بہترین رفیق


ایک تاجر کے چار دوست تھے۔ وہ ان چاروں دوستوں میں سے چوتھے رفیق کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ اُسے طرح طرح کے تحفوں سے نوازتا، مختلف اقسام کی سوغات اس کے لیے ہر وقت مہیا رکھی جاتیں، سب سے بہترین اشیاء کا انتخاب وہ خاص اِس چوتھے رفیق کے لیے کیا کرتا اور اس کے ساتھ بڑی عزت و احترام سے پیش آتا۔

تاجر اپنے تیسرے دوست کو بھی بہت عزیز رکھتا تھا جہاں کہیں بھی جاتا، دوسروں کے سامنے اُس جیسے دوست ہونے پر فخر کیا کرتا تھا۔ تاہم اس کے دل میں اس بات کا بھی کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی ہم نشینی نہ اختیار کر لے۔

تاجر کا دوسرا دوست بہت عزت دار اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھا۔ تاجر کو جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا تو یہی دوست ہی اس کی مدد کیا کرتا۔ حمایت اور تحفظ کے ذریعے اس کی دلگیری کرنے کی کوشش کرتا۔ چنانچہ تاجر کو اس دوست کی دوستی کا بھی بہت مان تھا۔

تاجر کا پہلا دوست تھا بہت وفادار ساتھی، لیکن تاجر کبھی کبھار ہی اس کی طرف توجہ دیتا۔ وہ اُس کے پر خلوص سوالوں کے جواب دینے سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتا تھا۔

ایک روز تاجر بیمار ہو گیا۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ اپنی آسودہ اور خوش حال زندگی اس کی نگاہوں کے سامنے پھرنے لگی، کہنے لگا : ’اس دنیا میں تو مجھے چاروں دوستوں کی رفاقت میسر رہی ہے لیکن مرنے کے بعد تو میں بالکل اکیلا رہ جاؤں گا‘ ۔

چنانچہ اُن چاروں دوستوں کو اپنے پاس بلایا۔

سب سے پہلے چوتھے سے مخاطب ہوا: ’اس دنیا میں تم ہی تھے جسے میں سب سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ اچھی سے اچھی چیزیں تمھارے لیے لایا کرتا تھا اور تمہیں خوش رکھتا تھا۔ اب جب کہ میں مرنے والا ہوں تو کیا اِس سفر میں تم میری ہمراہی کرو گے؟ ‘

وہ چوتھا دوست فورا بولا: ’ہرگز نہیں‘ ۔ اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا۔

تاجر یہ بات سن بہت دل شکستہ ہوا اور یہی درخواست تیسرے دوست سے کی۔ لیکن وہ بھی کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر بولا: ’میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ تمھارے مرنے کے بعد کسی اور شخص سے دوستی کر لوں۔ ”

تاجر نے غمگین ہو کر دوسرے رفیق سے التجا کرتے ہوئے کہا: ’مجھے امید ہے کہ اس بار بھی تم یاری نبھاؤ گے۔ مجھے دنیا میں جب کبھی بھی مدد کی ضرورت پڑی تم میرا سہارا بنتے تھے۔ ‘

دوسرا دوست غم زدہ آواز میں بولا: ’اس بار ایسا کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ البتہ میں تمھارے نام پر خیرات تقسیم کیا کروں گا۔ اور تمھاری بخشش کے لیے دعا کروں گا۔ ‘

دوسرے رفیق کی یہ الفاظ تاجر کے دل پر گویا بجلی بن کر گرے اور اس کے دکھی دل کو بالکل مایوس کر دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موندھ لیں۔

اچانک اس نے آواز سنی : ’میں تمھارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ ہاں بالکل۔ میں تمھاری ہمراہی کروں گا۔ بلکہ جہاں جہاں تم پڑاؤ کرو گے وہاں میں بھی تمھارے ساتھ ٹھہرنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘

تاجر یہ سن کر آب دیدہ ہو گیا۔

یہ آواز پہلے رفیق کی تھی جو گھٹنوں میں سر دیے غمگین بیٹھا تھا۔ تاجر نے شرمندگی کی حالت میں اس کا کمزور ہاتھ تھامتے ہوئے کہا: ’مجھے اب معلوم ہوا کہ دنیا میں وہ تمام مدت جو میں نے گزاری، صرف تمھاری ہی قدر کرنی چاہیے تھی اور جو کچھ مجھے حاصل رہا وہ تمھارے قدموں میں رکھ دینا چاہیے تھا۔ ”

• • • • •

یہ کہانی ہم سب انسانوں کی کہانی ہے۔

ہمارا چوتھا دوست، ہمارا جسم ہے۔ جس کے لیے ہم بہترین سے بہترین پوشاک، لذیذ غذائیں اور آسائشیں مہیا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن مرنے کے بعد وہی ہمیں سب سے پہلے چھوڑتا ہے۔

ہمارا تیسرا دوست، ہمارا مال ہے جو ہمارے مرنے کے بعد دوسروں کے پاس چلا جاتا ہے۔

ہمارا دوسرا دوست، ہمارا خاندان اور دوست احباب ہیں۔ جو زندگی میں پیش آنے والی مشکلات میں ہماری مدد کرتے ہیں اور مرنے کے بعد صرف ہماری قبر تک ہی آ سکتے ہیں۔

ہمارا پہلا دوست، جسے ہم معیار زندگی بلند کرنے کے جھمیلوں میں الجھے بالکل فراموش کیے رہتے ہیں، وہی اِس سفر میں ہماری ہمراہی کرتا ہے۔ وہ کوئی اور نہیں ہے بلکہ۔ ۔ ۔
(یہ تحریر فارسی سے ترجمہ کی گئی ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).