سعودی عرب کا مطالبہ کہ پاکستان قطر سے تمام تعلقات ختم کر دے


جس طرح ہپناٹائز کرنے والے یا جادو گر کسی کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر جو کچھ چاہتے ہیں حصار میں آیا ہوا بندہ مجبور ہوجاتا ہے کہ وہی سب کچھ کہے اور کرے جو اس کا عامل اس کو حکم دے رہا ہے بالکل اسی طرح آج کل عربوں کا حال ہوکر رہ گیا ہے۔ امریکا نے جانے کیا منتر پڑھ کر پھونکا ہے کہ پوری دنیائے عرب اس کے اشارہ ابرو پر ناچ رہی ہے۔ ابھی کچھ ہی تو عرصہ ہوا ہے جب امریکی سرکار نے حکم دیا کہ تمام عرب ممالک اپنی مشترکہ فوج تشکیل دیں۔

حکم سننا تھا کہ راتوں رات ایک فوج ظفر موج تیار کردی گئی اور پھر کھرب ہا کھرب ڈالرز کا چیک کاٹ کر صدر ٹرمپ کو محض اس لئے دے دیا گیا کہ وہ بنائی گئی اس فوج کے لئے دنیا کا جدید ترین اسلحہ بھی فراہم کرے۔ صدر ٹرمپ نے چیک تو پکڑ لیا لیکن یہ کون پوچھ سکتا ہے کہ اس چیک کے بدلے جو اسلحہ سعودی عرب کی اس نئی تشکیل شدہ فوج کو ہتھیار فراہم کرنے تھے وہ معاہدے کے مطابق فراہم کر بھی دیے گئے یا نہیں۔

صدر ٹرمپ کے دورے کے فوراً بعد ہی عرب کی سرزمین کشیدگیوں کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی جس کی وجہ سے یمن اور سعودیہ کے تعلقات تو جو ہوئے سو ہوئے لیکن سعودی عرب کے قطر سے بھی حالات بہت خراب ہو گئے۔ نوبت یہاں تک بھی آئی کہ سعودی عرب نے پاکستان سے بھی کہا کہ وہ قطر سے اپنے سارے تعلقات منقطع کرلے اور جتنے بھی معاہدات قطر سے ہو چکے ہیں ان سب کو توڑ دے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے لئے بہت کڑا تھا اس لئے کہ سعودیہ کے اس تقاضے سے چند ہفتے قبل ہی قطر سے ایل این جی کا معاہدہ عمل میں آیا تھا۔

پاکستان کے لئے یہ بہت ہی مشکل ہوتا کہ وہ سعودیہ کی بات مان لیتا اس لئے کہ پاکستان گیس کی کمی کا شدت سے شکار ہوچکا تھا اور اگر وہ قطر سے کیے گئے معاہدے کو توڑ لیتا تو پاکستان کے معاشی حالات تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے۔ ادھر سعودی عرب کا حال یہ تھا کہ وہ قطر کے سلسلے میں بالکل دو ٹوک بات سننا چاہتا تھا۔ یہ معاملہ کس طرح دبا اس کی ایک الگ کہانی ہے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ پاکستان نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے نہ تو قطر سے اپنے تعلقات منقطع کیے اور نہ ہی سعودی عرب کو اپنا مخالف بنایا۔ قطر سے کیے گئے معاہدے اور تعلقات اسی طرح برقرار ہیں جیسا کہ ماضی میں تھے اور وہاں سے ایل این جی کی ترسیل بھی جاری ہے۔

سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشیدگی پہلے کی طرح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کشیدگی خطے کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں۔ قطر سے سعودی عرب کو یہ شکایت ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ملا ہوا ہے جبکہ سعودی عرب کو قطر اور ایران کی قربت گوارہ نہیں۔

کسی زمانے میں بے شک سعودی عرب کی پوزیشن صرف عرب ممالک کے لئے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے لئے قابل تقلید ہوا کرتی تھی اور عام طور پر کسی بھی مسلم ملک کے لئے سعودی عرب کی جانب سے کسی قسم کا کوئی بھی حکم احترام کے قابل ہوا کرتا تھا۔ اگر کوئی اسلامی ملک سعودیہ کی بات نہیں بھی مانتا تھا تب بھی وہ براہ راست اس کی بات کے احترام میں کوئی ایسا رویہ ضرور اختیار کرتا تھا جس سے اس کے اور سعودی عرب کے تعلقات میں کوئی تلخی نہ پیدا ہو لیکن فی زمانہ اب سعودی فرما روا کی وہ پہلے جیسی پوزیشن نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ قطر جیسا ملک بھی سعودیہ کی باتوں سے یا فرمانروا کے احکامات سے انحراف کرنے کی جرات کر گزرتا ہے۔

عرب ممالک کے حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ حالات کو یہاں تک پہنچانے میں بھی زیادہ تر عرب ممالک کا ہاتھ ہے اس لئے کہ ہر حکومت اپنی بقا کے لئے امریکا کی جانب منھ کرکے کھڑی ہوجاتی ہے اور امریکہ اس موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے اور دونوں ہاتھوں سے نہ صرف ڈالرز سمیٹ رہا ہے بلکہ وہ سارے وسائل، جس میں تیل مرکزی حیثیت کا حامل ہے، ان سب پر عملاً قابض ہو گیا ہے۔

یہ حالات عراق اور عرب جنگ کے وقت سے خراب ہونا شروع ہوئے جب سعودی عرب نے اپنا دفاع خود کرنے کی بجائے امریکہ کی پیش کش کو قبول کیا۔ جب سے امریکا کی افواج سعودی عرب کے طول و عرض میں چھا گئیں اور ایسے آئیں کہ تا حال جانے کا نام نہیں لیا۔

سعودی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ ایک موقعہ پر امریکا کے صدر ٹرمپ نے بہت تضحیک آمیز لہجے میں سعودی حکومت سے کہا تھا کہ آپ کی حکومت ہماری مرہون منت ہے اگر ہم سعودیہ سے باہر آجائیں تو آپ کی گدی ایک ہفتے بھی آپ کے پاس نہیں رہ سکتی۔ کسی بھی حکومت یا بادشاہت کے لئے اس سے برے الفاظ اور کیا ہو سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ان الفاظ کے جواب میں سعودی شاہ کی خاموشی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایسا ہی ہے اور امریکا کی ناراضگی ان کے تخت شاہی کا تختہ کر سکتی ہے۔

ان حالات کو سامنے رکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب ہی کیا تمام عرب ممالک امریکا کی ٹرانس (سحر) میں آئے ہوئے ہیں اور ممکن ہی نہیں کہ وہ امریکہ کی کسی پالیسی سے ایک انچ بھی اِدھراُدھر ہو سکیں۔

ان حالات میں وہی امریکا جو تمام امت مسلمہ کو پارہ پارہ کیے ہوئے ہے وہ سعودی عرب کو درس دے رہا ہے کہ وہ قطر سے اپنی کشیدگی کو ختم کرے۔ بات تو بہت اچھی ہے لیکن اچانک امریکا کو امن، محبت، ہم آہنگی اور اتحاد کی بات کیوں یاد آگئی؟

خبر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے قطر اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنازع بہت طول پکڑ گیا ہے۔ مائیک پومپیو ان دنوں مشرق وسطی کے دورے پر ہیں اور اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچیں ہیں جہاں ان کی ملاقات قطر کے ولی عہد شہزاد محمد بن زید سے بھی متوقع ہے۔ خطے کے اپنے دورے کے دوران مائیک پومپیو نے کہا کہ وہ اور صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ خیلجی ممالک میں تنازعہ کافی طول پکڑ گیا ہے اور اس کو حل کیا جانا سب کے باہمی مفاد میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس تنازع کے جاری رہنے کی وجہ سے خطے میں دشمنوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور باہمی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک اہم کام کرتے ہیں اور ہمارے سامنے اہم کام ہیں جنھیں ہمیں مشترکہ طور پر جاری رکھنا ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ تمام فریقین باہمی تعاون کی افادیت پر غور کریں اور وہ اقدامات اٹھائیں جو ان کی صفوں میں اتحاد کے لیے ضروری ہیں۔

بات بظاہر بہت خوش کن ہے۔ جنگ یا کشیدگی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتی۔ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے بھرپور امن کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنگ اور وہ بھی برادر اسلامی ملکوں میں تو ویسے بھی کسی لحاظ سے اچھی نہیں۔ مسلمان ویسے بھی بدحالی کا شکار ہیں اس لئے ان کو جنگ اور کشیدگی سے دور ہی رہنا چاہیے۔ یہاں اگر سوال اٹھتا ہے تو یہ اٹھتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون دشمن ہیں جو اس کشیدگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں؟

اگر غور کیا جائے تو عرب ممالک اور خاص طور سے سعودی عرب کو زیادہ تر ایران سے ہی گلہ رہتا ہے اور وہ خطے میں ایران کے لئے کسی گنجائش کو گوارہ نہیں کرتا۔ یہی بات یمن کی کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے اور یہی بات قطر سے تعلقات میں رکاوٹ ہے۔ اگر امریکا واقعی خطے میں امن کا خواہاں ہے تو وہ ایران کے لئے دل کشادہ کیوں نہیں رکھتا؟ یہی نہیں، امریکا کے ترکی سے بھی کوئی مثالی تعلقات نہیں۔ اسی طرح امریکا عرب ممالک میں بھی کئی ملکوں میں داخل ہوا ہوا ہے اور وہاں کی آپس کی لڑائیوں کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

یہ تمام حالات اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہیں کہ اس وقت امریکا قطر کے حوالے سے جو بات بھی کہہ رہا ہے اس کے ظاہرہ اور باطنہ میں ضرور کوئی نہ کوئی راز پوشیدہ ہے جسے تمام عرب ممالک اور خاص طور سے سعودی عرب کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایسے موقعہ پر پیار محبت کی باتوں کا مطلب ایسا ہی ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ

مجھ تک کب اس کی بزم میں آیا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

امن اور اتحاد کی بات بے شک بہت اچھی ہی سہی لیکن اس وقت حالات کو سمجھنے اور امریکا کے پس پردہ مقاصد کو جان لینے کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ امریکا کے کہنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ وہ تمام عرب ممالک کے ساتھ دوریوں کی بجائے قربت کو فروغ دے اسی میں امت مسلمہ کا فائدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments