حکومت کی ٹرائی بال


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے ایک پاکستانی کی حیثیت سے راقم الحروف کو بھی اتنی ہی امید ہے جتنی کسی اور شخصیت کو کہ یہ جماعت ملک میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کا سبب بن جائے۔ کیوں کہ پاکستانی عوام بہت اپنا خون جلا چکے، بہت کڑھ چکے، اب یقینی طور پہ اُن کا حق تو بنتا ہے کہ ملک میں مثبت تبدیلی آئے۔ اور تحریک انصاف کی پوری انتخابی مہم اُٹھا کے دیکھ لیجیے، جو دعوے تھے وہ عوام کے دل کی آواز تھے۔ جو وعدے تھے وہ عوام کے مسائل کی ترجمانی کرتے ہوئے تھے۔ اور اس بات میں کوئی دو رائے تو ہو نہیں سکتیں کہ دعوے، وعدے، منصوبے تو ہوتے ہی عوام کے لیے ہیں۔ ان کا ثمر اگر عوام تک نہ پہنچے تو پھر یہ صرف بڑھکیں رہ جاتی ہیں۔

کرپشن تمام مسائل کی جڑ ہے، یہ کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف کا پوری انتخابی مہم کے دوران۔ اس سے بھلا انکار بھی کیسے ہو سکتا ہے کہ کرپشن کا ناسور اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔ عوام اسی ناسور کی وجہ سے دن بدن مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے، میرا اپنا بھی کوئی کرپشن میں ملوث ہوا تو کڑی سے کڑی سزا پائے گا، کچھ اس سے ملتے جلتے وعدوں نے عوام کو بھی اُمید دلا دی۔

جن کا اپنا کاروبار ہو وہ بھلا ملک کے لیے اچھا کیسے سوچ سکتے ہیں، کاروباری مفادات اور عوام کی خدمت دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ اس میں بھی شک تو ہے نہیں، اس پہ بھی عوام نے من و عن یقین نہ صرف کیا بلکہ امیدوں کے پہاڑ بھی قائم کر لیے کہ بھلا جو حکومت اور کاروبار کو الگ الگ دیکھتا ہے وہ ان کے لیے کیسے بہتر نہیں ہو سکتا۔

حنانِ اقتدار تک رسائی نہ صرف ممکن ہو پائی بلکہ گرفت بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔ عوام کی نگاہیں بھی دائیں بائیں وہ حاصل تلاش کرنے لگیں جس کو اُن کو امید دلائی گئی تھی۔ چند دن گزرے، سوال ہوا۔ جواب دیا، ماہ تو دیجیے۔ مہینہ گزرا، سوال ہوا۔ جواب دیا، ایک مہینہ بھلا کہاں کارکردگی دکھانے کے لیے کافی ہوتا ہے، تھوڑا وقت تو دیجیے، جس کا ہم نے اعلان کیا تھا، جو پلان بنایا تھا۔ عوام نے مزید چپ سادھ لی۔

سو روز گزر گئے، سوال ہوا، سو روزہ پلان کدھر ہے، جس کو نافذ کرنا تھا، اور تبدیلی لانی تھی۔ اب جو جوابات یہاں سے شروع ہوئے ان میں پرانی اور روایتی سیاست کے حربے آزمائے جانے لگے ہیں۔ پہلے چارہ ماہ تو عوام کو طفل تسلیاں دی جاتی رہیں کہ ہم سے بندھی اُمیدیں نہ توڑیے۔ لیکن چند ماہ بعد، بیاہ کے لائی گئی دلہن جیسے پر پرزے نکا لنا شروع کرتی ہے، ایسے ہی حکومت نے بھی اب پر پرزنے نکالنا شروع کر دیے ہیں۔ ہر مسئلے کا ملبہ پچھلی حکومت پہ ڈالنا شروع کر دیا گیا ہے۔

اورایک تاثر تقویت پانا شروع ہو چکا ہے کہ جیسے کھیل میں باقاعدہ کھیل شروع ہونے سے پہلے، خاص طور پہ کرکٹ میں، ٹرائی بال کرائی جاتی ہے، تا کہ کھیلنے والے کو تھوڑی پریکٹس کروائی جائے۔ ایسے ہی حکومت نے بھی انتخابی مہم میں ٹرائی بال سے کام چلایا، اور ابتدائی چند ماہ حکومت ملنے کے بعد بھی اُسی ٹرائی بال کے طور پہ اُمیدوں کو بڑھاوا دیتے رہے اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔ اب باقاعدہ کھیل شروع ہوا ہے اور ٹرائی بال بھی ہو چکی ہے۔ اب وہی پرانے سیاسی حربے آزمانے کا وقت بھی شروع ہوا چاہتا ہے۔

مشیر ہونے کا کیا فائدہ تھا بھلا اگر ایک منصوبہ بھی نہ مل پاتا، کیا حرج اگر مہمند ڈیم کا ٹھیکہ مل گیا۔ مفادات کا ٹکراؤ اس میں نہیں ہے، یہ تو بس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہے اور بس۔ کاروبار سے تعلق رہا یا نہیں، لیکن لازمی طور پہ کمپنی کا سربراہ فیملی ممبر ہی ہے نا، کہ نہیں؟ اور سینئر صوبائی وزیر کی ہاؤسنگ سوسائٹی جو اس سے پہلے ساکت و جامد تھی، ایک دم سے حکومت ملتے ہی اس میں بلڈورز پوری رفتار سے چلنا شروع ہو گئے ہیں، یہ مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں ہوا نا جی؟

وہ جنوبی پنجاب کے اتحاد سے بھی شوگر ملوں کا مالکان کو تو کوئی فائدہ ویسے نہیں ہوا ہو گا نا؟ اور یہ جو مخالفین پہ کڑی نگاہ سی ہے، اور اپنوں پہ مسکراہٹ سی ہے یہ بھی مفادات کا ٹکراؤ تو ہرگز نہیں ہے نا؟ ایک کو ہتھکڑی لگائے تو وہی ادارہ مثالی، اور وزیر اعظم کے خلاف صرف کیس ہی ہو بناء کسی کارروائی کے تو اُسے توہین قرار دیا جائے یہ بھی کوئی مسئلہ تو ویسے نہیں ہے نا؟ دعوے بے شک تھے کہ کرپشن برداشت نہیں، کرپٹ افراد برداشت نہیں لیکن پابند سلاسل شخص بھی آپ کو اِتنا گوڈوں پہ کر دے کہ اہم ترین کمیٹی کی سربراہی اسے دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو یہ بے اُصولی تو کسی صورت نہیں کہہ سکتے؟

صوبے میں بھی کمر کس رکھیے کہ وفاق جیسا ہی پارٹ ٹو ہونے والا ہے۔ اور آپس کی بات ہے، ریفرنس دائر کر کے، دوبارہ واپس لے لینا بھی معاملات طے ہو جانے کی نشانی تو نہیں ہے نا جی؟ چار ماہ ہی تو ہوئے ہیں، قانون سازی کا ایک قدم بھی نہیں اُٹھ سکا، آپس کی بات ہے اس میں بھی کوئی حرج تو نہیں ہے؟ عوام کی دہائیاں تو پہلے بھی نہیں سنتے تھے، آپ نے بھی کان بند کر لیے، بہتر ہی کیا ہے نا جی یہ بھی؟

وفاقی وزیر پٹرولیم جناب غلام سرور خان صاحب سے ایک نجی ٹی وی پہ ”بدتمیز“ اینکر نے پوچھ لیا کہ آپ کے پاس پٹرولیم کی وزارت ہے اور آپ کے بھی سی این جی اسٹیشن ہیں۔ جواب آیا کہ سی این جی اسٹیشن میرے پاس بیس سال سے ہیں۔ پھر سوال ہوا کہ وزارت تو اب ملی ہے نا۔ مفادات کا ٹکراؤ تو اب آیا ہے نا جی، کہ نہیں؟ سی این جی اسٹیشن والوں کو حکومت سے شکایت ہو، تو کیا آپ اس شکایت سے خود کوالگ سمجھیں گے؟ یا کیا ہے جی کہ جو وزارت ہے اس سے متعلقہ کاروبار ہونا ہی مفادات کو ٹکراؤ تو شاید اب شمار نہیں ہوتا نا جی؟ کیوں کہ وعدے، دعوے تو بس ٹرائی بال تھی۔ کہ جب عوام کو بس کھیل میں اتنا ہی شامل رکھا گیا کہ ٹرائی بال کھیل لیں، کہ جس کا نہ نفع نہ نقصان۔ اور اب باقاعدہ کھیل شروع ہو چکا ہے تو عوام کو کس نے شامل کرنا ہے۔ اب پرانا کھیل ہے، پرانے اُصول ہیں، پرانے ہی کھلاڑی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).