کیا دعا کیجئے ، کیا دعا دیجئے


\"mujahid

عید گزر گئی۔ اختلافات برقرار ہیں۔ کیوں کہ ہم نے ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے اور دلیل سے گریز کرنے کا تہیہ کیا ہؤا ہے۔ بنگلہ دیش میں عید کے اجتماع پر پھر اسی عدم برداشت نے حملہ کیا ہے۔ اس جان ناتواں پر اتنے ستم ہو چکے کہ اگر کسی سانحہ میں دو تین یا چار لوگ جان سے جائیں تو ہم کہتے ہیں کہ ’اللہ نے کرم کردیا، ذیادہ نقصان نہیں ہؤا‘۔ لیکن بغداد کی طرح دو اڑھائی سو لوگ مارے جائیں تو ہم دوربین لے کر ’دشمنوں کی سازشوں ‘ کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ ایسے میں پاک فوج کے سربراہ نے ایک بار پھر اس وعدہ کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ نہیں بننے دیا جائے گا۔

کل اوسلو میں عید کی نماز کے حوالے سے ہونے والے سانحہ کے ذکر پر بہت لوگوں نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کی آواز بلند ہونی چاہئے۔ آئینہ دکھانا اور دیکھنا چاہئے۔ اب حالات تبدیل ہونے چاہئیں ۔ لیکن ایسے مہربانوں اور دوستوں کی بھی کمی نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اختلاف کرنا، کسی کمی کی نشاندہی کرنا یا کھلے دل سے اپنے دکھ اور اختلاف رائے کا اظہار کرنا، ایک اچھے مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔ یہ رائے رکھنے والوں کا خیال ہے کہ نکتہ چینی کرنے والے ناکارہ اور فضول لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو کام کرتے دیکھنا نہیں چاہتے اور چلتے کاروان کا راستہ روکتے ہیں۔ یہ ایک رائے ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس قسم کی آرا کا اظہار کن حلقوں کی جانب سے ہو رہا ہے، ہمیں ان کا پورا احترام ہے، کیوں کہ آج مسلم امۃ کو اسی قوت برداشت کی سب سے ذیادہ ضرورت ہے۔ آج اختلاف رائے پر آگ بگولہ ہونے اور اس پر غم و غصہ کا اظہار کرنے کی بجائے یہ سیکھنے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم انسان ہیں ، ہم میں سے کوئی بھی مکمل نہیں ہے، سب صورت حال کو اپنے زاویے سے اجتماعی بھلائی کے لئے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سب نیک نیت ہیں۔ ہم پر اس وقت تک اس اختلاف کا احترام واجب ہے جب تک بات منوانے کے لئے بندوق نہ اٹھا لی جائے، جب تک بات سنے بغیر دھماکوں سے انسانوں کے چیتھڑے نہ اڑا دئے جائیں ، جب تک جنت کی چاہ میں انسانوں کی جان اور انسانیت کے احترام کا راستہ مسدود نہ کر دیا جائے۔

اس لئے اسلامی کلچرل سنٹر ناروے کے ان سب دوستوں کا شکریہ جنہوں نے پوری قوت سے میری رائے کو مسترد کیا ، اپنی بات پر اصرار کیا لیکن ساتھ ہی خیر سگالی کا اظہار بھی کیا۔ آج کے زمانے میں ، اس گھڑی اور لمحے میں، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اگر کسی ایک چیز کی ضرورت ہے تو وہ یہی جذبہ ہے۔ اختلاف کیجئے لیکن مانئے کہ دوسرے کو بھی خوش ہونے اور زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ مان لیں گے تو ایک روز یہ بات بھی سمجھ آجائے گی کہ جس طرح ہمیں اپنی دلیل دینے اور بات پر اصرار کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح دوسروں کو بھی یہ حق دینا ضروری ہے۔ ہم لمحہ بھر کو توقف کریں گے، دوسرے کو انسان سمجھنے کی کوشش کریں گے، دوسرے کی بات کو جہالت اور مذہب سے دوری اور بد عقیدگی کا لبادہ پہنانے سے بچیں گے، تب ہی کبھی ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر اطمینان سے بات سن اور کہہ سکیں گے ۔ تب ہی مکالمہ کا آغاز ہو گا۔ تب ہی احترام آدمیت عام ہوگا۔ اس لئے ان سب لوگوں کا شکریہ بھی واجب ہے جنہوں نے گفتگو کرنے کی دعوت دی ہے۔ جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ بات کرنا زندہ رہنے اور آگے بڑھنے، سیکھنے اور سکھانے اور اختلاف دور کرنے یا مختلف رائے کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ لوگ خواہ ان کی رائے کوئی بھی ہو، خواہ میں ان کے طریقہ اور ان کے نظریہ سے جتنا بھی اختلاف کروں ، مجھ پر ان کے جذبہ باہمی احترام اور مواصلت جاری رکھنے کی خواہش کا احترام واجب ہے۔

\"gen_raheel_sharif2\"

جنرل راحیل شریف نے ایک سپاہی کی طرح عید کا دن اپنے خاندان کے ساتھ منانے کی بجائے ، محاذ جنگ پر اس قوم کے بقا کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ منا کر یہ پیغام عام کیا ہے کہ یہ جنگ ہم سب کو مل کر جیتنی ہے۔ یہ جنگ جرنیل اور سپاہی کے اشتراک اور قوم کے ہر فرد کے تعاون کے بغیر جیتی نہیں جا سکتی۔ اس جنگ میں ہر وہ شخص جو بات کرنے اور سمجھنے سمجھانے کے عمل کو بنیادی انسانی ضرورت اور رویہ سمجھتا ہے، اپنے اپنے محاذ پر مصروف عمل ہے۔ پاک فوج کا بھی یہی پیغام ہے، اور ڈائیلاگ کی دعوت دینے والوں اور مل بیٹھ کر بات کرنے والوں کا بھی یہی مقصود ہے۔ یہ سب مل کر ایک ہی بڑی جنگ کا حصہ ہیں۔ سب اپنے اپنے محاذ پر کوشش کررہے ہیں۔ سب کی جد و جہد قابل صد عزت و احترام ہے۔ پاک فوج کے سربراہ ملک سے دہشت گردوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، وہ افغانستان کی حفاظت کی بات کرتے ہیں اور ان کا تقاضہ ہے کہ دوسرے بھی اس جذبہ کی قدر کریں۔ پاکستان میں آباد انسانوں کی زندگیوں کو ارزاں نہ کریں۔

یہ جنگ طویل ہے اور پیچیدہ ہے۔ اسے نظر انداز کرنا متبادل نہیں ہے۔ یہ انسانوں کے پر امن حق زندگی پر حملہ ہے۔ اس حملہ کا جواب دینا سب پر فرض ہے۔ محاذ پر موجود فوجی توپ اور بندوق سے یہ جواب دے رہا ہے اور دور اپنے گھر، مدرسے، اسکول ، دفتر یا مسجد میں بیٹھے لوگ اس حق کے لئے دلیل دے کر، اس حق کا بلا تخصیص احترام کرکے وہی فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ بلا شبہ زندگی دینے اور لینے والی اللہ تبارک وتعالی کی ذات ہے ۔ یہ زندگی اسی نے ہمیں امانت دی ہے۔ اس کی حفاظت کرنے اور اسے بامقصد گزارنے کا فرض بھی ہم پر عائد ہوتا ہے۔ زندگی کو جنت میں اپنا گوشہ عافیت حاصل کرنے کے مقصد سے صرف کرنے کا رویہ، حصار ذات کا طواف کرنے کے مترادف ہے۔ مقصد تو وہ ہے جو ایک سپاہی محاذ پر دشمنان انسانیت سے لڑتے ہوئے ، ڈاکٹر آپریشن ٹیبل پر مریض کو حیات نو دیتے ہوئے، مبلغ دوسروں کو راحت پہنچانے کی بات کرتے ہوئے، استاد شاگرد کو چہار طرف پھیلی ہوئی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے اور ان کی حفاظت کرنے کا درس دیتے ہوئے اور قلم کار امن ، احترام اور قبولیت کا پیغام عام کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اگر ہم اس مقصد سے دور ہورہے ہیں۔ اگر یہ مقصد ہمارے نصب العین کا حصہ نہیں ہے، اگر ہم دوسروں کی بہبود سے بے غرض ہیں، اگر ہماری ساری جہد جنت میں محل تعمیر کرنے کے لئے ہے ۔ اور یہ کاوش جنون کی شکل اختیار کرتے ہوئے ہمیں انسانوں سے دور لے جارہی ہے ، تو اللہ پوچھے گا تو ضرور کہ یہ زندگی تمہارے پاس امانت تھی ، تم نے کس حد تک اس کا حق ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments