ہماری سینڈوچ جنریشن


\"lubnaصبح جیسے ہی سیل فون میں‌ الارم بجا تو میں‌ ایک گہرے خواب سے جاگ گئی۔ عجیب خواب تھا وہ بھی ادھورا۔ ایک ادھورا خواب ایک آدھی پڑھی ہوئی کہانی کی طرح‌ ہوتا ہے جس کے اختتام کے لئے تجسس رہ جاتا ہے۔ ایک بڑا سا ہال ہے جس میں‌ کسی ٹاپک پر لیکچر ہورہا ہے اور میں‌ توجہ سے اسے سن رہی تھی۔ باہر بارش ہورہی تھی اور موسم خراب تھا۔ جب لیکچر ختم ہوگیا تو سب لوگ اٹھ کر ادھر ادھر جانے لگے۔ میں‌ نے مڑ کر دیکھا تو امی کھڑکی کے باہر کھڑی بارش میں‌ بھیگ رہی تھیں۔ وہ میری امی تھیں‌ یا نذیر کی یا دونوں‌ ایک ہی خاتون کے اندر تھیں اس بارے میں‌ یقین سے نہیں‌ کہہ سکتی۔ میں‌ لپک کر کھڑکی کے پاس گئی تو دیکھا کہ وہ بھیگ رہی ہیں، اور مٹی بھی لگی ہوئی ہے۔ ان کو دیکھ کر میرا دل افسوس سے بھر گیا۔ میں‌ نے ان سے کہا آپ اندر کیوں‌ نہیں‌ آگئیں؟ تو انہوں‌ نےدروازے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ بند ہو گیا تھا اور اندر کوئی آواز بھی نہیں‌ سن سکتا تھا اس لئے وہ کھڑکی کے باہر کھڑی انتظار کرتی رہیں‌ کہ میں‌ مڑ کر انہیں‌ دیکھوں‌ گی۔

میری نانی کو چھاتی کا سرطان ہو گیا تھا اور جو لوگ ان کے ساتھ کمرے میں‌ موجود تھے ان کی زبانی معلوم ہوا کہ انہوں‌ نے تکلیف میں‌ تڑپ تڑپ کر جان دی تھی۔ ڈاکٹر اور سرجن تو دور کی بات، ان کو نہ ہاسپٹل کی سہولت تھی نہ درد کی دواؤں کی۔ وہ سارا وقت گھر میں‌ رہتی تھیں، چھ بچوں‌ اور اپنے شوہر کے لئے کھانا پکانے اور گھر صاف کرنے کے علاوہ ان کی اور کوئی مصروفیت نہیں‌ تھی۔ بچے بھی سارے گھر میں‌ ہی پیدا کئے اور اپنی صحت کا کبھی خیال نہیں‌ کیا۔ پردے کی  سخت پابند۔ لوگ کہتے ہیں‌ کہ جب کہیں‌ جانا ہو تو پالکی میں‌ اپنے ساتھ دو اینٹیں‌ بھی رکھ لیتی تھیں‌ کہ اٹھانے والوں‌ کو معلوم نہ ہو کہ ان کا وزن کتنا ہے۔ مجھے ان کی زندگی اور موت کا افسوس ہے۔ ان کے مرنے کے بعد بچے چھوٹے رہ گئے، میاں‌ نے دوسری شادی کرلی اور وہ سب لوگ ساری زندگی کے لئے ٹوٹے ہوئے انسان بن گئے۔

کتنا بھی میں‌ چاہوں‌ تو وہ منظر میرے ذہن میں‌ سے نہیں‌ نکل سکتا جب ہمارے سکھر والے گھر میں‌ آدھا شہر جمع تھا اور میری امی زور زور سے رو رہی تھیں۔ میری خالہ اس وقت نوجوان تھیں وہ ان سے کہہ رہی تھیں آپی آپ چپ ہوجائیں، آپی آپ مت روئیں۔ ان کو چار بچوں‌ کے ساتھ 24 سال کی عمر میں‌ ان کے شوہر چھوڑ کر چل بسے تھے۔ کیا نانا نے یہ کبھی سوچا ہوگا کہ سولہ سال کی بچی کو رخصت کررہے ہیں‌ تو وہ آٹھ سال بعد چار بچوں‌ کے ساتھ واپس آجائیں‌ گی؟ کام کم ہونے کے بجائے اور زیادہ ہوگیا۔ ہم اپنی بیٹیوں‌ کو تعلیم کے بغیر دوسرے لوگوں‌ کی ذمہ داری نہیں‌ بنا سکتے ہیں۔

جو خواتین یہ بلاگ پڑھ رہی ہیں‌ ان سے گذارش ہے کہ باقاعدگی سے اپنی عمر کے مطابق مناسب کینسر اسکریننگ کراتی رہیں۔ اگر آپ کی \"bhuttoعمر 50 سال سے زیادہ ہے تو چھاتی کے کینسر کو وقت پر تلاش کرسکنے کے لئے سال میں‌ ایک مرتبہ میموگرام کرائیں۔

دنیا خود ایک اسکول ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اور سمجھ حاصل کرنے کے لئے ضروری نہیں‌ کہ بڑی یونیورسٹی سے ہی ملے گی۔ زندگی ہر کسی کو سبق سکھاتی ہے کچھ لوگ سیکھ جاتے ہیں‌ اور کچھ نہیں‌ سیکھتے۔

لاڑکانہ کے بارے میں‌ تصویروں‌ کے ساتھ ایک کتاب میں‌ یہ تصویر دیکھی جس میں‌ ذوالفقار علی بھٹو شیخ زید کے ساتھ خواتین کے ہسپتال کا 1974 میں‌ افتتاح‌ کررہے ہیں۔ اس تصویر میں‌ کیا غلطی ہے؟ غلطی یہ کہ عمارت کھڑی کرلینے سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہو گا اگر وہاں کام کرنے والوں‌ کی ٹریننگ نہ ہو اور ان کے لئے کام کرنے کا ماحول نہ ہو۔ اس تصویر میں‌ سے خواتین غائب ہیں اور یہی اس تصویر کی سب سے بڑی غلطی ہے ۔ میڈیکل کالج میں‌ او بی کی روٹیشن میں‌ لاڑکانہ کے شیخ زید ہسپتال میں‌ کام کرنے کا موقع ملا۔ ہسپتال کے حالات اچھے نہیں‌ تھے اور اس میں آنے والی مریضاؤں‌ کی کہانیوں‌ نے مجھے مزید پی ٹی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹراؤمیٹک اسٹریس ڈس آرڈر دیا۔

بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لیبر روم میں‌ دیوار پر موم بتی لگائی ہوئی تھی جس سے دیوار کالی پڑ گئی تھی اور وہ کسی ڈراؤنی مووی کا منظر لگتا تھا۔ کم عمر لڑکیوں‌ کو حمل میں‌ زیادہ پیچیدگیاں‌ ہوتی ہیں جن میں‌ ایکلیمپسیا شامل ہے جس میں‌ ان مریضاؤں‌ کے مرنے کا چانس 14 فیصد تک ہوتا ہے۔ ایک سترہ سال کی حاملہ بے ہوش لڑکی کو ٹیبل پر کلائیوں‌ سے باندھا ہوا تھا کیونکہ اس کا جسم سر سے پیر تک سوج گیا تھا اور وہ ہر تھوڑی دیر بعد دوروں‌ کی شدت سے جھٹکے کھانے لگتی تھی۔ پیروں‌ کے پاس اس کی ماں‌ سر پکڑ کر بیٹھی تھی۔ انہوں‌ نے ہنسی خوشی اس کو پچھلے سال رخصت کرتے وقت اس لمحے کے بارے میں‌ نہیں سوچا تھا۔ ایک لڑکی آئی اور اس نے بہت پیارا بچہ ڈیلیور کیا جس کا معصوم چہرہ فرشتے کی طرح‌ لگتا تھا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی تھی اور اس کے گھر والے ان لوگوں‌ کو ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ ان لوگوں‌ کو جان سے مار دینا چاہتے تھے۔ ایک اور بالکل نوجوان گاؤں کی لڑکی کو لے کر آئے جس کو اس کے والدین نے اس کے شوہر کو اس دن بیچ دیا تھا اور اس کے اندام نہانی سے مستقل خون بہہ رہا تھا اور وہ بری طرح‌ ہاتھ پیر مار رہی تھی۔ میری کلاس فیلوز اس کے ہاتھ پیر پکڑ کر بے ہوشی کا ٹیکہ لگانے کی کوشش کررہی تھیں تو میں‌ نے اس کی آنکھوں‌ میں دیکھا اور اس سے نرمی سے بات کرنا شروع کی۔ معلوم نہیں‌ وہ اردو سمجھتی تھی کہ نہیں‌ لیکن میں‌ نے اس کو یہی کہا کہ ہم سب تمہاری مدد کرنا چاہ رہے ہیں اور ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دو۔ اس نے ویسا ہی کیا، پھر بے ہوشی کی دوا دینے کے بعد اس کو ایمرجنسی میں‌ او آر بھیجا گیا تاکہ جو خون کی نالیاں‌ پھٹ گئی ہیں‌ ان کو بند کیا جاسکے۔ جو پاکستانی خواتین ٹائم پر ہسپتال نہیں‌ پہنچتی ہیں‌ وہ گھر پر ہی مر جاتی ہیں۔

میں‌ یہ تصویر دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ 1974 میں‌ شیخ زید یا بھٹو صاحب اپنی قوم کے لئے اچھا ہی سوچ رہے تھے اور اچھا کام بھی \"bhuttoکررہے تھے پھر کیا ہوا کہ پچھلے چالیس سالوں‌ میں‌ ہماری قوم کی حالت میں‌ کوئی بہتری نہیں‌ آئی اور وہ دائرے میں‌ سفر کررہی ہے۔ اس کا جواب مجھے یہی سمجھ آتا ہے کہ لوگوں‌ کو مچھلیاں‌ روزانہ دے کر ہمیشہ کے لئے ان کے حالات بہتر نہیں‌ کرسکتے۔ باپوں‌ نے اپنے سر پر وہ ذمہ داریاں‌ لیں‌ جن کو نبھانے کی ان کی نیت شائد ٹھیک ہو لیکن ان میں ان ذمہ داریوں‌ کو پورا کرنے کی تعلیم، شعور یا صلاحیت نہیں‌ تھی۔ ہم اپنے آپ کو اور اپنی بیٹیوں‌ کو اس نظام کے حوالے نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ناکام ہوچکا ہے۔

جب ہم لوگ گلوکومیٹر استعمال کرنا سیکھ رہے تھے تو اپنی امی کی شوگر چیک کی تو وہ 300 ملی گرام فی ڈیسی لٹر سے زیادہ آئی جس کے بارے میں‌ انہیں‌ معلوم نہیں تھا۔ میری امی کی جنریشن کی خواتین کا وزن زیادہ ہے اور ان میں کھیل کود یا ورزش کا رجحان کم ہے۔ اسی لئے نہ صرف ان کو بہت ساری بیماریاں‌ ہیں‌ بلکہ ان کی طبعی عمر بھی نسبتاََ کم ہے۔

ہماری جنریشن ایک سینڈوچ جنریشن ہے جس کو نہ صرف پیچھے مڑ کر ہم سے پہلی نسل کی مدد کرنی ہے بلکہ آگے آنے والے لوگوں‌ کے بارے میں‌ بھی سوچنا ہے۔ ہم گذرے ہوئے لوگوں‌ کی غلطیاں‌ دہرانے کی غلطی نہیں‌ کرسکتے۔

ایک مرتبہ دیسی لوگ آئے تو ان کے شوہر نے کہا کہ میری بیوی کو فلاں‌ تکلیف ہے لیکن وہ آپ کو بتاتے ہوئے شرمندہ محسوس کررہی ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی ایسی شرمندہ ہونے والی بات بھی نہیں‌ تھی۔ اس طرح‌ کے مشاہدات سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ پردہ پوشی اور معاشرے سے الگ تھلگ کٹ کر رہنے سے کس طرح‌ ان خواتین میں‌ دنیا کے بارے میں‌ معلومات، خود اعتمادی اور ہمت میں‌ کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک سٹڈی سے معلوم ہوا کہ دو ہفتے چھٹی لینے سے آئی کیو 14 پوائنٹ کم ہوجاتا ہے۔ جس طرح‌ فریکچر پر پلستر چڑھانے کے بعد اس بازو کو استعمال نہ کریں‌ تو چار چھ ہفتوں‌ میں‌ ہی وہ کتنا پتلا سا ہوجاتا ہے بالکل ویسے ہی انسان کا دماغ‌ اور صلاحیت بھی ہے۔

ہر انسان کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا آج کی پیچیدہ دنیا میں‌ نہایت اہم ہے۔ خواتین ڈاکٹرز، نرسز، سائکالوجسٹ اور فارماسسٹ ضروری ہیں۔ وہ کہیں‌ آسمان سے نہیں‌ آئیں‌ گی۔ یہی ہیں‌ ہماری بیٹیاں‌ جن کو ان شعبوں‌ میں‌ اور ان کی پسند اور شوق کے دوسرے شعبوں‌ میں‌ آگے بڑھنے میں‌ مدد کرنی ہوگی۔ اپنی بیٹی کا نام میں نے اپنی نانی کے نام پر رکھا۔ میں‌ چاہتی ہوں‌ کہ وہ میری نانی سے ایک بہتر زندگی گذارے۔ وہ زندگی جس کی وہ حقدار تھیں‌ لیکن وہ ان کو نہیں‌ ملی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments