پاکستان کی مٹھی میں کیا ہے: جمہوری غبارہ یا مشرق وسطیٰ کی قیادت


برطانوی جریدے اکنامسٹ نے دنیا میں جمہوریت کی صورت حال کے بارے میں 2018 کی جو رپورٹ مرتب کی ہے اس میں پاکستان میں جمہوریت کو زوال پذیر بتایا گیا ہے ۔ 167 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 112 واں نمبر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یوں تو دنیا میں جمہوریت پر اعتماد میں کمی کے باوجود لوگوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہؤا ہے اور انہوں نے جمہوری عمل میں ووٹ دینے کے علاوہ اپنے حقوق کے لئے متعدد دوسرے طریقوں سے جد و جہد کی کوشش کی ہے۔ جریدے نے جمہوری نظام کے حوالے پاکستان کو ایسے ملکوں کی فہرست میں رکھا ہے جن کے بارے میں ہائبرڈ یعنی ملے جلے نظام کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ گویا ان ملکوں میں انتخاب بھی ہوتے ہیں اور جمہوریت کا ڈھونگ بھی کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کو جمہوری حقوق حاصل نہیں ہوتے۔
سوال ہے کہ کیا دنیا میں جمہوریت کے بارے میں تیار کیا گیا یہ انڈکس کسی طرح پاکستان میں رائے عامہ کو متاثر کرے گا یا ملک کی حکومت اس سے سبق سیکھنے کی کوشش کرے گی۔ اس سوال کا جواب پاکستان کا ہر باشندہ اپنی سیاسی وابستگی اور سمجھ بوجھ کے مطابق دے سکتا ہے لیکن جس ملک کی اکثر آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اور سنگین معاشی مسائل کا شکار ہو ، اس کے لئے جمہوریت، ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہے ۔ پاکستان کو بھی اس اصول سے استثنیٰ حاصل نہیں ہو سکتا۔
پانچ ماہ قبل عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی سربراہی میں ایک پاپولسٹ پارٹی ملک میں برسر اقتدار آچکی ہے۔ تاہم اس حکومت کو ماضی کی غلط کاریوں یا فیصلوں کا بوجھ بھی ورثہ میں ملا ہے۔ یہ ترکہ صرف برے سیاسی نظام ، جمہوریت پر گرتے ہوئے اعتماد اور سول ملٹری تعلقات کی دگرگوں صورت حال تک محدود نہیں ہے بلکہ ان میں سر فہرست معاشی مسائل ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں ، ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ ، دوست ملکوں کی مدد کے باوجود کم ہونے میں نہیں آرہا۔ نیا پاکستان تعمیر کرنے والی حکومت ایک کروڑ نوجوانوں کو روز گار اور پچاس لاکھ غریبوں کو گھر فراہم کرنا چاہتی ہے، وزیر اعظم عمران خان ملک کو دنیا بھر میں عزت و احترام دلوانا چاہتے ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ خیرات پر چلنے والے ملک کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتے۔ اس کے باوجود حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے عمران خان کو خالی خزانہ بھرنے اور معیشت کے انجماد کو توڑنے کے لئے دوست ملکوں سے مالی امداد مانگنا پڑی ہے۔ نئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عالمی مالیاتی ادارے سے پیکیج نہیں لے گی کیوں کہ اس طرح ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات سے براہ راست غریب آدمی متاثر ہوگا۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز منی بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ عندیہ دیاہے کہ حکومت فوری طور سے آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
وزیر خزانہ کے اس اعلان کے دو پہلو ہیں۔ ایک وہ جو حکومت خود بیان کرنا اور تسلیم کروانا چاہتی ہے۔ یعنی وزیر اعظم عمران خان کی بصیر ت افروز اور دیانت دار قیادت میں پاکستانی حکومت نے دوست ملکوں سے مراعات اور مالی امداد لے کر معاشی بحران پر قابو پالیا ہے اور وہ مستقبل میں بھی دراصل آئی ایم ایف کی بجائے متبادل ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس دعوے کے ساتھ ہی جب آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لینے کے آپشن کو مستقل طور سے رد کرنے کی بجائے ، ہرتھوڑے وقفے کے بعد اسے مؤخر کرنے کی بات کی جاتی ہے تو شبہات اور بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ متعدد اقتصادی ماہرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس قسم کی بے یقینی ملکی معیشت کے لئے مناسب نہیں ہے کیوں کہ اس طرح نئی سرمایہ کاری اور معاشی تحرک کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کے مالی پیکیج کے حوالے سے دوسرا پہلو حکومت کے سیاسی مخالفین اور بعض معاشی ماہرین بیان کرتے ہیں۔ ان بیانات کی روشنی میں حالات کو دیکھا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے مالی بچت کی سخت شرائط منوائے بغیر کوئی نیا پیکیج دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس رائے کے مطابق ایک کے بعد دوسرے منی بجٹ کے ذریعے محاصل میں اضافہ کی کوشش، روپے کی قدر میں کمی اور دیگر مالی اور سیاسی اقدامات ، دراصل آئی ایم ایف کو رجھانے اوران شرائط کو پورا کرنے کی کوششیں ہی ہیں جو مالیاتی ادارے سے امداد کا پیکیج لینے کے لئے عائد کی جاتی ہیں۔ حکومت گو کہ اس رائے کو الزام تراشی قرار دے گی لیکن جب وزیر خزانہ متبادل ذرائع کاذکر کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا باب بند کرنے پر راضی نہیں ہوتے تو شبہات قوی ہونے لگتے ہیں۔
یہ رائے بھی سامنے آتی رہی ہے کہ دوست ملکوں سے قرض اور مالی مراعات ملنے کے باوجود پاکستان کو آئی ایم ایف سے پیکیج قبول کرنا پڑے گا کیوں کہ معاشی صحت کا سر ٹیفکیٹ بہر صورت آئی ایم ایف ہی جاری کرتا ہے جو پاکستان کے متعدد عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کے لئے بھی اہم ہے۔ اس معاملہ کا سیاسی اور سفارتی پہلو بھی ہے۔جس کی طرف موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بات شروع ہوتے ہی ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے ایک انٹرویو میں اشارہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنے وسائل سے سی پیک کے مہنگے قرضے ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے پیکیج کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ چونکہ اس فنڈ کا سب سے بڑا ڈونر ہے ، اس لئے اس کی رائے اور مرضی کے بغیر یہ ادارہ بھی کسی ملک کو پیکیج دینے کا فیصلہ نہیں کرتا۔ یہیں سے اس معاملہ کے سیاسی پہلو کا آغاز ہوتا ہے۔
یوں تو موجودہ دنیا میں معیشت ہی سب سے بڑی سیاست ہے۔ اسی لئے امریکہ اور بھارت دونوں سی پیک کے کےمخالف ہیں اور چین ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ کی تکمیل کے لئے ان دونوں ملکوں سے براہ راست تصادم کی بجائے متوازن اور مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ، انہیں چینی معیشت اور سفارت کاری کے اس بنیادی اہمیت کے منصوبہ کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ سی پیک بھی ون روڈ ون بیلٹ کا ہی ذیلی منصوبہ ہے جس پر اقتدار میں آنے سے پہلے تک، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو شدید تحفظات تھے ۔اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ بیجنگ تک اس بارے میں ملک کی نئی نویلی حکومت کے نمائندے ایسے بیان دیتے رہے تھے جن سے چینی رہنماؤں کی تشویش میں اضافہ ہؤا تھا۔
اسی معاشی سیاسی داؤ پیچ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو امریکی صدر کل تک پاکستان کو صلواتیں سنانا اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھتا تھا، وہ اب نئی قیادت سے ملاقات پر راضی ہوچلا ہے۔ اس تبدیلی قلب میں( اگر یہ حقیقتاً واقع ہوچکی ہے) کچھ کردار تو افغان طالبان کی سیاسی مذاکرات پر آمادگی نے ادا کیا ہے لیکن سعودی شاہی خاندان کے نئی حکومت اور پاکستان کی طرف تازہ التفات کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ ترقی یافتہ دنیا کے واحد لیڈر ہیں جو پوری طرح سے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں ۔حالانکہ ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹرز کی طرف سے بھی ولی عہد محمد بن سلمان پر اس واقعہ میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ امریکہ سے اس قدر قرب رکھنے والا ولی عہد جب مشکلات میں گھرے پاکستانی وزیر اعظم کے ہاتھ پر چھے ارب ڈالر کا پیکیج دھرتا ہے تو یہ خالصتاً مسلم اخوت اور پاکستان سے محبت کی وجہ سے نہیں ہوسکتا۔
اب تو اس فیاضی میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہو چکا ہے۔ جس کے ساتھ ماضی میں پاکستان کے سرد ہوتے تعلقات کی ایک وجہ بلوچستان کے قوم پرستوں سے اماراتی قیادت کا قرب بھی تھا۔ اس کے علاوہ اب سعودی وزیر گوادر میں دس ارب ڈالر کی آئل ریفائنری لگانے کے لئے جگہ کا معائنہ کرچکے ہیں۔ اور خبر ہے کہ جلد ہی ولی عہد محمد بن سلمان بھی پاکستان اور گوادر کا دورہ کریں گے اور اس کثیر سرمایہ کاری کو باقاعدہ معاہدہ کی شکل بھی دیں گے۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ 2013 کے شروع میں آصف زرداری نے پاکستان کے صدر کے طور پر ایران سے معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق ایران ،پاکستان کو نہایت ارزاں قیمت پر گیس فراہم کرنے کے علاوہ بلوچستان میں آئل ریفائینری لگانے کے لئے سرمایہ کاری کرنے والا تھا۔ تاہم نواز شریف کی حکومت نے ایران دوستی کے نعرے لگاتے ہوئے بھی کبھی پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل نہیں کیا ۔ اس کے برعکس ملک کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بحری جہازوں کے ذریعے قطر سے مہنگی مائع گیس خریدنے کا معاہدہ کیا گیا۔
امریکہ، سعودی عرب کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ کا جو نقشہ ترتیب دینا چاہتا ہے، اس میں دوست دشمن بالکل واضح ہو چکے ہیں۔ ایران کو ولن کی حیثیت حاصل ہے جبکہ ترکی اور قطر کو ایران کے معاونین کے طور پر دوستی اور دشمنی کے درمیان نو مینز لینڈ میں رکھا گیا ہے۔ ترکی شام میں جاری لڑائی میں سعودی مفادات اور خواہشات کے برعکس اہداف رکھتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ البتہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح قطر اور سعودی عرب کے اختلافات ختم کروادئیے جائیں تاکہ ’اصل دشمن‘ سے نمٹنا آسان ہوجائے۔ ایران کی بجائے جب سعودی عرب گوادر میں ایرانی سرحد کے قریب کثیر سرمایہ کاری سے آئل ریفائنری تعمیر کرے گا تو اس اقدم کو پاکستان دوستی کی بجائے مشرق وسطیٰ میں جاری سیاسی کشمکش کے وسیع تر تناظر میں دیکھنا ضروری ہوگا۔
اس صورت حال میں پاکستان البتہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ ترکی اور قطر بلکہ ایران سے بھی ’برادرانہ ‘ تعلقات استوار رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔ ایسے میں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا حکومت اور اس کی سرپرست قوتیں عوام کو اپنی سفارتی اور معاشی کامیابی کی کہانی سناکر کسی بڑے عالمی منصوبہ کا حصہ بننے پر متفق ہوچکی ہیں ۔یا وہ خود بھی ان مشکلات سے بے خبر ہیں جو برادر ملکوں کی فراخدلی کی صورت میں ان کا حصار کررہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali