو متشکل کرنے والی کہانی کو اس کی کلیت میں دیکھا جائے تو اس کے اجزائے ترکیبی میں صرف دو کردار ہی نہیں، نا ہی ان کے درمیان وہ دل چسپ مکالمہ ہے، جس کے باعث کہانی ایک گہرا اخلاقی تاثر چھوڑتی ہے؛ بلکہ ایک اور اہم پہلو ہے جس کی طرف توجہ کم ہی جاتی ہے؛ وہ اس کا narrative discourse ہے۔ کہانی عمدگی سے ابلاغ کرتی ہے، لیکن کہانی کا یہ ابلاغ کچھ ایسی لسانی اکائیوں پر مشتمل ہے جو کرداروں کی حالتِ سکون کو ایک نتیجہ خیز تحرک میں بدل دیتی ہیں۔

کہانی میں کرداروں کا حوالہ بشریاتی بن جاتا ہے اور وہ عام جانور نہیں رہتے، جو کہانی سے پہلے تھے۔ اس کہانی سے پہلے کچھوا ایک عام سا سست رو کچھوا تھا اور خرگوش، اسی طرح، ایک عام سا اچھل کود کرنے والا خرگوش۔ اب کہانی انسانی ایجاد ہے اس لیے انسانی معاشروں میں کہانی والا کچھوا جو خرگوش سے فیصلہ کن مقابلہ کرتا ہے؛ ایک عام سا کچھوا نہ رہا، اس کی معمولی سی رینگت ایک ایسی غیر معمولی رفتار بن جاتی ہے جو اس کے کردار کوکہانی میں امر کر دیتی ہے، اور وہ کہانی والا خرگوش جس کی یقینی جیت مقابلے کے دوران، ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سو جاتی ہے، عام سا خرگوش نہیں رہتا۔

انسانی معاشروں میں جہاں جہاں یہ کہانی پہنچی، کہانی والا کچھوا اور کہانی والا خرگوش دو زرخیز اور معنی خیز علامتیں بن گئے۔ انسانی زبان کے استعمال کے بعد یہ کردار اب جانوروں کی دنیا سے الگ ہو کر انسانی ثقافت کا مثالی حصہ بن گئے۔ اب ہر اس جگہ جہا ں غرور اور تکبر کی عبرت ناک شکست مقصود ہو، انسانی زبان بولتا ہوا بنا بنایا کردار خرگوش دست یاب ہے، اور ہر جگہ جہاں درد ناک حد تک سست روی لیکن منکسر المزاج اور مستقل مزاج محنت کی درخشاں مثال درکار ہو، تاریخ کے لاشعور سے رینگتا ہوا کچھوا اپنے سگنی فائیڈ (معنی) کے ساتھ اسٹیج پر خود ہی پہنچ جاتا ہے۔

کہانی والا کچھوا کسی جوہڑ میں نہیں، انسانی زندگی کے اہم نصابوں میں رہتا ہے اور کہانی والے خرگوش کو رالیں ٹپکاتے کتے بھیڑیے نوچ نہیں سکتے، کیوں کہ اب یہ کردار انسانی ثقافتوں میں ساختیاتی صداقتیں بن چکے ہیں۔ خرگوش، اس کہانی میں، ایک دعوی ہے، اور کچھوا اس کا جواب ِ دعوی۔ علمِ بیانیات اس کہانی میں راوی کی شناخت کے ساتھ ان لسانی اکائیوں یعنی ترکیبی عناصرکی درجہ بندی (classification) بھی کرتا ہے، جو کہانی کو ایک ایسی ساخت جس کو ہم نامیاتی کل کہتے ہیں، میں ڈھالتی ہیں۔

پسِ ساختیات اور مابعد جدید مباحث میں مصنف کی موت کا دعوی، کم از کم اس کہانی کے حوالے سے غلط نہیں؛ کیوں کہ اس کہانی کا مصنف کہیں بھی نہیں۔ کہانی مصنف کی شناخت سے نکل کرعالم گیر اور پرکشش صورت اختیار کر گئی اور مصنف ایک مبینہ موت کے بعد واقعی مر گیا۔ البتہ اس کا تخلیقی ’پروسونا‘ موجود ہے؛ یعنی راوی۔ علمِ بیانیات میں مصنف کی موت کا اعلان ضروری نہیں، کیوں کہ اس کی جگہ راوی نے لی ہے؛ اصل ضرورت کہانی کی ساختوں کے ساتھ ساختیاتی اصولوں کا ترتیب وار یا مرحلہ وار مطالعہ اور تجزیہ اور درجہ بندی ہے، جسے تھیوری کی زبان میں تحلیلِ بیان (Narrative Analysis) کہا جاتا ہے۔

تھیوری کی بابت جتنے بھی مضامین سامنے آئے ہیں، ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے، کہ نہ صرف تھیوری میں شامل تصورات پے چیدہ ہیں، بلکہ ان کی لفظیات اور اصطلاحات بھی خاصی مشکل ہیں۔ یہ رویہ قابلِ فہم ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو بذاتِ خود زبان ہے؛ یعنی عصری تھیوری کے تمام مباحث انگریزی زبان میں ہونے کے سبب، اردو زبان میں، لسان و ادب اور ثقافت کے مطالعات براہِ راست استفادہ نہیں کر سکتے۔ دوسری وجہ لسانی فلسفے اور عصری مباحث سے عدم واقفیت ہے۔

تیسری وجہ غیر ضروری روایت پسندی بھی ہے، جس کے مطابق مغربی متون سے مکالمہ مقامیت کا پلڑا بھاری ہونے سے مشروط ہے۔ علمی اور فکری پلڑے بلا وجہ بھاری یا ہلکے نہیں ہوتے بلکہ ہر بحث، فلسفہ یا تصور کا ایک ارتقا اور تاریخ ہوتی ہے؛ جس سے کسی بھی ثقافت کی عصریت کا تعین ہوتا ہے۔ ایک اور وجہ تھیوری کے تصورات اور اصطلاحات میں ترجماتی عجلت پسندی ہے؛ جس سے غیر مقامی اصطلاح کی ثقافت اور اس کی تفہیم میں فاصلے پیدا ہوتے ہیں۔

اور ان سب سے اہم وجہ خود مقامیت میں تھیورائزیشن کے عمل کا بحران ہے۔ تھیورائزیشن کا عمل ثقافتی اظہاریوں کی چھوٹی بڑی اکائیوں کے سائنسی اور تجنیسی مطالعہ اور تجزیہ سے مشروط ہے اور اس تنقیدی عمل ہی سے اصطلاحات سازی کی ثقافت تجسیم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں عصری جامعاتی طرزِ تحقیق و تنقید ہے جو جامعاتی ریاضت اور عام فہم میں فاصلے کا سبب بنتی ہے؛ حالاں کہ ساختیات کا تصور اتنا بھی مشکل نہیں ہے، کہ سرے سے ہی انکار کر دیا جائے۔

اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں اندازہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی، کہ درخت، پہاڑ، کھیت کھلیان، سبزیاں، پھل، مکانات، سڑکیں، چوک چوراہے، غرض ہر چیز نہ صرف ایک ساخت ہے بلکہ اپنی ساخت کی بنیاد پر ہر دوسری چیز سے مختلف ہے۔ ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ساختیاتی اصول فطرت کے مظاہر میں بھی کار فرما ہے۔ دنیا بھر کے تمام بچے پرندوں میں فرق کا شعور ان کی ساختوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اسکولوں میں بچے الف انار اور ب بکری پ پنکھا ان کی تصاویر سے سیکھتے ہیں؛ یہ تصاویر وہ مختلف ساختیں ہیں، جو حروف، الفاظ اور ان کے معنوں کا شعور دیتے ہیں۔

اس مشق میں لا شعوری طور پر بچے صوتی ساختوں کا ادراک بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہیں سے نشانات اور ان کی معنوی تشکیلات یعنی سیمیات (Semiotics) کا (لا) شعوری سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے، جو بعد ازاں اہم نظریاتی وابستگیوں اور جکڑ بندیوں پر ختم ہوتا ہے۔ اگر یوں سمجھا جائے کہ معاشرتی ساختوں میں رہنا انسان کی وجودی مجبوری ہے، تو بھی رسمی اور غیر رسمی تعلیمات تقسیمی اور تجنیسی عوامل سے مشروط نظر آتی ہیں اور ایک سطح پر وہ تمام لسانی، علامتی اور نشاناتی نظام، جس میں عورتیں اور مرد زندگی بسر کرتے ہیں، کا شعور ہی نظریاتی بن جاتا ہے۔ اس نظریاتی شعور میں خیالات کی تجسیم کو کسی مجرد زوایے سے مشروط کرنا، بہ ہر حال نا قابلِ اصلاح عمومیت پسندی ہے۔

پاکستان کے تمام شہروں میں اسلام آباد کا ساختیاتی ڈھانچا، دوسرے شہروں کے ڈھانچوں سے اس طرح مختلف ہے کہ یہاں علاقوں یا سیکٹرز کے نام انگریزی حروف تہجی، یعنی سیکٹر ایف، جی، ایچ، ای، آئی وغیرہ سے شناخت رکھتے ہیں۔ اس کے بر عکس دہلی، کلکتہ، لکھنو، کراچی، لاہور، راولپنڈی اور بر صغیر کے دوسرے شہر وں میں نو آبادیاتی تعمیراتی ساختوں میں ایک ساختیاتی مماثلت پائی جاتی ہے، مگر یہ عمارتیں دوسری مقامی عمارتوں سے مختلف ہیں۔

ان شہروں میں انگریز دور کی سرکاری اور نجی عمارات اپنے اسالیب (طرزِ تعمیر) سے پہچانی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کی عسکری عمارات اور عام گھروں میں فرق بھی ساختیاتی ہی ہے۔ آج کی دنیا میں بھی منہگی اقامتی اسکیموں اور عام پرانے روایتی علاقوں میں فرق ساختیاتی ہی ہے۔ یہ فرق طبقاتی بھی اس لیے ہے کہ ثقافتی ساختیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ایک کا رہن سہن، بول چال، ڈھال، مکانی حالت اور خواب و خواہش کی رفتار دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔

اس فرق کو فطری سمجھنا انسانی ارادے، حرکت، مسابقتی رگڑ، طاقت کے اسلوب اور ترجیحات پر مٹی ڈالنے کے مترادف ہے۔ زرعی معاشرت کے مکانات اور حویلیوں کا شہری دنیا کے مکانی ماحول سے فرق بھی، بنیادی طور پر ساختیاتی ہی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں عبادت گاہوں میں پہلا فرق تعمیراتی ہے؛ یعنی ہر مذہب اور فرقے کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، جن کی بنیادوں پر یہ تعمیرات اٹھائی جاتی ہیں۔ اس تعمیراتی عمل میں معمار کا تخیل آزاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس نظریاتی اساس کا پاس دار ہوتا ہے، جو اسے کسی نظریاتی ثقافت میں معماریت کا حق دیتا ہے۔

تاریخی ادوار اور ان کی ثقافتی روایات کو سمجھنے پرکھنے کے لیے بھی ساختیاتی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ آریہ قوم نے دراوڑ قو م کی ثقافتی ساختوں کو نہ صرف تبدیل کیا، بلکہ نئے فکری نظام کی ابتدا بھی کی۔ یوں مسلم سلاطین کی آمد تک بڑی حد تک ہندوستانی تہذیب میں ثقافتی یک سوئی پائی جاتی ہے۔ کوئی بھی حملہ آور اپنے ساتھ مقامی اور روایتی ساخت شکنی کے اوزار لازمی طور پر بھی ساتھ رکھتا ہے۔ ہتھیاروں کے علاوہ ان اوزاروں میں نظریہ، پیداواری ذرائع، تعلیمی اورتبلیغی نصاب وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں، جن سے ذہن سازی، شناخت سازی اور شخصیت سازی کا، جلد یا بدیر، کام لیا جاتا ہے۔

اس ثقافتی اور نفسیاتی عمل میں فرد کی جو پہلی شخصیت تھی، اس کو غیر ضروری سمجھ کر حاشیوں پر پھینک دیا جاتا ہے اور نئی پہلی شخصیت تشکیل دی جاتی ہے۔ یوں پہلے سے موجود پہلی شخصیت دوسری ہو جاتی ہے اور نئی تعمیر کردہ شخصیت پہلی ہو جاتی ہے۔ اصولِ بقا کے پیش ِ نظر فرد کے لیے اس ثقافتی تبدیلی کی قبولیت ہی وہ واحد راستہ ٹھہرتا ہے جو اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔ یہ فارمولا دنیا بھر کے تاریخی ادوار میں رائج رہا ہے؛ جس سے فرار کی خواہش بھی فرد کو کسی الم ناکی کا شکار کر سکتی تھی۔

سفید فام جب دوسرے علاقوں میں گئے، تو انھی ذرائع اور اسباب کو ساتھ لے کر گئے۔ انگریزوں سے صدیوں پہلے یہی ترکیب سلاطین سے مغلوں اور بعد ازاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر استعمال رہی۔ اس طرح ہر دور کا ایک ساختیاتی سچ قائم ہو جاتا ہے، جو جمع کی صورت میں مسلمات کہلاتے ہیں اور جنھیں جھٹلانے کی جسارت (ناقابلِ معافی) بغاوت سمجھی جاتی ہے؛ یہ کسی گھناؤنے گناہ سے کم نہیں ہوتی۔ بادشاہی ادوار میں امارت، ذہانت، فطانت، لطافت، اشرفیائی شرافت و صداقت، عداوت، عدالت اور بہادری جیسے تصورات پر ملکیت خواص ہی کو حاصل تھی؛ کیوں کہ خواص اشرافیائی سماجی اور ثقافتی ساخت ہیں۔

دوسرا بھی بہادر، منصف اورعاشق تھا مگر چوں کہ وہ ان ثقافتی صداقتوں میں دوسرا تھا، اس لیے اس کے ساتھ جڑے ہوئے اسمائے صفات خواص کے مقابلے میں کم تر حیثیت کے حامل تھے؛ سو تاریخی اوراق میں حاشیوں پر چلے گئے۔ دوسرے کی بہادری ایسے ہی دوسری تھی جیسے عام آدمی کی محبت کی شدت اور وسعت تاج محل کے ستون تلے دب کر رہ گئی۔ آج کے (جمہوری) عہد میں بھی پہلے کی کائنات کو، دوسرے کی دنیا پر ناقابلِ گرفت فوقیت حاصل ہے۔

جس تاریخی، سیاسی اور نسلی رویے کے خلاف مارکس اور نیلسن منڈیلا جیسے بڑے لوگ مزاحمت کرتے رہے، اشرافیہ کی طبقاتی حد بندیوں میں، وہی اپرتھیڈ فلسفہ کار فرما ہے۔ یہ ساختیاتی صداقتیں آج کی دنیا میں بھی ہر جگہ مختلف ثقافتی اظہاریوں مثلاً دساتیر و قوانین، طبقات، رسوم و روایات، نصابات، ادبیات و عبادات، نشانات اور علامتوں کی صورت موجود ہیں، جو سماجی اور سیاسی ماحول کو نظریاتی طور پر متحرک رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ اب چوں کہ ساختیات ہو یا سیمیات، سائنسی فکر و منہاج کے طور پر سمجھی جاتی ہیں؛ اس لیے ثقافتی ساختوں اور ان کے مروج و مقبول اظہاریوں کی مختلف اشکال کا استدلال کے ساتھ ایک ایسا مطالعہ کیا جاتا ہے، جس میں تخلیقی سوچ یا فکر کے ممکنہ پیٹرن (ڈھانچے) جانچے پرکھے جاتے ہیں۔

ان پیٹرنز کی جان کاری کی خاطر کچھ ماڈل تجویز کیے جاتے ہیں اور پھر ان ماڈلوں کے اطلاق سے دیکھا جاتا ہے، کہ کسی تمدن کا طبقاتی نظام ہو یا تخلیقی، کس نہج پر مکمل یا متخیل ہوا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو انسانی زندگی کے باقی اظہاریوں کی طرح ادب کی تمام اصناف بھی کچھ اصولوں اور فارمولوں (مبادیات) پر قائم نظر آتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تحلیلی عمل، یعنی تحلیلِ بیان میں صرف تخلیق ہی نہیں، تخلیقی سوچ کا پیٹرن بھی معلوم کیا جاتا (سکتا) ہے؛ ہر سوچ اور اس کا ممکنہ اظہاریہ بنا سیاق و تناظر ممکن نہیں۔

اب کسی تخلیقی فکر کا پیٹرن کسی حد تک انفرادی بھی ہو سکتا ہے اور اجتماعی ثقافتی رویہ بھی۔ بشریاتی، مارکسی اور اشتراکی فلاسفہ کی رُو سے، تو کسی بھی تخلیقی عمل میں علت و معلول کے رشتے متحرک ہوتے ہیں؛ جو اپنی اصل میں زمینی، ثقافتی اور مادی حوالے رکھتے ہیں، اس لیے متن یا تخیل کی آزادی اور خود مختاری یا غیر نظریاتی ہونے کا دعوی کم زور دکھائی دیتا ہے؛ جب کہ دائیں بازو کے دانشوروں کی ایک کثیر تعداد ان رشتوں میں انسانی قدرت اور جوہر کی خود مختاری کے ساتھ نصیب اور مقدر جیسے معاملات کو وسائل کی ایک ایسی صورت سمجھتے ہیں، جو ان کے عقائد کے مطابق، کسی تخلیقی عمل میں، خارج از امکان نہیں۔

اس رویے کے برعکس، ایسا ساختیاتی جائزہ، جس میں بنیادی اکائیوں کو تجریدی عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مارکسی ساختیات کے لیے قابلِ قبول نہیں؛ بھلے اس میں کتنی بھی دل کش لفظیات اور اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہو۔ مارکسی ساختیات، سیمیات اور بیانیات کے لیے وہی تنقیدی جائزہ قابلِ قبول ہے، جس میں تمام افعال و اعمال کو سماجی اور پیداواری رشتوں سے گزار کر دیکھا اور پرکھا جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو روسی ہیئت پسندوں اور کیمونسٹوں کے درمیان بھی باعثِ نزاع رہا ہے۔

مثال کے طور، امریکی مارکسی دانشور فریڈرک جیمسن نے اپنی کتاب

The Political Unconscious: Narrative as a socially Symbolic Act (198 )

میں، پال وَیک کے مطابق، روسی مفکرِ بیانیات ولادی میر پراپ کے ماڈل پر تنقید کی ہے اور اسے عالم گیر ماننے سے انکار کیا ہے۔ بات بھی درست ہے، کوئی بھی ماڈل ایسا بھی آفاقی سانچا نہیں ہوتا کہ ہر کہانی پر اس کا اطلاق کیا جا سکے۔ ممکن ہے بظاہر جمالیاتی جملوں میں لپٹی کہانی کسی بڑی نظریاتی سیاست اور سازش کا شکار ہو۔ جسے بیانیاتی ماہرین، محض اپنے میکانکی جائزوں اور مطالعات کی خاطر، صرفِ نظر کر دیتے ہیں۔ Paul Wake کے مطابق:

The type of structuralist theory exemplified here by Propp would later be criticized by Fredric Jameson in The Political Unconscious: Narrative as a Socially Symbolic Act (1981), where he suggests that the way in which Propp organizes his material is itself an overriding narrative. According to this view, narrative is about power, property and domination rather than universal archetypes. To consider plot in this way is to recognize its dual status as both a noun, ‘a/the plot’, and a verb, ‘to plot’. Reading plot as a verb insists on the presence of a plotting agent or agents. For example, the plot in ‘Gunpowder Plot’ refers to the intention of the conspirators, or plotters, to blow up the House of Lords in 1605. In this version of Narrative theory, questions of who has the authority to speak and of who controls narrative become central, and so the ‘official’ narrative of the events of 1605 was controlled by the state and legitimated the persecution of Catholics under James 1.
(Paul Wake, Narrative and Narratology)

اس طرح فرانسیسی ماہرِ بیانیات گریمس کا Actantial Model بھی پراپ سے بہت حد تک مماثلت کے باوجود مارکسی دانشوروں کے لیے کافی حد تک سود مند ہے؛ اس لیے کہ اس میں بھی طاقت اور آئیڈیالوجی کے مراکز سے پھوٹنے والی (غلبے کی) خواہش، منصوبہ بندی اور اس پر عمل داری کے کردار شامل ہوتے ہیں۔ اس عمل کو دونوں طرح سے دیکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ عام گرامر کی طر ح تجریدی بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ اس کتاب میں شامل رولاں باخت کا مضمون بھی آئیڈیالوجی کی رو سے دیکھا جا سکتا ہے؛ یہاں تک کہ اس کا اطلاق بھی دونوں حوالوں سے کیا جا سکتا ہے۔

خاص طور پر باخت (یا بارت) کا وہ ماڈل جس میں پانچ کوڈز (رموز) متعارف کرائے گئے ہیں، بھی ثقافتی نظریات کی شمولیت پر اصرار کرتا ہے۔ لہاذا بیانوی مطالعات اور ان کی اطلاقی اشکال میں تجزیات کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر داستان طلسمِ ہوش رُبا کا اطلاقی مطالعہ، بہ لحاظِ ساختیات اور بیانیات، آئیڈیالوجیکل بھی ہو سکتا ہے اور تجریدی طور پر بیانیاتی بھی؛ کیوں کہ یہاں ہیرو کی حرکی توانائیوں کا مرکز ایک خاص نظریاتی سیاق و تناظر رکھتا ہے، اس لیے اس کے تمام ہیرو ایک دوسرے کی مجازی اشکال ہیں۔

ثقافتی اظہاریوں میں ادبی متون اور ان کی اصناف میں تنوع بہت اہم ساختیاتی اشکال ہیں۔ داستان، جیسا کہ ہمارے علم میں ہے، ناول سے اور ناول افسانے سے اپنی ہیئت اور ساخت کے اعتبار سے بہت مختلف ہے۔ شعری داستان نثری داستان سے، مرثیہ غزل سے اور غزل (جدید) نظم سے، اس لیے بھی مختلف ہیں کہ ان کی ساختوں میں فرق نمایاں ہے۔ علمِ بیانیات (Narratology) کے اغراض و مقاصد بھی، انھی ساختوں کے فرق کوسمجھنے اور پرکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

لیکن اس سے بھی پہلے جو خیال چونکا دینے والا ہے، وہ یہ کہ ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے ساختیات، سیمیات اور بیانیات ایک دل چسپ عالمی سازش ہیں۔ وہ یوں کہ یہ تصورات، اپنی نہاد میں، نہ صرف تحلیلِ متن (بھلے وہ کتنی ہی بڑی نظریاتی رعنائی رکھتا ہو، یا کسی خاص ثقافت میں عظیم اسطورہ ہی کیوں نہ ہو) پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ (اطلاقی صورت میں) کسی بھی متن کی لسانی بنیادوں، لسانی اکائیوں میں رشتوں اور مبادیات کو دریافت بھی کرتے ہیں۔

بیانیاتی مطالعے کے مطابق ”کیا کہا جا رہا“ سے اہم ”کیسے کہا جا رہا“ ہے، اس لیے تحلیلِ متن کے سبب لکھاری کا اپنا اسطورہ بھی کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس عمل میں اجزائے ترکیبی کو الگ الگ کر کے دیکھنے کی روایت خالصتہََ سائنسی ہے۔ یہاں نہ تو کسی ”تخلیقی واردات“ سے بحث ہے نہ ہی ”آمد“ کی اساطیری شکل سے سروکار ہے۔ باعثِ تخلیق کوئی بھی محرک ہو، ان علوم کی رُو سے اہم نہیں، اس کے بر عکس، جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ متن کے ساختیاتی اور نظاماتی اصولوں کی دریافت ہے۔

یوں ساختیاتی اور بیانیاتی اصولوں کے مطابق تخلیقی عمل کا ماورائی سروکار ختم ہو جاتا ہے۔ مثلاً، پریم چند کا افسانہ ”کفن“ لیجیے، اس متن کی افسانوی عظمت اور معنویت سے، کم و بیش، ہم سب واقف ہیں۔ افسانہ اپنے آرٹ اور کرافٹ کے حوالے سے ایک بہترین فن پارہ اور ایک ساخت ہے۔ لیکن یہ افسانہ کن ساختیاتی اصولوں پر قائم ہے، یہ قضیہ حل طلب ہے۔ اگر تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ایک پلاٹ ہے، جس میں ایک ابتدا ہے، وسط ہے اور پھر پلاٹ کا انت ہے، دو کردار مرد ہیں، دونوں بے حس ہیں، ایک عورت ہے جو موت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور ایک لوکیل ہے جو چماروں کی کٹیا ہے، وغیرہ وغیرہ، تو عرض یہ ہے کہ یونانی مفکر ارسطو، ان اصولوں پر تقریبا تین سو سال قبل مسیح ایک جامع بحث کر چکا۔

اس بحث پر، قبل از ساختیات، ہزاروں تشریحات لکھی گئیں۔ اس مدلل بحث کی اہمیت اور افادیت سے مفر نہیں، لیکن اب بیس بائیس صدیوں بعد، افسانے کی ہیئت اور ساخت کے حوالے سے، انھی خیالات پر نقل در نقل بحث اور وہ بھی بغیر کسی تنقیدی سنجیدگی اور تہہ داری کے، کسی بھی ناقد کے تنقیدی دعوے پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہے۔

جس طرح انسان کے ارتقا کے ساتھ ذرائع پیداوار بدلتے ہیں، اسی طرح تنقیدی آلے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں، روسی ہیئت پسندوں سے لے کر موجودہ (اکیسویں صدی) کے تنقیدی ثقافت تک، تخلیقی فن پاروں کی ہیئت و ساخت پر ارتکاز ہوتا رہا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ قدما اپنے اپنے میدان میں رولز آف دا گیم کا ادراک نہیں رکھتے تھے۔ علمِ بیانیات اور ساختیات کی ابتدائی شکلیں افلاطون اور ارسطو کی تصانیف میں ملتی ہیں۔

ارسطو نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف بوطیقا میں ڈرامے کی ساختوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا، جس سے ادب کے تمام طالب علم واقف ہیں لیکن بیانیات کی عصری مباحث میں دو اصطلاحات، جن پر یونانی مفکرین نے خصوصی ارتکاز کیا، وہ Diegesis اور Mimesis ہیں۔ اول الذکر کا تعلق (کسی واقعہ کے) بیان کرنے سے ہے، جب کہ موخر الذکر ایک نقالی (Mimicry) کا عمل ہے۔ ماہرین بیانیات diegesis کو telling سے منسوب کرتے ہیں، جب کہ mimesis کو showing سے۔

یہیں سے ہمیں اصناف میں classification کا تنقیدی عمل دکھائی دیتا ہے، جو آیندہ زمانوں میں اہم مباحث کے اِجرا کا باعث بنتا ہے۔ یعنی diegesis کسی کہانی کو بتانے کا فن اور روایت جیسے، قصہ یا داستان (Epic)، اور Mimesis ڈراما اور تمثیل نگاری۔ ان دونوں اصطلاحات کو یک سر الگ دیکھنے کی روایت، اس وقت کم زور محسوس ہوتی ہے؛ جب ہم اردو مرثیے کا ساختیاتی جائزہ لیتے ہیں۔ عمومی طور پر مغربی مرثیہ ایک غنائیہ (لیریکل آرٹ) سمجھا جاتا ہے، جب کہ اردو مرثیہ Narrative art یعنی بیانوی فن ہے، جس میں نہ صرف کہانی ہے، بلکہ اس کہانی میں جگہ جگہ ڈرامائی تشکیلات شامل ہوتی ہیں، جو بیانیے میں کرداروں کی الم ناکی کا باعث بنتی ہیں۔

کلی طور پر تو مغربی مرثیہ بھی Descriptive آرٹ نہیں، نہ ہی کلی طور پر اردو مرثیہ بیانوی ہے، البتہ جو بات بحث طلب ہے وہ اردو مرثیے میں telling اور showing کے عناصر کے ممکنہ حصوں اور ان کے patterns کی کھوج ہے۔ یعنی ایک مرثیہ میں مرثیہ نگار کتنی سطریں صورت احوال یا کردار کو Describe کرنے میں وقف کرتے ہیں اور ان حصوں کو قصہ، کہانی یا داستانوی انداز (Narrative) میں کس طور ڈھالتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں، کہ ناول اور افسانہ نویس بھی بتانے کے ساتھ ساتھ کچھ دکھا بھی رہے ہوتے ہیں۔

یعنی ڈرامے اور کہانی (داستان، ناول اور افسانہ) میں، اصنافی فرق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، بتانے telling اور دکھانے showing کا عمل ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ قصہ اور کہانی، بھلے وہ سادہ سی، عام فہم ہی کیوں نہ ہو، فعل کے بغیر ممکن نہیں؛ فعل کہانی کے narrative pattern میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک سادہ سے انگریزی یا اردو کے جملے میں adverb استعمال ہو جاتا ہے، جس سے فعل کی قدرت کے ساتھ دیگر معلومات، یعنی کب کیسے اور کہاں اور کتنی بار ہوا وغیرہ کا ادراک ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ’شام سات بجے پنجرے میں ست رنگی پرندے نے اونچی آواز میں بار بار گانا گایا‘ ایک بیانوی جملہ ہے، جس میں شور مچانا اسمِ فعل ہے اور شام سات بجے adverb of time ہے، پنجرہ adverb of place، اونچی آواز میں adverb of manner اور اسی طرح بار بار adverb of frequency ہے۔ اس جملے میں ان تراکیب کا استعمال بتانے telling کے علاوہ کچھ دکھانے showing سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ ڈرامے کی صنف بنیادی طور پر اور خاص طور پر اسٹیج ڈرامے کی پیش کش کسی پیش منظر کی عکس بندی ہی ہوتی ہے، مگر ایسا نہیں کہ اس میں telling نہ ہو۔ اس ڈرامائی صورت احوال میں بھی کہانی ہی بنیاد ہوتی ہے؛ لیکن اس میں فعل کا ماضی سے مشروط ہونا نہیں ٹھہرتا۔ سب کچھ زمانہ حال میں ناظرین یا تماشائیوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر یہ صورتِ احوال زمانہ حال کی بن جاتی ہے؛ بھلے کہانی ماضی کے کسی کردار یا کرداروں کی پیش ہو۔

تمثیل کے عمل میں لفظ نقل یا سانگ (سوانگ) پر جو مباحث افلاطون اور ارسطو نے اٹھائے اس پر ایک اہم گفت گو ری پریزنٹیشن کے عمل پر ہے، جوعصری بیانیات میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ اس بحث کے مطابق، بادی النظر میں ڈراما، کہانی میں کسی کردار یا واقعے کی پیش کش (presentation) ہی سامنے کی حقیقت نظر آتی ہے، مگر اکثر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس presentation کی صورت احوال میں representation کا عمل بھی شامل احوال ہوتا ہے؛ جس کا لغوی اور ثقافتی مطلب محض پیش کش سے مختلف ہو جاتا ہے۔

یعنی ترجمانی کا یہ عمل، مصنف یا راوی کے قلم کی دین ہوتا ہے؛ جس کے پیچھے مصنف کا (لا) شعور ہوتا ہے، جو کسی بھی کردار یا صورت احوال کو اپنی خاص نظر سے دیکھنے اور متشکل یا تجسیم کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اب مصنف (تمثیل نگار یا فسانہ نویس) کا شعور خود مختار ہے یا نہیں، یہ قضیہ مارکسی اور پسِ ساختیاتی مفکرین کے لیے تو بہت اہم ٹھہرتا ہے، لیکن دائیں بازو کے دانشور کبھی فرائڈ کی نفسیات اور کبھی مابعد طبیعیاتی کلامیوں کا سہارا لیتے ہوئے، شعور اور مادی و تاریخی محرکات میں کسی منطقی ربط سے لا تعلقی اختیار کرتے ہیں۔ یوں تحریر کی ساختوں اور پیٹرنز کے (مبینہ) مخزن کی کھوج کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔

اس مضمون کے عنوان میں تین اصطلاحات ساختیات، سیمیات اور بیانیات کا ایک ساتھ آنا، بنا سبب نہیں۔ بیانیاتی مطالعہ بھی ساختیاتی مطالعہ ہے، لیکن اس مطالعے میں فکشن کے متون کا ہونا لازم ہے۔ ساختیات کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماہرینِ ساختیات نے دونوں اقسام کے متون، فکشنل (منظوم کہانی اور داستان، ناول، افسانہ، قصہ، کہانی وغیرہ) اور غیر منظوم شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا، لیکن جس تنقیدی ثقافت کو شہرت ملی، وہ بے شبہہ بیاناتی ساختیات ہی تھی۔

جن مشہور بیانیاتی مفکرین کے، اس کتاب میں، مضامین کے تراجم شامل ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کلاسیکی ساختیات ہی سے ہے۔ جس طرح ساختیات اور پسِ ساختیات ثقافتی متون کی تفہیم و تشریح اور تعبیر کے دو مختلف زاویے ہیں، اسی طرح بیانیات کے بھی دو اہم حصے ہیں: کلاسیکی بیانیات اور مابعد کلاسیکی بیانیات۔ کلاسیکی بیانیات کا اہم سروکار متون کی ہیئت اور بنت کے اصولوں اور پیٹرنز کی کھوج سے ہے، جب کہ مابعد کلاسیکی بیانیات ان تمام سوالات اور سماجی قضیات کی شمولیت کا اصرار کرتی ہے، جو پسِ ساختیات کا سروکار ہیں۔

مثال کے طور پر فرد کی موضوعیت، طبقاتی مسائل، نسلی تفاوت، طاقت، خواہش، نظریہ، جنس، زبان، ثقافت اور صنفی مسائل وغیرہ بھی شعوری اور لا شعوری طور پر فکشنل متون کا حصہ بنتے ہیں، اس صورت میں ہیئت اور ساخت خاص قسم کے بیانیوں میں ڈھل کر فکشن کا حصہ بنتے ہیں۔ ایسی صورت میں ساخت اور مسئلہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہو جاتے ہیں اور ان دونوں کے مطالعے ہی سے بیانیاتی انصاف ممکن ہے۔ تیسری اصطلاح سیمیات کی استعمال کی گئی ہے، جس کی وجہ بھی ساختیاتی مفکرین ہی ہیں۔ سوسیئر سے لے کر باخت تک تقریبا تمام ساختیاتی اور بیانیاتی مفکرین جگہ جگہ سوسئیر کے متعارف کردہ لسانی تصورات کو بیانیات کا حصہ بناتے ہیں۔

البتہ یہ درست ہے کہ بیانیات کی بحث کا اجرا فرانسیسی مفکرین سے پہلے روسی ہیئت پسند، مارکسی اور کیمونسٹ دانشوروں کے تصورات کے رد عمل میں، اپنے مختلف مضامین میں کروا چکے تھے۔ ان کے دونوں کے درمیان پل کا کردار باختین اسکول نے ادا کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ان ناقدین کے مضامین نے روسی ساختیات اور مغربی اسلوبیات پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اس کتاب میں جو مضامین پیش کیے گئے ہیں، ان میں بھی روسی ہیئت پسندوں کا بیانیاتی اثر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ساری علمی اور اطلاقی روایت کا اثر یہ ہوا، کہ اب دنیا کی شاید ہی کوئی کہانی ہو جس کا احاطہ علمِ بیانیات کا حصہ نہ بنتا ہو۔ اس تنقیدی عمل کی کا حسن اس یقین پر ہے کہ زبان اپنی کہانی کی طرح یا کہانی اپنی زبان کی طرح ایک سماجی اور ثقافتی سرگرمی ہے اور مختلف لسانی اکائیوں کے روایتی انسلاک و افتراق ہی سے ایسے جملے، محاورے اور مضامین تشکیل پاتے ہیں، جو انسانی فہم و ادراک اور شعور کو متشکل کرتے ہیں۔

جہاں تک بات اصطلاحات اور ان کے تراجم کی ہے، تو یہ خاصا مشکل کام ہے؛ جو عصری ناقدین کی اردو زبان و ادب سے وابستگی کا ایک علمی اور شعوری اظہار ہے۔ کسی بھی دوسری زبان کی طرح اردو کا دامن بھی خاصا وسیع ہے، جس میں دنیا بھر کی لفظیات کی شمولیت کی گنجایش موجود ہے۔ زبان نظریاتی ہوتے ہوئے بھی خاصی حد تک آزادی پسند ہوتی ہے۔ اگر ایک جگہ سے اسے ٹھوس دیواروں کا سامنا کرنا پڑ جائے تو یہ دوسری طرف سے مکالمے کی گنجایش نکال لیتی ہے۔

جس طرح دوسری زبانوں نے روسی ہیئت پسندوں کی اصطلاحات مثلاً فیبولا (کہانی) اور سوجے (پلاٹ)، وغیرہ کو ا اپنی تنقیدی لفظیات کا حصہ بنایا ہے، اسی طرح اردو زبان میں ان لفظیات اور اصطلاحات کی شمولیت کسی طرح بھی زبان دشمنی نہیں ٹھہرتی۔ جیسے کہانی کے پلاٹ کا اردو زبان میں کوئی نعم البدل تلاش نہیں کیا گیا، اسی طرح اگر تھیوری کی کچھ اہم اصطلاحات بھی شامل ہو سکتی ہیں، تو کوئی مضائقہ نہیں۔ عمومی طور پر تو یہ دیکھا گیا ہے کہ اردو زبان میں بھی غیر ضروری معرب و مفرس تراکیب تفہیم و تعبیر میں مشکلات کا باعث بنتی رہی ہیں اور تھیوری کے مباحث کے حوالے سے، خصوصاً، اصطلاحات اور تصورات کے تراجم میں عجلت پسندی، تھیوری کے تصورات سے مغائرت کا سبب بن رہی ہے۔

تنقید کا ذوق رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ اسٹرکچر اور ساخت دونوں ہی مشہور الفاظ ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک لفظ کا بھی استعمال ممکن ہے۔ البتہ کوشش ضرور ہونی چاہیے کہ ترجمہ کرتے وقت ایسی تراکیب کا انتخاب کیا جائے، جو دوسری زبان کی ترکیب یا اصطلاح کی ثقافتی نفسیات سے انصاف کر سکے۔ مثال کے طور پر اردو زبان میں ’فیمینزم‘ کا کوئی بھی ترجمہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اسی طرح کچھ لوگ ’ڈسکورس‘ کا ترجمہ ’بیانیہ‘ سے کرتے ہیں، جو ایک کم زور ترجمہ ہے، اس کے مقابلے میں ’کلامیہ‘ بہتر ترجمہ ہے، Semiotics کا ترجمہ ’نشانیات‘ سے کیا جاتا ہے، جو بالکل مناسب ترجمہ نہیں۔

خاص طور پر اس وقت جب دیگر مقامی زبانوں میں عورت کی آزادی اور اس کے حقوق کا معاملہ ہو، لفظ ’تانیثیت‘ اور ’نسائیت‘ ثقافتی طور پر کم زور دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی نسائیت اور تانیثیت پاکستان میں بولی جانے والے دیگر زبانوں میں غیر مقبول الفاظ ہیں، نا ہی پنجابی عورت لفظ ’نساء‘ کی سگنی فائڈ ہو سکتی ہے، لفظ ’فیمینزم‘ کی ثقافت اور اقسام دیکھتے ہوئے اندازہ ہو گا، کہ معاملہ کتنا پے چیدہ ہے۔ قصہ مختصر کچھ تراکیب و تصورات کا ترجمہ، اگر ممکن نہ بھی ہو تو علمی ارتقا نہ رکتا ہے۔ نا ہی رکنا چاہیے۔

بیانیات سے حوالے سے تو یہ بات اور بھی اہم ہے، کیوں کہ اب تو سیمیات، ساختیات اور بیانیات کی لغات اور انسائیکلو پیڈیا بھی شائع ہو چکے ہیں؛ اس لیے علمی اور تحقیقی مباحث کو مزید الجھانے کی بجائے سلجھانے پر فوکس کرنا ضروری ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بیانیات کے مباحث کے اجرا سے ایک تو لسانیات سے فکری جڑت نا گزیر ہوجائے گی، جس سے نا صرف اردو لسانیات کو فروغ ملے گا، بلکہ اس بحث کی مدد اور حوالے سے بیانیات کی تفہیم و تعبیر میں وسعت اور گہرائی بھی پیدا ہوگی۔

خاص طور پر وہ دلیل جو ادب اور زبان کو الگ تھلگ دیکھنے پر مصر رہی ہے، کم زور دکھائی دے گی۔ اسی طرح تنقیدی میدان میں بھی لسانیات مشروط ہونے سے ایک نیا پیراڈائم دریافت ہو گا اور اس دریافت سے وہ ارتقا ممکن ہے، جس کی خواہش ہمیشہ سے ادیب اور ناقد کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے یہاں Discourse analysis جس کا ترجمہ ’تحلیلِ کلام‘ سے کیا جا سکتا ہے، سے عدم واقفیت متن کی روایتی تنقیدی کلامیوں سے غیر ضروری جڑت کاباعث (رہی) ہے۔ تحلیلِ بیان سے تحلیلِ کلام کا سفر متن، سیاق اور تناظر کی تثلیث کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، ایسی تفہیم اور تعبیر کا محرک بن سکتا ہے جو منطقی بھی ہو اور پر کشش حد تک سود مند بھی۔

اردو میں بیانیات کے پیراڈائم کی دریافت ایک خوش گوار حیرت سے کم نہیں۔ تخلیق، تنقید اور تحقیق تینوں حوالوں سے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ خاص طور پر جامعات میں یہ کتاب تحقیقی موضوعات میں وسعت اور تنوع کا باعث بنے گی اور عین ممکن ہے ہمارے ناقدین، مغربی ماڈلز سے مکالمے کے بعد، اپنی مقامیت سے ایسے ماڈلز تخلیق کرنے میں کام یاب ہو جائیں، جو مقامی فکشن کے متون کی پرکھ میں مغربی سانچوں سے زیادہ پرکشش ہوں۔ اردو میں فکشن کے تراجم ہوتے رہتے ہیں لیکن فکشن پر تنقید کے تراجم نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس کی وجہ، ہماری ثقافت میں، تنقیدی اختصاص کا بحران ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ایسی کتابوں کی اشاعت سے سوچ کے نئے در وا ہوں گے اور ہمیں اپنی کلاسیکی روایت کو پھر سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم خود ایسے ٹولز دریافت کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے، جو پاپولر اورسنجیدہ فکشنل متون میں فرق معلوم کر سکتے ہوں۔ جس طرح ای ایم فاسٹر نے کہانی اور پلاٹ میں فرق محسوس کیا، عین ممکن ہے ہم بھی اس تنقیدی شعور تک رسائی حاصل کر لیں جو کسی جدید افسانے کو کہانی سے الگ دیکھتا ہو۔

یہ سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ایک نظریاتی سماج میں قاری اساس تحریریں کہاں تک فکشن کو پاپولر نصاب کی پاس داری پر مجبور کرتی رہی ہیں۔ بصری بیانیوں کی بابت بھی یہ کہا جا سکتا ہے؛ اشتہارات، کارٹون اور دوسری تمثیلیں بھی اپنے ساختوں میں کچھ اصول اور رولز آف دا گیم رکھتی ہیں۔ صارفی ماحول میں ان اصولوں کی کھوج ہمیں مقبول ثقافت کا اسلوب سمجھنے میں راہنمائی کر سکتی ہے۔ سعادت حسن منٹو سمیت بہت سے فکشن نگاروں کے افسانوں ناولوں پر فلمیں ڈرامے بن چکے ہیں۔

بیانیوی مباحث سے ہمیں ان ٹولز کو سمجھنے میں مدد ملے گی جو فلم اور اصل متن میں فرق دکھاتے اور محسوس کراتے ہیں۔ یہ کام، خصوصاً، وہ لوگ بہتر طور پر کر سکتے ہیں جو ویژول نیریٹوز سے شغف رکھتے ہیں؛ خواہ ان کا علاقہ انگریزی ہے یا اردو۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مقامیت کی فکشنل روح کو دریافت کر نے میں جامعات کے ساتھ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے بھی بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ایک نئے موضوع پر اتنا مواد اکٹھا کرنا اور پھر ایک کتاب میں ڈھالنا، بہر حال مشکل کام تھا۔ اس کام یابی کا سہرا اردو تنقید میں ایک جانی پہچانی شخصیت قاضی افضال کے سر جاتا ہے، انھوں نے ہمیشہ مشرق و مغرب میں علمی مکالمے کی فضا کو فروغ دیا ہے۔

زویتان تودوروف Tzvetan Todorov، ژرارژینت (جیرار جین۔ َٹ Gerard Genette)، مائیکے بال (Mieke Bal)، وین سی بوتھ (Wayne C۔ Booth) اوررولاں بارت یا باخت (Roland Barthes) جیسے مفکرین اور ان کے مضامین کے تراجم کے ساتھ، بیانیات کے مشکل موضوع پر، مقامی ناقدین کے مضامین کی ایک ہی کتاب میں اشاعت، یقینا ایک تاریخی کام ہے؛ اس کے لیے نا صرف مصنفین، مترجمین اور خود قاضی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں بلکہ ان ساتھ ساتھ عکس پبلشرز کے روح و رواں، محمد فہد اور نوفل جیلانی کی کوششیں بھی لائقِ تحسین ہیں۔ اختلاف کرنا تو عام چلن ہے لیکن ایک مختلف کام کی عملی صورت، ان پاپولر کلامیوں سے کہیں بہتر ہے جو کچھوے اور خر گوش کی کہانی میں قواعد کی پرکھ پر نہیں بلکہ اخلاقی سبق پر فوکس کرتے ہیں۔

اکتوبر 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).