نواز شریف اور زرداری سے ڈیل کرنے کے لئے حکومت پر کون دباؤ ڈال رہا ہے؟


وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی دباؤ کا اعلان کر دیا ہے۔ پچھلی دو حکومتیں خلائی مخلوق کے دباؤ کا تذکرہ کرتے کرتے اپنی مدت پوری کر گئی تھیں اور ان دونوں حکومتوں میں خلائی مخلوق کا دباؤ کم و بیش دو سال گزرنے کے بعد ظاہر ہرنا شروع ہوا تھا لیکن موجودہ حکومت کو تو ابھی اپنے اقتدار میں موجودگی کا بمشکل یقین آیا ہے اور اس نے دباؤ کے ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس کرنا شروع کر دیے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اپنے آبائی شہر جہلم میں یہ انکشاف کیا کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے معاملات طے کرنے کے لئے شدید دباؤ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر معاملات کو کچھ لے دے کر ہی طے کرنا ہوتا تو پھر عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا کیا فائدہ ہے؟ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جس دباؤ کی ”اطلاعات“ دی ہیں۔ یقیناً یہ ”دباؤ“ آئی جی اسلام آباد یا وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے حکومت پر نہیں آیا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے فوری طور پر معاملات طے کیے جائیں۔

فواد چودھری کے اس بیان کے بعد تجزیہ نگار اور ماہرین سیاست اس دباؤ کے ”ریکٹر سکیل“ کو تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ”معاملات طے“ کرنے کے لئے دباؤ ہمیشہ مقتدر قوتوں کا ہی ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں کسی اور میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ کمزور سے کمزور حکومت کو بھی دباؤ میں لا سکے۔

سیاسی دباؤ کا دوسرا ”ماخذ“ امریکہ اور سعودی عرب کو بھی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں یہ دونوں قوتیں پاکستان پر دباؤ ڈال کر ”مطلوبہ نتائج“ حاصل کر چکی ہیں۔ سعودی عرب اس وقت پاکستان کو امدادی پیکج بھی دے رہا ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے اپنی کمر بھی کس رہا ہے۔ اس لئے ان ”محبتوں“ کے بدلے عین ممکن ہے سعودی عرب وزیر اعظم عمران خان کو آہستہ آہستہ اپنی ”ضرورتوں“ سے آگاہ کر رہا ہو اور وفاقی وزیر اطلاعات نے سعودی عرب کی ہلکی پھلکی گفتگو سے ”دباؤ“ لینا شروع کر دیا ہو۔

کیونکہ عقلمند کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور حکومت کے ”عقلمند ترین“ اور جہانگیر ترین پسند ”وزراء میں فواد چودھری کا نام بھی شامل ہے۔ دباؤ کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک تیسری سوچ یہ ہے کہ حکومتی نا اہلیوں اور کمزوریوں سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت نے“ ازخود دباؤ ”لیتے ہوئے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ کیوں نہ دونوں پارٹیوں کی داغدار قیادت کو کلین چٹ دے کر آئندہ پانچ سال کے لئے سکھ کا سانس یقینی بنا لیا جائے۔

ایک طرف حکومتی کمزوریوں اور نالائقیوں نے اپوزیشن کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں اور دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان کی جائیداد کا معاملہ بھی حکومت کے ہی گلے میں فٹ ہوا پڑا ہے حالانکہ عمران خان کی اپنی بہن علیمہ خان سے شاید بول چال بھی نہیں ہے۔ اس وقت دونوں بہن بھائی نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔

عمران خان اگر وزیر اعظم نہ ہوتے تو کسی کو بھی علیمہ خان کی جائیدادوں اور اثاثوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ عمران خان کے وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے سارا دباؤ علیمہ خان پر آگیا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والے اور بہت لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح عمران خان پر دباؤ علیمہ خان کے کروڑ پتی ہونے کی وجہ سے آیا وگرنہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت اور پھر گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) نے ایک دن بھی علیمہ خان کے اثاثوں کی چھان بین کی خواہش بھی ظاہر نہیں کی تھی اور اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم کے تمام مسائل کا حل علیمہ خان کی گرفتاری میں ہے اور یا پھر علیمہ خان کی وجہ سے حکومت کے گر جانے میں ہے۔

اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں فواد چودھری اس کی وضاحت کر دیں کہ دباؤ کس طرف سے آ رہا ہے اور کس طرف جا رہا ہے؟ اگر بغور دیکھا جائے تو اس وقت پورا ملک ”حالت دباؤ“ میں ہے۔ اپوزیشن پر بیک وقت نیب اور ایف آئی اے کا دباؤ ہے جبکہ حکومت کے وزراء پر کارکردگی دکھانے کا شدید دباؤ ہے۔ وزیر اعظم پر وزراء کی ”کھچوں“ اور ناقص کارکردگی کا دباؤ ہے اور عدالتوں پر زیر التواء مقدمات کا دباؤ ہے اسی طرح ملک بھر کے قبضہ گروپوں اور مافیاز پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا دباؤ ہے جبکہ وکلاء پر مقدمات جلد نمٹانے کے لئے مدعیوں کا دباؤ ہے اور مدعیوں پر انصاف نہ ملنے کا دباؤ ہے۔ عوام پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ڈالر کی اونچی اڑان کا دباؤ ہے جبکہ بقول فواد چودھری کے حکومت پر اپوزیشن سے ڈیل کرنے کا دباؤ ہے ہر طرف دباؤ ہی دباؤ ہے۔ اللہ ہی خیر کرے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat