نواز شریف، اذان ضرور ہو گی


قانونی موشگافی کیا رہتی ہے اس کا تعلق عوامی رائے سے قائم نہیں ہو پاتا ہے۔ بالخصوص اس کیفیت میں کہ جب رائے عامہ میں حمایت اور مخالفت کرنے والے دونوں طبقات سیاسی رہنماء کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا معاملہ اس کے طاقت کے مراکز سے تعلقات میں تلاش کر رہے ہوں۔ یہی معاملہ اس وقت پاکستان کو در پیش ہے۔ نواز شریف کی سیاسی زندگی اس وقت جس موڑ پر آ پہنچی ہے اس کے متعلق یہ تاثر قائم رکھنا کہ وہ خود اس کی توقع نہیں کر رہے تھے، حالات کے معاملے میں اپنی آنکھیں بلکہ کان اور دماغ بھی بند کر لینے کے مترادف ہو گا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حالات کس رخ جا سکتے ہیں۔ کسی کو بھی سپر پرائم منسٹر تسلیم نہ کرنے کے بیان نے یہ طے کر دیا تھا کہ ووٹ کی طاقت کا تصادم اینٹی پولیٹیکل سوچ سے ضرور ہو گا۔ نتیجتاً تجربات پھر دہرائے جائیں گئے۔ اور فی الواقعہ ایسا ہوا بھی۔ لیکن ہمارے سامنے اصل سوال یہ موجود ہے کہ ان تجربات کی بنا پر جو سیاسی بناء پڑتی ہے اس سے اس وقت وطن عزیز کس طرح نبرد آزما ہے۔

اس موجودہ تجربے کے معاشی اثرات عوام کس طرح بھگت رہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ اس کے لئے کوئی اعداد و شمار کو پیش کیا جائے۔ ایسا کرنا سورج کو حقیقتاً ہی چراغ دکھانے کے برابر ہو گا۔ دوسرا سماجی زندگی کا اہم پہلو سیاسی استحکام کا حصول ہوتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے جمہوریت میں انتخابی عمل کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر انتخابی عمل سے سیاسی استحکام صرف اس صورت حاصل ہوتا ہے کہ جب اس کی شفافیت ہر قسم کے سوال سے چھٹکارا پا چکی ہو۔

ظاہر ہے یہ معاملہ ہمارے ہاں اس وقت نا پید ہے۔ اس تمہیدی گفتگو کا مقصد یہ کھوج لگانا تھا کہ تجربات کرنے والے اس کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے کہ ان تجربات کی موجودگی کے سبب سے معاشی بدحالی اور سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہو گا۔ حالانکہ تجربات بنیادی طور پر ان دونوں معاملات کو ختم کرنے کے نام پر کیے گئے۔ ایوب خان کے برسر اقتدار آنے سے لے کر کمانڈو پرویز مشر ف کے تخت نشین ہونے تک آپ کو یہی کہانی ملے گی کہ معاملات اس حد تک گڑ بڑ ہو گئے تھے کہ بادل نخواستہ یہ سب کرنا پڑا۔

لیکن ذرا ہماری تاریخ تو اس سے بھی پرانی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر ایوبی تجربے تک بار بار وزرائے اعظم کی تبدیلی کے باوجود سیاستدان ایک آئین تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ جس میں موجودہ پاکستان اور سابقہ مشرقی پاکستان ایک آئینی نظام پر متفق ہو چکے تھے۔ آئینی نظام پر اتفاق سیاسی استحکام کی بنیادی شرط ہے اور یہ منزل حاصل کر لی گئی تھی۔ مگر اس کے بعد ننگا شب خون مارا گیا اور پھر سیاسی عدم استحکام بنگلہ دیش سے موجودہ پاکستان تک زمین سرخ کرتا رہا۔

جبکہ 1956 ؁ء کے آئین سے لے کر 18 ویں ترمیم کی منظوری تک سیاسی استحکام حاصل کرنے کی شعوری کوششیں کی گئیں۔ اور ان کے جواب میں تجربات بھی آج تک جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تجربات کے بد اثرات سے رہائی کیسے ممکن ہے۔ اس کے لئے اول تو یہ لازم ہے کہ تجربات کی فیکٹری بند ہو تا کہ تازہ تجربہ پرانے زخم دوبارہ تازہ اور نیا گھاؤ نہ لگا دیں۔ اور تجربات کی فیکٹری بند کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بلا کسی اگر مگر لیکن چونکہ چنانچہ کے اس کی واضح طور پر مزاحمت کی جائے۔

اور یہ مزاحمت نواز شریف کی صورت میں اس وقت جاری بھی ہے۔ ابتداء میں تحریر کیا تھا کہ نواز شریف کے اس ارادے نے کہ وزیر اعظم صرف وزیر اعظم ہی ہو گا واضح کر دیا تھا کہ معاملات ضرور خراب ہوں گے ۔ کیونکہ ان کے اس ارادے کی راہ میں رکاوٹوں نے ضرور حائل ہونا تھا۔ 2003 ؁ء میں جدہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ اس سے قبل کمانڈو مشرف کی خواہش نیشنل سکیورٹی کونسل پر راقم نے ایک کالم تحریر کیا تھا جس پر میاں نواز شریف نے جدہ سے فون کر کے اپنے خیالات سے مستفید کیا تھا۔

جدہ ملاقات میں بھی اس کالم کا تذکرہ چھڑ گیا تو وہاں بھی میاں نواز شریف نے مجھے کی گئی ایک ای میل کے الفاظ دوہرائے کہ Wolf in the Sheep ’s Skin میں نے سوال کیا کہ آپ کب تک مقابلہ کرتے رہیں گے۔ تو جواب دیا کہ جب تک حقیقی معنوں میں عوامی فتح نصیب نہیں ہو جاتی۔ عوامی فتح کب نصیب ہو گی اس کے لئے کسی وقت کا تعین کرنا تو نا ممکن ہے۔ مگر مسلسل مقصد سے مربوط رہنا بہرحال مقصد تک پہنچا دے گا۔ سعید نفیسی ایران کے ایک مایہ ناز ادیب تھے انہوں نی اپنے شہرہ آفاق ناول ”دربند میں مغرب کی نماز“ میں ان حالات کا نقشہ کھینچا ہے کہ جب دربند شہر پر کمیونسٹ مسلط ہو گئے تھے اور شہر کی جامع مسجد کو انہوں نے حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ جہاں پر حکومت نے ایک ادارہ کھول کیا لیکن لوگوں کی آس ٹوٹنے لگی مگر ایک بوڑھا موچی اس مسجد کے مینار تلے 30 سال بیٹھا رہا۔

اس کے بیٹھنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ مسجد کے میناروں سے ایک بار پھر اذان کی آواز سننا چاہتا تھا۔ اس کا رس اپنے کانوں میں گھولنا چاہتا تھا۔ حالات کی سختی کے باوجود وہ اپنی اس چاہت سے منحرف نہ ہوا اور پھر ایک دن وہ مغرب کی اذان کی آواز اپنے کانوں میں سننے میں کامیاب ہو گیا۔ کامیابی کی واحد وجہ اس کا اپنے مقصد سے جڑے رہنا تھا۔ بلا شبہ جیل بہت سخت ہے۔ لیکن اذان بھی اسی راستے سے سنائی دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).