جاگتے رہنا ہم غریبوں کی رقمیں لگی ہوئی ہیں


ہمارا پیارا بھائیوں جیسا دوست زبیر سیاف بحریہ کراچی میں پلاٹوں کا لین دین کرتا ہے۔ اس نوجوان نے بڑی محنت کے ساتھ اپنا مقام بنایا۔ پہلے کسی کمپنی کے ساتھ کام کرتا تھا اب اپنی کمپنی کھڑی کرلی ہے۔

کافی سالوں سے کہہ رہا تھا کہ بحریہ میں سرمایہ کاری کریں۔ اپنے کاروبار سے زیادہ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ بحریہ میں لاکھوں بنا رہے ہیں آپ کیوں محروم ہیں۔ اسے بتایا کہ یار جانی لوگوں کے پاس پیسہ ہے اور ساری عمر سے سن رکھا ہے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔ ہمارے پاس پیسہ نہیں اس لئے ہم لاکھوں چھوڑ ہزاروں بھی نہیں بنا سکتے۔

جائیداد میں گھپلوں کے بے شمار واقعات سن، دیکھ رکھے تھے۔ اس لئے استخارے سے لے کر، جگہ دیکھنے، حکومتی اجازتیں دیکھنے، تعمیراتی کام دیکھنے اور سب سے بڑھ کر لاکھوں کے خواب دیکھنے کے بعد قسطوں پر ایک چھوٹا سا پلاٹ لینے کا فیصلہ ہوگیا کہ یہی ہماری اوقات تھی۔

انڈوں کی ٹوکری سر پر رکھے خواب دیکھتے، مرسڈیز بینز کے شوروم میں کھڑی چمچماتی گاڑیوں کو دیکھتے، پاوں سے کسی چیز کو ٹھوکر بھی نہ مارتے کیونکہ یاد تھا کہ ملا نصرالدین کے انڈے ایسے ہی ٹوٹے تھے۔ لیکن ہونی ہو کے رہتی ہے۔

خبر آئی کہ سارا کچھ نہیں تو بہت کچھ غیر قانونی ہے۔ بھائی ہم نے تو ساری اجازتیں دیکھی تھیں، حکومت اور مجاز اداروں نے ساری دستاویزات فراہم کی تھیں۔ اخبارات میں شور تھا۔ کوئی چھوٹی موٹی سوسائٹی بھی نہیں ایک اچھے رقبہ پر مشتمل شہر آباد ہوا تھا، سڑکوں کے جال تھے، پارک بن رہے تھے، ہسپتال، ناچتے فوارے، کرکٹ اسٹیڈیم، دنیا کی تیسری بڑی مسجد، سفاری پارک کیا نہیں تھا جو بحریہ میں نہیں بن رہا تھا۔

خبر سن کر انڈوں کی ٹوکری جب بس گرنے ہی لگی تھی تو بھاگم بھاگ بلکہ اڑتم اڑتے ہوئے عزیز بھائی ڈاکٹر امجد علی رانا کے ہمراہ کراچی پہنچے۔ ہمارے جیسے ایک بندے نے بنک میں ایک ہزار روپے سے اکاونٹ کھلوا لیا پھر ساری رات بنک کے چوکیدار کو جا کر کہتا ہوشیار رہنا، جاگتے رہنا ہماری رقمیں جمع ہیں۔ زبیر سے بھی کہا جاگتے رہنا ہماری رقمیں لگی ہوئی ہیں۔ زبیر نے بہت تسلی دی، ایک دفعہ پھر سارا بحریہ ٹاون پھرایا، دستاویزات، نقشے دکھائے، کروڑوں اربوں کے تکمیل شدہ گھر اور پراجیکٹ دکھائے۔ ساتھ ڈھیر ساری تسلی بھی کہ پریشان نہ ہوں۔

تفنن برطرف ایک سوال ہے؟ لیکن یہ سوال کرنا کس سے کرنا ہے یہ سمجھ نہیں آتی۔ چلیں اپنے قارئین کے سامنے رکھتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا عدالت ذمہ دار ہے جس کی ناک تلے سب ہوتا رہا اور اس نے سوموٹو لے کر بھی ابھی تک نہ کسی ادارے کو سزا دی نہ کسی کو گناہ گار ہی ٹھہرایا؟ کیا بحریہ ذمہ دار ہے جو محفوظ رہائش سے لے کر محفوظ سرمایہ کاری کے خواب دکھاتی رہی؟ سندھ حکومت ذمہ دار ہے جو بنجر زمین کو آباد کاری کے لئے بحریہ کو بیچتی رہی؟ مجاز ادارے ذمہ دار ہیں جو ہر قسم کی قانونی اجازتیں بحریہ کو دیتے رہے؟ ہم جیسے بیرون ملک آباد پاکستانی ذمہ دار ہیں جو قسطوں پر ”ایک محفوظ جگہ“ پر سرمایہ کاری کے خواہشمند ہوتے ہیں؟ اندرون ملک پاکستانی ذمہ دار ہیں جو اپنے بچوں کے لئے پرسکون اور محفوظ رہائش کے خواہشمند ہیں؟

قطعاً کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ملک ریاض کی بے اعتدالیوں پر پردہ ڈال دیں۔ حکومتیں ایسے لوگوں سے جو فوائد لیتی ہیں انہیں نظر انداز کردیں۔ اداروں میں موجود مگر مچھوں کی لی گئی رشوت نظرانداز کردیں۔ لیکن خدارا اپنے سسٹم کو بہتر بنائیں، کسی ایک شخص، کسی ایک ادارے، کسی ایک حکمران کو ذمہ دار توٹھہرائیں۔

عدلیہ سمیت دوسرے مجاز ادارے پہلے سوئے رہتے ہیں۔ خداراہزاروں ایکٹر اراضی کا پہلا پتھر رکھنے یا پہلا فارم بنک کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کے وقت ہوش میں آیا کریں نہ کہ اس وقت جب اسی فیصد تعمیراتی کام ہوچکا ہو، پلاٹ بک چکے ہوں، کوئی ادارہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرکے آدھے سے زیادہ پیسے بھی وصول کرچکا ہوتا ہے۔ ہم زبیر سیاف سے غلط کہتے ہیں آپ سے کہنا بنتا ہے کہ جاگتے رہا کیجئے غریبوں کی رقمیں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).