این ای ڈی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں اشرف حبیب اللہ کا دلچسپ خطاب اور گورنر سندھ-


شکسپئیر نے کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور یہاں ہر شخص ایک فنکار ہے جو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے بعد اپنی ابدی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ چند کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی خوشی کے لئے طرح طرح کے سوانگ بھرتے ہیں۔ دوسروں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے لاکھوں جتن کرتے ہیں۔ وہ نہ تو بہت شہرت کے تمنائی ہوتے ہیں نہ ہی انھیں زیادہ دولت کی احتیاج ہوتی ہے۔ ہاں لیکن یہ ایسے فنکار ضرور ہوتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی اوٹ پٹانگ حرکات سے وہ دوسروں کو اداس چہروں پر ہنسی بکھیریں اور انہیں اپنی کارکردگی اور اپنے برجستہ جملوں سے خوب محظوظ کریں۔ اکثر اوقات یہ ہنسی بکھیرنے والے فنکار ہی پیسہ کمانے کے لئے ایسے کردار ادا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی عملی زندگی میں انتہائی کامیاب افراد بھی اپنی تقریر اور دوسری حرکات کے ذریعہ دوسروں کے لئے قہقہوں کا سیلاب لے آتے ہیں۔

دیکھا گیا یے کہ ان کامیاب افراد کی ان مزاحیہ تقاریر اور حرکات میں ہنسی مذاق کے علاوہ دوسروں کے لئے کوئی نہایت اہم پیغام بھی چھپا ہوتا ہے۔

سنہ 1975 ء میں قائم ہونے والی زلزلہ سے متاثرہ سٹرکچر انجینئیرنگ کے شعبہ میں عالمی شہرت یافتہ امریکی کمپنی کمپیوٹر & سٹرکچر انک کیلیفورنیا۔ سی ایس آئی (Computer & Structure Inc۔ CSI) کے بانی، صدر اور چیف ایگزیکٹو اشرف حبیب اللہ کو ہی دیکھ لیجئیے، کامیابی ان کے در کی لونڈی ہے۔ اشرف نے جامعہ این ای ڈی سے سنہ 1969 ء میں سول انجینئیرنگ کی ڈگری لی اور سیدھا امریکہ سدھار گئے جہاں انہوں نے بارکلے، کیلی فورنیا سے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے سٹرکچر انجینئیرنگ میں ماسٹرز ڈگری لی۔

سی ایس آئی کے قیام کے بعد انہوں نے سخت محنت سے سٹرکچر انجینئیرنگ میں نام کمایا۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے بعد انہوں نے اپنے کام میں اس کی اہمیت کو خوب سمجھا اور بھرپور طریقہ سے اس میں حصہ لیا۔ سٹرکچر انجینئیرنگ سے متعلقہ جو سافٹ وئیر آج دنیا بھر کے کمپیوٹرز میں استعمال کیا جاتا ہے، اشرف حبیب اللہ اس کے شریک بانی ہیں۔ اس سافٹ وئیر پروگرام کے علاوہ اشرف حبیب اللہ کی سی ایس آئی نے دوسرے بہت سے پروگرام بھی بنائے جن میں کثیرالمنزلہ عمارات کے تجزیہ اور ڈیزائن کا سافٹ وئیر (ETABS) بھی شامل ہے جسے اپلائیڈ ٹیکنالوجی کونسل اور انجینئیرنگ نیوز ریکارڈ نے 20 ویں صدی کی زلزلہ سے متعلق ٹاپ پراڈکٹ قرار دیا تھا۔ ان پروگراموں کے علاوہ اشرف حبیب اللہ کی کمپنی کے کریڈٹ میں SAP 2000 ”CSiBridge، SAFE، PERFORM۔ 3 D اور CSiCOL جیسے شاہکار پروگرام بھی شامل ہیں۔

جامعہ این ای ڈی کے سابقہ طالب علم کی حیثیت سے اشرف حبیب اللہ نے بھی یونیورسٹی کے 27 سالانہ کانووکیشن میں شرکت کی۔ انہیں سٹیج پر شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ (جو اسی جامعہ کے سابقہ طالب علم بھی ہیں ) اور تحریک انصاف کے گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ساتھ سٹیج پر جگہ بھی دی گئی۔ شیخ الجامعہ، وزیر اعلی سندھ اور گورنر سندھ نے اس موقع پر روایتی تقاریر کیں کہ نئے انجینئیرز کو پرانوں کی طرح ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرکے ادارہ کا نام مزید روشن کرنا چاہیے اور اپنی ڈگری سے حاصل کردہ علم کو عملی زندگی کے تجربات کی بھٹی سے گزار کر کندن بنانا چاہیے۔

(ان کی تقاریر کے متن اخبارات و جرائد میں ملاحظہ کر لیجئیے، ان میں جامعہ کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ہی کچھ الفاظ ہوں گے۔ ) البتہ اشرف حبیب اللہ کی تقریر نے تو میلہ ہی لوٹ لیا۔ دیگر حاضرین اور مقررین و مہمانوں سمیت گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلی سندھ بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ یوتے رہے۔

اشرف حبیب اللہ نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے یہ کہہ کر ساری محفل کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا کہ ”فرسٹ ائیر میں تو یہاں میری دوست اینی رینٹ آئی تھیں۔ میرے دوست گانا گا رہے تھے جو کافی بے سرا تھا“۔ اور اشرف نے اس موقع پر باقاعدہ گانا شروع کر دیا جبکہ تمام ہال نے ہنسنا:۔

”اؤ بنس روڈ کے ریستوران،

اؤ دودھ، ملائی کے مرتبان،

اؤ قلفی، کھیر، کباب اور نان،

سب بیماری کے سامان،

اؤ بابو ہو جا نہ فٹ پاتھ پر،

بندر روڈ سے کیماڑی،

میری چلی رے گھوڑا گاڑی،

اؤ بابو ہو جا نہ فٹ پاتھ پر ”

اشرف نے مزید کہا کہ ”سینٹ جوزف کے کالج کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ میرے دوست کہتے تھے، “ او اشرف، دیکھ وہ خوبصورت لڑکی آ رہی ہے، گانا گا ”۔

اس موقع پر اشرف حبیب اللہ نے پھر گانا سنایا کہ:۔

” او آجا آجا او آجا آجا آجا آجا آ،

آجا آجا میں ہوں پیار تیرا۔

اللہ اللہ اعتبار تیرا۔

آجا آجا أجا آجا آ ”

ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے ہال کو اشرف حبیب اللہ نے بتایا کہ، ”تھپڑ بھی کھائے اور جوتی۔ میرے بال ہوتے تھے وحید مراد کی طرح۔ چال تھی دلیپ کمار کی۔ کوٹ مار کھا کے بہت درد ہوتا تھا“

اس موقع پر اشرف حبیب اللہ کو پرچیوں پر پرچیاں آتی رہیں مگر انہوں نے کسی کو درخود اعتنا نہ سمجھا اور تمام ہال کو قہقہے لگواتی اپنی تقریر مسلسل جاری رکھی۔ قہقہے بکھیرنے کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ، ”جب میں این ای ڈی کا طالبِ علم تھا تب میں دو مضامین میں فیل ہوا، نوجوان ہر وہ کام کریں جو وہ کرنا چاہتے ہیں، میں آپ تمام کو دولت مند دیکھنا چاہتا ہوں، ٹیکنالوجی کا کردار لوگوں کی زندگیوں کو آسان کرنا ہوتا ہے اورآپ کی بدولت یہ کام ہوگا، اس دن پر آپ تمام مبارک باد کے حق دار ہیں“۔

اشرف حبیب اللہ نے جو بھی کیا اس نے محفل کو زعفران بنایا، جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جامعہ این ای ڈی جیسے معزز ادارہ کے 27 ویں سالانہ کنونشن میں اس طرح کا مضحکہ خیز خطاب کرکے ادارہ کے تقدس اور decorum کا مذاق اڑایا گیا۔ ایسی حرکت سی ایس آئی انک جیسی بڑی کمپنی کے بانی، صدر و چیف ایگزیکٹو کو بالکل بھی زیب نہیں دیتی جو خود بھی اس جامعہ کے سابق طالب علم ریے ہیں اور دنیا بھر میں سٹرکچر انجینئیرنگ سے متعلقہ سافٹ وئیر پروگراموں میں اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی بجائے اگر کوئی ایف اے پاس جوکر اس موقع کا فائدہ اٹھا کر ایسی تقریر کرتا تو شاید گوارہ کیا جا سکتا تھا۔

سوال مگر یہ بھی تو ہے کہ ہمارے سسٹم کی یہ بھی تو بدنصیبی ہے کہ 90 سال پرانے ملک کے اتنے بڑے انجینئیرنگ تعلینی ادارے سے پاس ہونے والے بی ایس سی، ایم ایسی سی اور پی ایچ ڈی انجینئیرز کے جس 27 ویں سالانہ کانووکیشن کی صدارت جس گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کی، ان کی اپنی تعلیم صرف ایف اے ہے۔ گورنر سندھ کے علاوہ اس عظیم ادارہ کے چانسلر مقرر ہونے کے لئے ان کے پاس تعلیم کی شدید کمی تو ہے ہی مگر تحریک انصاف کے سیاسی کارکن ہونے کے علاوہ کوئی ایسی سماجی خدمت یا خوبی بھی نہیں تھی کہ انہیں گورنر بنا کر این ای ڈی یونیورسٹی سمیت سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا چانسلر بنا دیا جاتا۔ اشرف حبیب اللہ کی مزاحیہ تقریر کے مقابلہ میں صوبہ سندھ کے ساتھ کیے گئے حکومت کے اس بھونڈے مذاق کے بارے یہ دانشور کیا فرمائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).