آنٹی انکروچمنٹ


”آنٹی جی

آنٹی جی

گٹ اپ اینڈ ڈانس! ”

ہمارے ملک میں ہر شے ایک نعرہ ہے۔ ہر خبر دراصل کسی نوع کا بیان ہے۔ ہمارے ملک میں مستقل کچھ بھی نہیں۔ ہر انتظام عارضی ہے، وقتی ہے۔ ہر تحریک محض ابال ہے اور کچھ بھی نہیں۔ آج کل ایک نیا قسم کا ابال بڑے زور سے اٹھا ہے اور وہ ہے انٹی انکروچمنٹ ڈرائیو۔ یعنی انسداد تجاوزات مہم۔ اب راقم کیونکہ تہذیب کے تقاضوں کا کوئی خاص پابند نہیں اور تصنع سے نفرت کرتا ہے اس لئے نہ جانے کیوں راقم کے دل میں تحریک انصاف اور ان کے ”ڈیڈی“ جی کے لئے اعلیٰ قسم کی لکھنوی اور دہلوی گالیاں آتی ہیں۔

راقم کا دل چاہتا ہے کہ ان سب کی ہجو لکھنے اور ان پر لعنت اور نفرین مغلظات کی صورت میں ادا کرے۔ دل تو بڑا معصوم اور مجبور ہوتا ہے اور خالص نفرت بھی بڑا خوبصورت جذبہ ہے مگر پھر راقم صرف و محض خوف کی وجہ سے اپنے قلم کو لگام دے دیتا ہے۔ مگر یہاں وضاحت کر دی جائے کہ یہ خوف تحریک انصاف کے کارکنوں یا کٹھ پتلی حکومت کا نہیں ہے۔ یہ خوف ان کے دائمی ”ڈیڈیوں“ کا ہے جن کی وگ تک سفید ہو چکی ہے۔

خیر اگر تھوڑا غصہ قاری کو آ گیا ہو تو راقم کا مشورہ ہے کہ شوق سے اپنے خرچے پر دو روٹی زیادہ کھائے اور جان بنائے۔

بات یہ ہے حضور کہ ہر انکروچمنٹ ایک انحراف ہوتی ہے۔ تو پاکستان کی تاریخ میں آئین پاکستان سے پہلا انحراف کب ہوا تھا؟ یہ ایوب خان، جن کی وڈیوز بڑے فخر سے خان صاحب اپنی جلسیوں میں دکھاتے پھرتے ہیں کیا وہ ایک منتخب سربراہ مملکت تھے؟

کیا یحییٰ خان صاحب منتخب سربراہ مملکت تھے؟ پھر چلو انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر انتخابات کرا دیے تو پھر حکومت عوامی لیگ کو کیوں نہ دی گئی؟ کیا بھٹو اور یحییٰ نے یوں حکومت اکثریت کو منتقل نہ کر کے انحراف نہ کیا؟ پھر بھٹو کی حکومت کو گرانا آیا ضیاء الحق کا انحراف نہ تھا؟

سوال یہ بھی تو ہے کہ اس ملک میں کوٹہ سسٹم ہے، تو یہ کوٹہ سسٹم اہلیت کا دشمن بنا ہوا ہے، تو جناب والی کیا یہ کوٹہ سسٹم ایک آئینی انحراف نہیں ہے؟

پھر سوال یہ بھی تو ہے کہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ء کو جو کیا، کیا وہ انحراف نہ تھا، تب عدلیہ نے اس انحراف کو ایوب، ضیاء، یحییٰ کے انحرافات کی طرح Regularize نہ کیا تھا؟

حضور والی یہ نظریہ ضرورت کس چڑیا کا نام ہے اور یہ ایمرجنسی کیا ہوتی ہے؟ پھر سوال یہ بھی تو ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسے 1947 ء سے آج تک اس ملک کے آئین و قانون سے اسلام کو اجنبی بنا کر جدا رکھا گیا ہے، اس ملک کے اقتدار پر، اختیار پر اور ہر اہم منصب پر سیکولر اور لبرل چڑھ بیٹھے ہیں جو جنرل بپن راوت کے ہم خیال ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ”اسلامی“ جمہوریہ میں اقتدار انحراف نہیں ہے؟

پھر حیرت یہ بھی تو ہے کہ علیم خان، شیخ رشید اور بابر اعوان جیسے لوگ اور خالد مقبول اور مہر جیسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ملک میں انقلاب آ گیا ہے، اب سے سب اچھا ہو گا۔ یہ ہے ریاست مدینہ؟ (نعوذ باللہ)

یہ ملک اور اس کی 7 دہائیوں پر محیط تاریخ ہی بری طرح انکروچمنٹ میں ڈوب چکے ہیں۔ یہ ایمپریس مارکیٹ، یہ عمر فاروقی کپڑا مارکیٹ، یہ لنڈا بازار یہ سب تو خیر انکروچمنٹ تھی بھی نہیں اور اگر انحراف تھا بھی تو بہت چھوٹا اور خفیف سا۔ جس ملک کی 55 فیصد آبادی والا صوبہ محض 24 سال میں اس سے الگ کر دیا گیا ہو اور اس علیحدی کے ذمے داروں کی اولادوں کو الگ الگ مخالف اور متحارب جماعتوں نے گورنر سندھ اور وزیر خزانہ بنایا ہو تو سوچنے کی بات ہے کہ وہاں کیا کیا ممکن نہیں ہے اور ناممکن ہے کیا؟

مگر ابھی غریب آڑھتیوں کی دکانوں کے ٹوٹنے پر اور مزدوروں کے مکانات کے منہدم ہونے پر عمران خان اور ان کے ”ڈیڈیوں“ کو بڑا نشہ آ رہا ہے کہ واہ کیا انقلاب آ گیا۔ کہیں پڑھا تھا کہ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا جب زوال شروع ہوا تو دربار میں کوٹھے والیوں اور ان کے ماموؤں کا بڑا دخل ہو گیا تھا۔ تب ایک بادشاہ دریا کے کنارے ایک طوائف کے سنگ بیٹھا تھا، طوائف نے بادشاہ سے کہا کہ اس نے کبھی کوئی کشتی ڈوبتی نہیں دیکھی، سامنے سے ایک کشتی جا رہی تھی، بادشاہ صاحب نے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور انہوں نے فوراً کشتی ڈبا دی۔

یوں طوائف کی خواہش پوری ہو گئی، غریب کی زندگی تو ہے ہی ایک مذاق۔ اسے اگر ختم کر بھی دیا جائے تو کسی پر کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ تو طاقتوروں کا تماشا ہے۔ چلو یہ گھر گرا کر دیکھتے ہیں کی کیسا نظارہ ہوتا ہے، چلو یہ دکان گراتے ہیں۔ شاید اس صورت حال کا واحد حل یہ ہے کہ جس جس کی دکان یا گھر گرایا جائے وہ اجتماعی خودکشی کر لے۔ اس لئے کہ یوں ہمارے ملک کی آبادی بھی قابو میں آئے گی اور معیشت پر بھی دباؤ کم ہو جائے گا، ڈیڈی صاحبان بھی خوش، کٹھ پتلی خان بھی خوش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).