احمد ندیم قاسمی، فنون، نشاةِ ثانیہ اور سالنامہ


\"naseerاحمد ندیم قاسمی صاحب سے میری صرف تین ملاقاتیں ہوئیں۔ تینوں اتفاقیہ۔ پہلی ڈاکٹر امجد پرویز کے ساتھ ان کے دفتر میں، دوسری جم خانہ کے ایک مشاعرے میں اور تیسری بشریٰ اعجاز کی بیٹی کی شادی پر۔ پہلی دو ملاقاتیں سرسری تھیں، تیسری طویل اور مفصل تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، بشریٰ کی بیٹی، بینا، کی شادی پر سینکڑوں مہمانوں میں ہم صرف تین ادیب تھے، مستنصر حسین تارڑ، احمد ندیم قاسمی اور میں۔ تارڑ صاحب تھوڑی دیر ہمارے ساتھ رہے پھر مداحوں اور شناساو¿ں کے جھرمٹ میں گم ہو گئے۔ لیکن میری اور قاسمی صاحب کی ’دو رکنی‘ ادیبانہ محفل تقریب کے اختتام تک ایک ہی جگہ جمی رہی، جس میں زیادہ تر قاسمی صاحب گفتگو کرتے رہے۔ میں حیران تھا کہ ذاتی تعلقات اور ملاقاتیں نہ ہونے کے باوجود وہ میرے بارے میں مکمل آگہی رکھتے تھے۔ میں ان دنوں میرپور، آزاد کشمیر میں رہتا تھا۔ کہنے لگے کچھ عرصہ پہلے میرپور سے ایک صاحب آئے اور اپنا کلام سنایا اور فنون کے لیے بھی دیا، کلام فنی لحاظ سے درست ہونے کے باوجود بنیادی نوعیت کا تھا اور فنون کے معیار کا نہیں تھا، میں نے اسے مشورہ دیا کہ شاعری کے موجودہ رجحانات سمجھنے کے لیے اچھے ادبی رسالے پڑھا کرو اور وہاں آپ کے میرپور میں ایک شاعر ہوتے ہیں نصیر احمد ناصر، ان سے ملا کرو۔ وہ شخص حیران ہوا کہ میرپور میں ایسا کون شاعر ہے جسے قاسمی صاحب اتنی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں جبکہ وہاں اس نام کے شاعر کو کبھی دیکھا نہ سنا۔ بعد میں اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی جب ایک روز وہ صاحب ڈھونڈتے ڈھانڈتے پوچھتے پچھاتے میرے گھر آ گئے اور قاسمی صاحب سے اپنی ملاقات کا پورا احوال سنایا۔ مجھے ان کا نام بھول گیا ہے لیکن وہ غالباً میرپور تعلیمی بورڈ میں ملازم تھے۔ میرے لیے یہ نہ صرف غیر معمولی خراجِ تحسین اور خوشی کا امر تھا بلکہ قاسمی صاحب کی شخصیت کا ایک بڑا پہلو بھی تھا۔ پھر قاسمی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ فنون کے لیے نظمیں کیوں نہیں بھیجتے؟ میں نے بتایا کہ کوئی خاص وجہ نہیں۔ عام طور پر میں انہی جرائد میں تخلیقات بھجواتا ہوں جن کے مدیران ان کے طلب دار ہوں، فنون کے لیے ایک دو بار چیزیں بھجوائی تھیں مگر آپ کی طرف سے جواب نہ آیا۔ قاسمی صاحب حیران ہوئے، پھر منصورہ کے حوالے سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اور مجھے نظمیں بھجوانے کے لیے کہا۔ یہ تاکید بھی کی کہ خط کے اوپر ’قطعی ذاتی‘کے الفاظ ضرور لکھ دوں۔ ا±س دن ’فنون‘سے جو رشتہ استوار ہوا وہ قاسمی صاحب کے انتقالِ پر ملال تک برقرار رہا۔ اگر کبھی مجھ سے نظم بھیجنے میں دیر یا کوتاہی ہو جاتی تو قاسمی صاحب خود خط لکھ کر یا فون کر کے یاد دہانی کرا دیتے۔ قاسمی صاحب میں کئی مدیرانہ خوبیاں تھیں جو آجکل کے مدیروں میں عنقا ہیں۔ میری ایک نظم ’ہم ستارہ‘ کے عنوان کی ترکیب انھیں سمجھ میں نہ آئی تو پوچھنے میں اور میری وضاحت قبول کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ یہ مدیرانہ بڑا پن وزیر آغا صاحب میں بھی تھا۔ آغا صاحب چونکہ نقاد تھے اس لیے تفصیل سے بات کرتے یا لکھتے تھے۔ جبکہ قاسمی صاحب مختصر بات کرتے یا چند سطروں کا مقصد کے مطابق خط لکھتے تھے۔ قاسمی صاحب نثری نظموں کو شاعری تسلیم نہیں کرتے تھے نہ انھیں فنون میں شائع فرماتے تھے۔ ایک بار ان کی ایک تعلق دار نے انھیں نثری نظمیں اشاعت کے لیے دیں تو انھوں نے مجھے بھجوا دیں کہ آپ انھیں ’تسطیر‘ میں شائع کر دیجیے۔

احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد، ہر بڑے رسالے کی طرح، فنون بھی بند ہو گیا۔ اگرچہ ’شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ‘ لیکن یہی سنا کہ اس کے اثاثوں کی وراثت کا جھگڑا پڑ گیا۔ حالانکہ ایک ادبی رسالے کے اثاثہ جات مدیر کی ادبی خدمات اور علم و ادب کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں۔ قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی، ان کی نائب مدیرہ اور اپنے وقت میں فنون کی \”آل اِن آل\” منصورہ احمد نے اپنا الگ رسالہ \”مونتاج\” نکال لیا جو فنونِ مثنیٰ یعنی فنون کی ہوبہو کاپی تھا، لیکن ظاہر ہے فنون نہیں تھا۔ مونتاج کے گیارہ شمارے نکلے۔ منصورہ کے، تکلیف دہ حالات میں، انتقال کر جانے کے بعد مونتاج بھی بند ہو گیا۔ اس دوران قاسمی صاحب کی حقیقی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی اور نواسے نیر حیات قاسمی نے شمارہ 128 سے فنون کو دوبارہ شروع کیا۔ جسے \”فنون\” کی نشاةِ ثانیہ بھی کہا سکتا ہے۔ نیر کے پاس ماں کا علمی و ادبی تجربہ بھی ہے اور حقیقی وراثت بھی، جو اب فنون کے ہر شمارے سے عیاں ہے۔ کاش سلیم آغا قزلباش بھی ’فنون‘کے وارثان کی طرح ’اوراق‘کو جاری رکھتے جسے وزیر آغا صاحب نے اپنی زندگی ہی میں خرابی صحت کے باعث بند کر دیا تھا۔ سلیم کے پاس نہ وسائل کی کمی ہے نہ علم اور تجربے کی۔ فنون اور اوراق بظاہر تمام تر اختلافات کے باوجود شعر و ادب کی آبرو اور معیار سمجھے جاتے تھے۔ احمد ندیم قاسمی اور وزیرآغا دونوں صاحبان کی کمٹمنٹ ادب سے تھی، ’فنونیے‘ اور ’اوراقیے‘ کی اصطلاحات ارد گرد کے حاشیہ برداروں کی بنائی اور پھیلائی ہوئی تھیں، ذاتی طور پر میں نے ان دونوں کے ذہنوں اور رویوں میں ایسی کوئی تفریق نہیں پائی۔ میں اوراق میں بھی شائع ہوتا تھا اور فنون میں بھی اور دونوں نے اس پر کبھی کسی تحفظ کا اظہار نہیں کیا تھا۔ آغا صاحب سے میرے قریبی دوستانہ مراسم تھے اور یہ قاسمی صاحب کو بھی معلوم تھا۔

ناہید قاسمی اور نیر حیات قاسمی شمارہ 128 سے 137 تک فنون کے دورِ نو کے دس ضخیم شمارے کامیابی سے نکال چکے ہیں۔ وہ نہ صرف فنون کے پرانے لکھنے والوں کو واپس لے آئے ہیں بلکہ نئے شاعروں ادیبوں اور فیس بک کے لکھاریوں کو بھی راغب کر رہے ہیں۔ ایک خاص تناسب سے نئے لکھنے والے کسی بھی رسالے کے جاری رہنے کی ضمانت ہوتے ہیں۔ موجودہ شمارہ 137، جسے بجا طور پر سالنامہ لکھا گیا ہے، 618 صفحات پر محیط ہے۔ اتنے ضخیم شمارے میں صرف دو اشتہار ہیں۔ اس سلسلے میں جو اذیت ناک صورتِ حال درپیش ہے اور اس مادہ پرست ادب ناشناس معاشرے میں ادبی رسالے کے لیے اشتہار مانگتے ہوئے جو تکلیف دہ اور عزت نفس کو مجروح کرنے والی باتیں سننے کو ملتی ہیں ان کا تذکرہ بھی نیر حیات قاسمی نے اداریے ’بین السطور‘میں کر دیا ہے۔ جہاں تک مندرجات کا تعلق ہے تو حمد و نعت سے لے کر مضامین، مقالے، طویل و مختصر نظمیں، افسانے، غزلیں، یادداشتیں، ناول کا باب، سفر نامہ، تراجم، اظہاریے، طنز و مزاح، رودادیں اور خطوط کی شکل میں اختلافات و تاثرات تک سبھی اصنافِ ادب شامل ہیں۔ دورِ نو کے ’فنون‘ کا اختصاص یہ ہے کہ شعری و افسانوی حصوں کا آغاز احمد ندیم قاسمی صاحب کی کسی تخلیق سے کیا جاتا ہے۔ یہ پیٹرن مستقل ہے۔ سالنامے کے مشمولات کی مکمل اسم شماری کی گنجائش نہیں تاہم مضامین میں انور معظم، محمد ارشاد، مرزا حامد بیگ، قیصر نجفی، افشاں ملک، علی تنہا، عامر سہیل، پیر اکرم، جاوید منظر، ظفر سپل، سلمیٰ اعوان اور نظم میں امین راحت چغتائی، گلزار، امجد اسلام امجد، عبداللہ جاوید، ستیہ پال انند، نجیب احمد، جلیل عالی، اوصاف شیخ، طالب انصاری، سیدہ آمنہ بہار، شہاب صفدر، شہزاد نیر، کرامت بخاری، ناز بٹ، شیراز ساگر، سلمان باسط، علی زیرک وغیرہم شامل ہیں۔ راقم کی دو نظمیں بھی کمپوزنگ کی فاش غلطیوں کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ ناول میں نیلم احمد بشیر اورافسانوں میں گلزار، شہناز خانم عابدی، عابدہ تقی، نگہت نسیم، خالد قیوم تنولی، ابرار مجیب، ارشد علی، محمد نعیم دیپال پور، امین صدرالدین بھایانی، سلمیٰ جیلانی، شاہین کاظمی، طلعت زہرا، منیر احمد فردوس، سبین علی اور دیگر کئی نئے و پرانے نام شاملِ اشاعت ہیں۔ حصہ غزل کی فہرست حسبِ معمول طویل ہے جس میں سب تو نہیں لیکن بہت سے اہم کہنہ سال و نوخاستہ لکھنے والے موجود ہیں۔ دیگر اصناف میں جمیل احمد عدیل، زاہد منیر عامر، ہارون الرشید حنیف باوا، صائمہ اسما اور عرفان احمد خان جلوہ افروز ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معیاری ہونے کے باوجود رسالے میں خوب سے خوب تر کی بڑی گنجائش ہے۔ کسی بھی اچھے رسالے کو نقد و نظر کے نئے تقاضوں، نئی تحریکوں سے ہم آہنگ کرنے کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے۔ نیر حیات صاحب کو فیس بک پر انحصار کے ساتھ ساتھ ادب کی مین اسٹریم کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، اور ادب کے نئے رجحانات بطورِ خاص نثری نظم کو اب بطورِ نظم قبول کر لینا چاہیئے۔ وزیر آغا صاحب نثرِ لطیف کے نام سے نثری نظمیں شائع کرتے تھے جس پر اکثر ان سے بحث ہوتی رہتی تھی۔ جب 1996ءمیں انھوں نے پیش لفظ لکھنے کے لیے اپنے بیٹے سلیم آغا کی (نثری) نظموں کا مسودہ مجھے بھجوایا تو اسے نثرِ لطیف کے بجائے نثری نظموں کی کتاب کہا۔ میرے پیش لفظ میں اور کتاب پر بھی ’نثری نظمیں‘درج ہے۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس ضمن میں ان سے خوب گفتگو کی۔ بعد میں بھی بات چیت ہوتی رہی۔ آغا صاحب بہت وسیع النظر تھے، کچھ راقم کی پسِ پردہ کوششوں سے، آخرالامر انھوں نے نثری نظم پر اپنے دیرینہ موقف کو تبدیل کر لیا اور نثرِ لطیف کے نام سے دستبردار ہو گئے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نیر صاحب بھی فنون کی بعض پارینہ پالیسیوں پر نظر ثانی فرمائیں اور انھیں عصرِ نو کے مطابق ڈھالیں۔ ادب دریا ہے، بہتا ہوا اچھا لگتا ہے، ٹھہرا ہوا پانی کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو تازگی برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک اس میں نئے رجحانات کا آبِ تازہ اور نئی تخلیقی لہریں شامل نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments