تبدیلی اور ریاست مدینہ


ریاست مدینہ کی تشکیل میں سب سے اہم کردار جُہد مسلسل اور خود احتسابی کا رہا۔ آپ اگر اس جُہد مسلسل اور خود احتسابی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو رسول اکرم ﷺ کی مکّی اور مدنی زندگی کا مطالعہ کیجیئے۔

آپ جب یہ مطالعہ کریں گے تو آپ کو سب سے اہم ایک ہی سبق ملے گا کہ اس ریاست کی تشکیل میں کوئی غلام اور آقا نہ رہا تھا بلکہ سب ایک مسلمان بن کر ایک ہی مرکز سے اسلامی ریاست کے لئے کوشش کرتے رہے اور آقا کیا غلام کیا سب کا ایک ہی لائف سٹائل اور ایک ہی مقصد رہا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہوسکے۔

آپ ذرا تصّور کیجیئے کس طرح ایک حبشی غلام اس نایاب پیغام سے متاثر ہوتا ہے اور پھر جب عرب کے گرم ریگزاروں میں اُس کے خون کے قطرے گرتے ہیں تو خون بہانے والے بھی عش عش کر اٹھتے ہیں کہ کس مٹی سے بنے ہیں یہ لوگ۔ اس مسلسل کوشش میں جب غلاموں اور آقاؤں دونوں کا خون بہتا ہے توتب ہی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ممکن ہوجاتی ہے۔

آپ جہد مسلسل کے اس عمل میں سالار کارواں میر حجازﷺ کا حال دیکھ لیجیے جو جنگ خندق سے پہلے خندق کی کھدائی میں پیٹ کے ساتھ پتھر باندھے بھوک سے برسرپیکار اس ریاست کی تشکیل میں خون کے ساتھ ساتھ اپنا پسینہ بھی بہانے سے نہیں کتراتے۔

آپ جہد مسلسل کے اس عمل میں ابوبکر ؓ کا حال ملاحضہ کیجیئے جو بزنس ٹائیکون تھے لیکن جب بات ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کی آگئی تو پھر ٹاٹ کے کپڑے پہننے سے بھی گریز نہیں کیا کیونکہ آپ کو اس ریاست کی تشکیل کی اہمیت کا پتہ تھا۔

اس جہد مسلسل کے پیچھے شوق اور عشق کی اتنی فراوانی تھی کہ اللہ کے محبوبﷺ خود کبھی طائف کی گلیوں میں بدقماش لوگوں کے پھینکے پتھروں سے لہولہان ہوتا ہے تو کبھی اُحد کے میدان میں درد سے کراہ رہا ہوتا ہے لیکن ملک عرب کے گلے سڑے معاشرے کے غمگین دلوں کو جوامید دلائی تھی اس پر ڈٹے رہے اور جب اس ریاست کی تشکیل ہوئی تو ان تمام ظالموں کو معاف کردیا نہ کہ گالیاں دی۔

یہ ریاست اور اس کی تشکیل ان صحرا نشینوں کے لئے کتنی اہم تھی جو بھوک و افلاس کی سختیاں کچھ اتنی جھیلیں کہ چہروں کے رنگ فق رہتے تھے۔ اس ریاست ہی کی خاطر تبدیلی کے دعوے داروں نے زندگی کچھ اس ڈھنگ سے گزاری کہ اللہ ان سے راضی رہا اور یہی وجہ تھی کہ یہ جہاں بھی گئے ان کے سامنے کہساروں کی اونچائی، سمندروں کی گہرائی، راستوں کی لمبائی اور شبنم کو ساگردوراں میں تبدیل کرتی فدا کاری کبھی اہم نہیں رہی ان کے لئے اہم رہا تو صرف ان کا مقصد، پیغمبر خدا کی خوشنودی اور اللہ کی رضا۔ انہوں نے مدینہ کی جو ریاست بنائی تھی اس کا آج تک بلکہ تا قیامت کسی ریاست سے موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔

صرف باتیں کرنے سے اگر ریاست مدینہ کی تشکیل ممکن ہوتی تو آج تک چودہ صدیاں گزرنے کے بعد سینکڑوں ایسی ریاستیں بن گئی ہوتیں لیکن جہاں عشق کی کمی اور عمل پیہم کی بہتات ہو اور باتیں ایسی ہوں کہ جس میں ہر وقت دوسروں کی بے عزتی اور اپنی عزت کا ڈھونگ ہو وہاں مدینے کی ریاست نہیں بنتی بلکہ ایک جنجال پورہ بنتا ہے جس میں ایک مسلسل الجھن، غلط راستوں کا تعّین اور انسانوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہی موجود رہتا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے مدینے کی ریاست کا ڈھونگ رچایا تھا اور پاکستان کے سادہ لوح عوام نے یہ سمجھ کر کہ ہماری زندگی مدینہ کی ریاست میں کتنی بے مثال بن جائے گی اس پارٹی کو ووٹ دیا اور خلیفہ وقت سے طرح طرح کی توقعات باندھ کر ایک دوسرے کو مبارکباد تک دینے لگے لیکن پھر ہواکیا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن مینوفیسٹو میں بہت سارے اہم پوائنٹس تھے ان میں ایک بے روزگاری کے حوالے سے تھا۔ ملک بھر کے نوجوانوں کے لئے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا لیکن یہ اندازہ نہیں لگایا گیا کہ یہاں سالانہ کتنے لوگ جاب مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ چار لاکھ چالیس ہزار سے لے کر دس لاکھ تک نوجوان اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں اور پھر نوکری کے لئے در در کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سینتیس لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں جو بہت ہی بڑا مسئلہ ہے۔ اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے لئے پاکستان کے حکومت کو سالانہ ایک اعشاریہ تین ملین نوکریاں پیدا کرنی ہوگی۔ اس رپورٹ کو پڑھا گیا ہے کہ نہیں لیکن یہ تلخ حقیقت ماننی پڑے گی کہ نوجوان جو ہماری آبادی کا چونسٹھ فی صد ہیں بے روزگاری کے ساتھ مایوسی اور پریشانی کے ساتھ بھی برسر پیکار ہیں۔

ان نوجوانوں کو نوکریاں دینا تو درکنار ان کی زندگیوں سے مایوسی تک نہیں مٹادی گئی اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان پیٹ کی پوجا کی خاطر بیرون ملک مزدوریوں پر مجبور ہورہے ہیں۔ اس نئی حکومت سے نوجوانوں کے بالخصوص طور پر بہت ساری توقعات وابستہ رہی لیکن ہوا کیا نوجوان مایوسی کی دلدل میں اور بھی پھنس گئے اور ایک اور کنفیوژن ان کی زندگی میں ڈال دیا گیا۔ ان نوجوانوں کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ عمران خان ہی اس ملک کے واحد نجات دہندہ ہے اب اگر وہ پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے نہیں لگا سکتے تو کون ہوگا جو اس طوفان میں پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑسکے گا۔

ہم اس انتظار میں تھے کہ ملک اب ترقی کی راہ پر چل نکلے گا لیکن آپ المیہ ملاحضہ کیجیئے کہ پچھلے دنوں آصف علی زرداری کے خلاف الیکشن کمیشن میں نا اہلی کی درخواست واپس لے لی گئی۔ یہ جنگ تو زرداری اور نواز شریف جیسے لوگوں کے خلاف تھی اب کوئی کیا سمجھے اگر ایک پابند سلاسل ہے اور دوسرے کو کھلی چُھوٹ ملے۔ بات یہاں تک رہ جاتی تو ٹھیک ہوتا لیکن خلیفہ وقت کی اپنی بہن علیمہ خان کے دبئی کے بعد امریکہ میں چار فلیٹس نکل آئے اور اب تک اُس پر چھپ کا روزہ رکھا گیا ہے۔

اب احتساب کے اس کھیل کو کوئی کیسے غیر جانبدار سمجھے۔ ان فلیٹس کی لاگت کتنی ہے وہ اور بات ہے لیکن ہے تو وہی کچھ نا جس کو عمران خان اور اس کے پارٹی ورکرز برا سمجھتے آئے ہیں۔ تحریک انصاف والے خود کیا سوچتے ہیں وہ الگ بات ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ تاریخ یہاں بھی خود کو دہرا رہی ہے۔ حکمران پاکستان میں کچھ نیا نہیں کرسکتے اور موجودہ حکومت میں تو انڈرسٹینڈنگ کا بہت بڑا فقدان ہے۔

اسی مہینے پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ادویات کی قیمتوں میں نو سے پندرہ فی صد اضافے کا نوٹیفیکشن بھی جاری کردیا۔ کتنی عجیب بات ہے جان بچانے والی ادویات نو فی صد مہنگی کردی گئیں ہیں۔ ان ادویات کی ضرورت ہمیشہ غریبوں ہی کو ہوتی ہے۔ یہ سارے ظلم ہمیشہ غریبوں ہی پر ہوتے ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہی غریب ہی ہمیشہ حکمرانوں پر جان چھڑکتے ہیں۔

مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لئے جہد مسلسل اور خود احتسابی بہت ضروری ہے اور اگر یہ دو چیزیں موجودہ حکومت اپنے پروگرام میں شامل کرلیتی ہے تو کوئی شک نہیں کہ مدینہ جیسی اصلی ریاست نا سہی اس جیسی ایک ماڈل تو بن جائے گی جس میں کوئی آقا اور غلام، امیر و غریب، اور عام اور خاص نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).