وینٹی لیٹر پر پڑے اردو ادب کو جنسی آکسیجن


اردو ادب میں رومان ہمشہ سے موجود رہا ہے اور اسے ادب کا حسن بھی تصور کیا جاتا رہا ہے چونکہ اب موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بدولت کتابوں اورادب سے ہم دور ہو چکے اور کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے، پہلے وقتوں میں جو لوگ کتابوں کا مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور شاعری کو ادب کی روح سمجھتے تھے وہ بھی آج کل ٹِک ٹَاک پر ویڈیوز بنا کر لونڈوں کی نقل کرتے نظر آتے ہیں، فیسبک اور ٹویٹر پر ہم اپنے دوستوں کی فضول تصاویر اور لغویات دیکھتے نہیں تھکتے۔

ٹیکنالوجی کے بعد آج کل آن لائن جرائد کا دور چل رہا ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ کتابوں سے دوری کے باوجود ہم لٹریچر اور ادب سے کسی نہ کسی صورت جُڑے ہیں لہذا مرتے ادب کو ٹیکنالوجی کے ذریعے بچانے کو ایک کوشش جاری ہے۔

اس دور میں جب کتابیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ادب بستر مرگ پر پڑا ہے تو چند انقلابی لوگوں نے آن لائن جرائد کا اجراح کیا جو تقریباً ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا مگر جلد ہی محسوس ہوا کہ غالب اور میر کی غزلیں نوجوان نسل کی سمجھ سے بالا تر ہیں ادبی افسانے ہماری سوچ نے نابلد ہیں اسی اثنا میں کچھ انقلاب پسندوں نے محسوس کیا کہ گوگل سرچ انجن پر سب سے زیادہ پورن سرچ کرنی والی قوم کے لئے جنسی ادب تحیلق کیا جائے۔

لہذا مہذب جنسی ادب سے تحاریر کا شروع ہونے والا سلسلہ آج اپنی جڑیں گاڑ چکا ہے کچھ روز قبل چند تحاریر نظر سے گزریں تو ایک صاحب نے محبوب کے پستانوں پر کالم لکھا اور پستانوں کے فضائل بیان کیے جبکہ ایک صاحب نے ہم جنس پرستی پر ننگا مضمون لکھ ڈالا بلا شعبہ دونوں لکھاریوں نے سچ لکھا مگر اندازِ بیان کنواروں کے لئے نہایت کٹھن ثابت ہوا جس کی وجہ سے حکیموں کا کاروبار چمکتا نظر آیا۔ اردو ادب میں محبوب کے حسن کی آنکھوں، ذولفوں اور چال کی تعریف تو سنی تھی مگر پستانوں کی واہیات تعریف پہلی دفعہ پڑھی، اس کے ساتھ ہی ایک صاحب نے نہایت دلچسپ تحریر لکھی جس پر توجہ دلائی گئی کے آج کل فیسبک پر ایسے پیجز ہیں جو مرتے ادب کو زندہ رکھنے کی خاطر جنسی کہانیاں پوسٹ کر کے ثوابِ دارین حاصل کرتے ہیں اور ان پیجیز پر روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ٹریفک بتا رہی ہے کہ آئندہ کا ہمارا لٹریچر اور ادب کیا ہو گا۔

جنسی کہانیوں میں محرم رشتوں کو فرضی کہانی کی صورت میں پامال کیا جاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ اب ہم اس اسے یہودیوں کی سازش کہہ کر جان چھڑا لیں تو ہماری نالائقی اور اگر سمجھ جائیں کے یہ ہمارے اپنوں کے دماغوں کے کیڑے ہی ہیں جو ان سے ویب سائیٹس کی ریٹنگ اور لائیکس کے چکر میں ان سے ایسے کام سرزد کرواتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).