امریکہ میں شدت پسندی کے الزام میں 24 برس کی سزا پانے والے پاکستانی نژاد امریکی شہری حمید حیات کی سزا ختم کرنے کی سفارش


پاکستانی امریکی دہشت گردی

امریکی ریاست سیکرومینٹو کے قصبے لوڈی کی وہ مسجد جہاں سے حمید حیات نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔

کیلیفورنیا کی ایک فیڈرل مجسٹریٹ نے سفارش کی ہے کہ شدت پسندی کے الزام میں تقریباً چودہ برس سے جیل میں قید پاکستانی نژاد امریکی شہری حمید حیات کی سزا ختم کردی جائے۔

انھیں شدت پسندی کے الزام میں 24 برس قید کی سزا دی گئی تھی۔

حمید حیات کو پاکستان جا کر شدت پسندی کی تربیت حاصل کرنے اور امریکہ میں حملے کرنے کی منصوبہ بندی کے الزامات میں دی گئی سزا سنہ 2006 میں سنائی گئی تھی۔ انھیں اپنے والد عمر حیات سمیت شدت پسندی کے شبے میں سنہ 2005 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پاکستان کے ساتھ ہے‘

’امریکہ میں دہشت گردی کا خطرہ‘

تفتیش کے طریقوں سے زندگیاں بچیں: بش

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک شہر سیکرومینٹو کی مجسٹریٹ ڈیبورا بارنس نے کہا ہے کہ حمید حیات کا دفاع کرنے والی وکیل اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے اپنا کام صحیح طرح سرانجام نہ دے سکیں جس کی وجہ سے اُنھیں سزا ہوئی تھی۔

اپنے ایک سو سولہ صفحوں کے فیصلے میں مجسٹریٹ بارنس نے لکھا ہے کہ ’دفاع کے وکیلوں کی جانب سے سماعت کے دوران کمزور پیروی کی وجہ سے حمید حیات کے مقدمے میں قانونی حقوق پورے نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان کے خلاف پیش کیے گئے گواہوں کی صحیح جرح کی گئی تھی‘۔

بین المذاہب کے رابطے کی ایک مقامی تنظیم کے رہنما نے کہا ہے کہ ’جس زمانے میں حمید حیات کو سزا دی گئی تھی اس ماحول میں دہشت گردی کا الزام سزا کے مترادف سمجھا جاتا تھا‘۔

سیکرومینٹو کے قصبے لوڈی کی مقامی مسجد میں ایف بی آئی نے ایک مخبر کو انتہا پسند سرگرمیوں پر نطر رکھنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالرز دیے تھے۔

اس مخبر نے ایف بی آئی کو خبر دی تھی کہ اس مسجد میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے رہنما آتے ہیں۔ اور اسی مخبر نے یہ بھی مخبری کی تھی کہ حمید حیات کے خیالات انتہا پسندانہ ہیں اور ’وہ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے پاکستان میں قتل کو درست اقدام سمجھتے ہیں‘۔

حمید حیات اور ان کے والد پر الزامات

امریکہ میں پھلوں کے باغات میں کام کرنے والے حمید حیات سنہ 2005 میں پاکستان شادی کے سلسلے میں گئے تھے۔ مگر واپسی پر انھیں پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے اور امریکہ میں دہشت گردی کے حملے کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اُن کے والد عمر حیات پر اپنے بیٹے کے بارے میں غلط معلومات دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے لیکن انھیں سزا دینے پر جیوری میں اتفاقِ رائے نہ ہو سکا تھا، اس لیے انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔

تاہم حمید حیات پر ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے اور دہشت گردی کی کارروائی میں اعانت کے دو الزامات عائد کیے گئے تھے اور انھیں چوبیس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سزا کے بعد حمید حیات نے اس فصلے کے خلاف ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ تاہم وہاں بھی تین ججوں کے پینل میں سے دو نے ان کی سزا برقرار رکھی تھی جبکہ ایک جج نے اپنے نوٹ میں انھیں بری کردیا تھا۔

اختلافی نوٹ لکھنے والے جج والیس تشیما نے کہا تھا کہ ’حمید حیات کو سزا ان نا معلوم جرائم پر دی گئی جن کا تعلق اُن سے مستقبل میں سرزد ہو جانے کا خدشہ تھا (مگر انھوں نے یہ جرائم کیے نہیں تھے)۔

جج تشیما نے لکھا تھا کہ ’قانون میں اس بات کی گنجائیش ہے کہ مستقبل میں جرم سرزد ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے، لیکن پھر ایسی صورت میں ‘مقدمہ ہر لحاظ سے منصفانہ ہونا چاہیے۔

‘لیکن (حمید) حیات کا مقدمہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔’

پاکستانی امریکی دہشت گردی

امریکی استغاثہ نے حمید حیات پر پاکستان میں القاعدہ کے کیمپوں میں جا کر ٹریننگ حاصل کا الزام عائد کیا تھا

حال ہی میں مجسٹریٹ بارنس نے مقدمے کی سماعت کے دوران اُن گواہوں کے بیانات ریکارڈ کروانے کا موقع دیا جو حمید حیات کے پاکستان میں قیام کے دوران کی سرگرمیوں کو شواہد کے ساتھ پیش کرنا چاہتے تھے۔

سیکرومینٹو ویلی میں کونسل آف امریکن اسلامک ریلشنز کے ڈائیریکٹر بسیم الکرّہ نے مجسٹریٹ کے فیصلے پر رد عمل میں کہا کہ ’اس مقدمے میں استغاثہ نے حمید حیات کو سزا دلوانے میں گیارہ ستمبر کے بعد کے جنونی حالات کا فائدہ اٹھایا تھا‘۔

سنہ 2005 میں گرفتاری کے بعد ایف بی آئی نے الزامات میں کہا تھا کہ ’حمید نے پاکستان میں اپنے قیام کا بیشتر حصہ القاعدہ کے ٹریننگ کیمپس میں بسر کیا تھا۔ اور وہ واپس امریکہ میں سویلین اہداف پر حملوں کے ارادہ لے کر آئے تھے۔‘

تاہم حمید حیات کا دفاع کرنے والے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان شادی کرنے گئے تھے۔

ایف بی آئی نے اپنے الزامات کی حمایت میں حمید حیات اور اس کے والد عمر حیات کے اقبالی جرم کی ریکارڈنگ بھی پیش کی تھی۔ مگر دفاع کے وکیل وژمہ مجددی کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی نے یہ اقبالِ جُرم زیرِ حراست شخص پر دباؤ ڈال کر حاصل کیا تھا۔

ایف بی آئی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’حمید حیات کی تحویل سے جیشِ محمد جیسی تنظیموں کے جریدے برآمد ہوئے تھے۔‘

حمید حیات اِس وقت فینکس جیل میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، اور اگر یہ سزا برقرار رہی تو وہ سنہ 2026 میں رہا ہوں گے۔

اب مجسٹریٹ بارنس کی سفارش پر وہی جج اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرے گا جس نے اُبھیں سزا سنائی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp