جینی – اردو کے شاہکار افسانے


ہوائی جہاز پر سوار ہوتے وقت مجھے کچھ شبہ ہوا۔ نیلے لباس والے لڑکی سے پوچھا تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلایا، جب ہم جہاز سے اترے تو مجھے یقین ہو گیا اور میں نے پائپ پیتے آکسفورڈ لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے پائلٹ کو دبوچ لیا۔ ہم مدتوں کے بعد ملے تھے۔ کالج میں دیر تک اکٹھے رہے۔ کچھ عرصے تک خط کتابت بھی رہی۔ پھر ایک دوسرے کے لیے معدوم ہو گئے۔ اتنے دنوں کے بعد اور اتنی دور اچانک ملاقات بڑی عجیب سی معلوم ہو رہی تھی۔

طے ہوا کہ یہ شام کسی اچھی جگہ گزاری جائے اور بیتے دنوں کی یاد میں جشن منایا جائے۔ میں نے اپنا سفر ایک روز کے لیے ملتوی کر دیا۔

جب باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے دیکھا، کہ وہ خاصی حد تک بدل چکا تھا۔ مٹاپے نے اس کے تیکھے خد و خال کو بدل دیا تھا۔ اس کی آنکھوں کا وہ تجسس، نگاہوں کی وہ بے چینی، وہ ذہین گفت گو سب مفقود ہو چکے تھے۔ وہ عامیانہ سی گفت گو کر رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی زندگی اور ماحول سے اس قدر مطمئن ہے، کہ اس نے سوچنا بالکل ترک کر دیا ہے۔ دیر تک ہم پرانی باتیں دُہراتے رہے۔ سہ پہر کو وہ مجھے ایک اینگلو انڈین لڑکی کے ہاں لے گیا، جسے وہ شام کو مدعو کرنا چاہتا تھا۔

لڑکی نے بتایا کہ شام کا وقت وہ گرجے کے لیے وقف کر چکی ہے۔ ہم ایک اور لڑکی کے ہاں گئے۔ اس نے بھی معذرت چاہی کیوں کہ اس کی طبیعت نا ساز تھی۔ پھر تیسری کے گھر پہنچے۔ اگر چہ دوسرے کمرے سے خوشبوئیں بھی آ رہی تھیں اور کبھی کبھار آہٹ بھی سنائی دے جاتی تھی، لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ وہ ایک اور شناسا لڑکی کے ہاں جانا چاہتا تھا لیکن میں نے منع کر دیا تھا کہ کوئی ضرورت نہیں اور پھر اگر کوئی اور ساتھ ہوا تو اچھی طرح باتیں نہ کر سکیں گے۔ واپس آ کر اس نے ٹیلی فون پر کوشش کی۔ چوتھی لڑکی گھر پہنچ چکی تھی لیکن شام کو اس کی امی اسے نانی جان کے ہاں لے جا رہی تھی۔

شام ہوئی تو ہم وہاں کے سب سے بڑے ہوٹل میں گئے۔ رقص کا پرو گرام بھی تھا۔ اس نے پینا بھی شروع کر دیا۔ میرے لیے بھی انڈیلی اور اصرار کرنے لگا۔ یہ اس کی پرانی عادت تھی۔

میں نے گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے چھوا، کچھ دیر گلاس سے کھیلتا رہا، پھر ٹہلتا ٹہلتا دریچے تک گیا۔ ایک بڑے سے گملے میں انڈیل کر واپس آ گیا اس نے دوسری مرتبہ انڈیلی مجھے بھی دی، میں پھر اٹھا اور اپنا حصہ کھڑکی سے باہر پھینک آیا۔

وہ اپنی روزانہ زندگی کی باتیں سنا رہا تھا۔ کمپنی کی لڑکیوں کے متعلق جو نہایت طوطا چشم تھیں۔ شراب کے متعلق جو دن بدن مہنگی ہو تی جا رہی تھی۔ اپنے معاشقوں کے متعلق جو اسے بے حد پریشان رکھتے تھے۔ اس کی بیوی بھی اسی شہر میں رہتی تھی لیکن وہ اسے مہینوں نہ ملتا۔ جب کبھی بھولے سے گھر جاتا تو اتنے سوال پوچھتی کہ عاجز آ جاتا۔ اتنا نہیں سمجھتی کہ ایک ہوا باز کی زندگی کس قدر خطر ناک زندگی ہے۔ اگر چہ یہ اس نے خود منتخب کی تھی۔

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دفعتہََ ہم نے اس لڑکی کو رقص گاہ میں دیکھا جسے اس وقت گرجے میں ہونا چاہیے تھا۔ وہ ایک لڑکے کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ لڑکی آ گئی، جس کی طبیعت نا ساز تھی پھر معلوم ہوا کہ چوتھی لڑکی بھی ہمارے سامنے رقص کر رہی ہے، اپنی امی یا نانی جان کے ساتھ نہیں، ایک دوسرے ہوا باز کے ساتھ۔

وہ اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ نہ جانے یہ لڑکیاں ہمیشہ اسی کو کیوں دھوکا دیتی ہیں۔ ہمیشہ ٹرخا دیتی ہیں۔ آج تک کسی لڑکی نے اسے دل سے نہیں چاہا۔ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ وہ گلاس پر گلاس خالی کیے جا رہا تھا۔ میرے حصے کی ساری شراب گملوں اور پودوں کو سیراب کر رہی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ مجھ جیسا لڑکا جو کالج کے دنوں میں باقاعدہ سگریٹ بھی نہ پیتا تھا اب ایسا شرابی ہو گیا کہ اتنی پی چکنے کے بعد بھی ہوش میں ہے۔ اس کے خیال میں ایسے شخص کو پلانا قیمتی شراب کا ستیا نا س کرنا تھا۔

پھر ان اجنبی چہروں میں ایک جا نا پہچانا مانوس چہرہ دکھا ئی دیا۔ یہ جینی تھی۔ جو رقص کا لباس پہنے ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ ابھی ابھی آئی تھی۔ ہم دونوں اٹھے۔ ہمیں دیکھ کر جینی کا مسکراتا ہوا چہرہ کھل گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملی۔ تعارف ہوامیرے خاوند سے ملیے اور یہ دونوں میرے پرانے دوست ہیں۔

میں نے ہاتھ ملاتے وقت اس کے خاوند کو مبارک باد دی، اور کہا کہ وہ دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہے۔

میں نے اسے غور سے دیکھا وہ چالیس سے اوپر کا ہو گا۔ اچھا خاصا سیاہ رنگ، دھندلی تھکی تھکی آنکھیں، بے حد معمولی شکل، پستہ قد۔ اگر وہ جینی کا خاوند نہ ہوتا تو شاید ہم اس کی طرف دوسری مرتبہ نہ دیکھتے لیکن جینی کی مسکراتی ہوئی آنکھیں اس کے سوا اور کسی کی طرف دیکھتی ہی نہ تھیں۔ وہ اس کی تعریفیں کر رہی تھی کہ وہ قریب کی بندرگاہ کا سب سے بڑا بیرسٹر ہے۔ اس علاقے میں سب سے مشہور شخص ہے۔ میں نے جینی کو رقص کے لیے کہا۔

اس نے آنکھوں آنکھوں اپنے خاوند سے اجازت لی۔ رقص کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ وہ بے حد مسرور ہے۔ اس قدر مسرور شاید میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور اس کے چہرے کی چمک دمک ویسی ہی ہے۔ اس کے ہونٹوں کی وہ دل آویز اور مخمور مسکراہٹ جوں کی توں ہے۔ وہ مسکراہٹ جو اس قدر مشہور تھی جسے مونا لِزا کی مسکراہٹ سے تشبیہ دی جاتی تھی؛ نہایت پر اسرار اور نا فہم مسکراہٹ، جس کی گہرائیوں کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔ جو ہمیشہ راز رہی۔

اور یہی مسکراہٹ میں نے سال ہا سال سے دیکھی تھی۔ اس مسکراہٹ سے میں مدتوں سے شناسا رہا۔ جینی کے خاوند کے دوست آ گئے اور مقامی باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیر کے بعد میں اور میرا دوست اٹھ کر واپس اپنی جگہ چلے آئے، جہاں بوتل اس کی منتظر تھی۔

میں نے اس سے جینی کے متعلق باتیں کرنا چاہیں لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہیں۔ وہ ان تین لڑکیوں کے لیے اداس تھا جو اسے دھوکا دے کر دوسروں کے ساتھ چلی آئیں۔ آج یہ پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا، پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا اور یہ لڑکیاں اجنبی نہیں تھیں، پرانی دوست تھیں اس کے ساتھ باہر جا چکی تھیں۔ اس سے بیش قیمت تحائف لے چکی تھیں۔ در اصل اب ایسی ٹھوکریں اسے ہر طرف سے لگ رہی تھیں، ریس، برج، سٹّا، ہر جگہ وہ ہار رہا تھا۔

ایک ادنٰے فلم کمپنی کی ایکسٹرا لڑکی جس کے لیے اس نے سمندر کے کنارے مکان لیا، اسے چھوڑ کر کسی بوڑھے سیٹھ کے ساتھ چلی گئی اور میں دُزدیدہ نگاہوں سے اس طرف دیکھ رہا تھا جہاں جینی تھی۔ وفورِ مسرت سے اس کا چہرہ جگمگا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں روشن تھیں۔ وہی آنکھیں جو کبھی غم گین اور نم ناک رہا کرتیں، اب مسرور تھیں۔ رخسار جن پر مدتوں آنسوؤں کی کی لڑیاں ٹوٹ کر بکھرتی رہیں، اب تاباں تھے۔ وہ کھلی ہوئی مسکراہٹ شاہد تھی کہ دل سے اس شدید الم کا احساس جا چکا ہے جو جینی کی قسمت بن چکا تھا۔ اس خوشی میں اب غم کی رمق تک نہیں دکھائی دیتی تھی۔

لیکن اتنی زائد مسرت کیسی تھی؟ یہ انبساط کیسا تھا؟ اور اس پر اسرار مسکراہٹ کے پیچھے کیا تھا؟ میں صرف اس کے چہرے کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی روح بہت دور تھی۔ وہاں تک میری نگاہیں نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ کیا وہاں کوئی عظیم طوفان بپا تھا؟ اذیت کن، کرب ناک شدید تلاطم؟ یا جلتے ہوئے شعلوں کی تپش نے بہت کچھ بھسم کر دیا تھا؟ یا وہاں سب کچھ یخ ہو چکا تھا؟ برف کے تودوں کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا؟ اس کا جواب میں نے اس کی مسکراہٹ سے مانگا۔

وہ لگاتار اپنے خاوند کے ساتھ رقص کرتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کئی مرتبہ وہ بالکل قریب سے گزرے۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرائی پھر جیسے وہ مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ اس نے ماضی اور حال کی حدوں کو محیط کر لیا۔ وہ سب تصویریں سامنے آنے لگیں جو ذہن کے تاریک گوشوں میں مدفون تھیں۔

میں نے برسوں پہلے اپنے آپ کو یونیورسٹی کے مباحثے میں دیکھا۔ میرے ساتھ میرا پرانا دوست رفیق اور ہم جماعت جی بیؔ تھا۔ وہ ان دنوں بہترین مقرر تھا۔ اسٹیج پر ہمیشہ فاتح کی طرح جاتا اور فاتح کی طرح لوٹتا۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو ایک لڑکی اسٹیج پر آئی۔ گھنگھریالے بال، جھکی ہوئی آنکھیں، لبوں پر محجوب مسکراہٹ، ملا جلا انگریزی لباس پہنے۔

ہال میں سرگوشیاں ہونے لگیں، ہمیں بتایا گیا کہ یہ نئی نئی کہیں سے آئی ہے۔ اس کا نام کچھ اور ہے لیکن اسے لیلے ٰ کہتے ہیں۔ شاید اس کی ملیح رنگت اور گھنگھریالی پریشان زلفوں کی وجہ سے۔ کچھ دیر وہ شرماتی رہی، بول ہی نہ سکی، پھر ذرا سنبھل کر اس نے جی بی کی تقریر کی مخالفت شروع کی ایسے ایسے نکتے لائی کہ سب حیران رہ گئے۔ جی بی کی تقریر بالکل بے معنی معلوم ہونے لگی۔

جب وہ اسٹیج سے اتری تو دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ پہلا انعام جیؔ بی اور اس لڑکی میں تقسیم کیا جائے گا لیکن جی بی نے ججوں سے درخواست کی کہ انعام کی وہی حق دار ہے اور اسی کو ملنا چاہیے۔ جیؔ بی کے رویے کو سراہا گیا۔ ہجوم میں ہیجان پھیل گیا۔ مدتوں کے بعد ایک لڑکی پہلا انعام جیت رہی تھی، وہ بھی ایسی لڑکی جو بالکل نو وارد تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7