بے لاگ احتساب کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے!


جوں جوں وقت گزرتا جارہاہے، نئے پاکستان کے دعویداروں کا اصل چہرہ سامنے آتا جارہاہے۔ جناب وزیراعظم، وزرا، حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عامتہ الناس پر بھی یہ تلخ حقیقت کھلتی جارہی ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا ناممکن کام ہے۔ نئے پاکستان والوں کے ہاتھ ان خوابوں کی کرچیوں سے آئے دن بری طرح زخمی ہو رہے ہیں جو وہ الیکشن سے قبل سادہ لوح اور جذباتی لوگوں کو دکھاتے رہے ہیں۔ حکومت کے ساتھ عوام پر بھی کھلتا جارہاہے کہ سیاسی وعدے اور دعوے نبھانے کے لیے نہیں سبز باغ دکھانے کے لیے ہوتے ہیں۔

اشیائے ضروریہ کے نرخ آسمان ہر پہنچ چکے ہیں۔ پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہیں۔ گذشتہ تین سال کے دوران پہلی مرتبہ گیس کے علاوہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شہری پریشان ہیں۔ روپے کی قیمت کم کرنے کے باوجود درآمدات میں کمی کا رجحان جاری ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضہ جات میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ پانچ ماہ کی مدت کے اندر دوسرا منی بجٹ مفلوک الحال عوام پر تازیانہ بن کر برس رہا ہے۔

یوں تو نئی حکومت کی ہر ادا نرالی اور نخرے والی ہے مگر عمران خان کا جو نعرہ سب سے بری طرح پٹ رہا ہے وہ احتساب کا نعرہ ہے۔ پرانے پاکستان میں احتساب کے اصول اور معیارات کچھ اور تھے جبکہ نئے پاکستان میں وہی اصول اور معیارات کچھ کے کچھ ہو گئے ہیں۔ اور تو اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی واضح طور پر تفاوت نظر آرہاہے۔ کچھ دن سے یک دم وزیراعظم کے خاندان کے افراد کی کرپشن اور وزرا کی لاقانونیت کے قصے زبان زدِ عام ہورہے ہیں۔

کچھ تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے اتفاق نہ بھی کیا جائے کہ ان کہانیوں کے پس پردہ بھی وہی قوتیں کارفرما ہیں جو اس سے پہلے پانامہ اور اومنی گروپ کے جعلی اکاؤنٹس کا ہوّا کھڑا کرکے ملک کی دو بڑی پارٹیوں کی اعٰلی قیادت کو بدنام کرکے عدلیہ کے ذریعے سیاست سے باہر کر چکی ہیں، پھر بھی کوئی ذی ہوش اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں ایسا واقعہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا کہ جب سپہ سالار نے کسی حکومت کی بقا اور استحکام کی خاطر ملک کی تاجر برداری کو بھرپور سرمایہ کاری کے ذریعے ”مثبت“ کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہو۔

تاہم دوسری طرف کچھ واقفان حال اس بات پر بھی مصر ہیں کہ بادشاہ گر نئے پاکستان کے بانیوں سے جلد ہی دل شکستہ ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت کے پے در پے سکینڈلز سامنے آرہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف ا ایون فیلڈ کیس میں بھی نیب بری طرح پٹ گئی ہے جس میں اس نے نواز شریف کی مذکورہ کیس میں ضمانت معطلی کی استدعاکی تھی۔ ادھر مولانا صاحب بھی اپوزیشن کو موجودہ حکومت کے خلاف متحد کرنے میں بہت پرامید ہیں۔

ن لیگ جو چپ کا روزہ رکھ کر کسی ممکنہ بڑے ریلیف کی منتظر تھی وہ بھی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے مایوسی کی دلدل سے نکلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن اگر اداروں اور حکومت کے احتساب کے یک طرفہ نظام کو ہدف بنا کر میدان کارزار میں اترتی ہے تو وہ بڑے آرام سے احتساب کے اداروں اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لے سکتی ہے مگر ابھی اپوزیشن جانے کون سی دیدہ و نادیدہ مجبوریوں کا شکار ہے کہ دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں بات کرنے سے احتراز کررہی ہے۔

ہمیں سب یادہے کہ جو کپتان سب سے پہلے وزیراعظم کے احتساب کو جمہوری تقاضوں کی معراج سمجھتے تھے ان کے درباری آج ہیلی کاپٹر کیس میں طلبی کو وزیراعظم کی توہین قرار دے رہے ہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے سرکاری ٹھیکے لینا کل تک مفادات کا ٹکراؤ تھا مگر آج وزیر تجارت کی کمپنی کو ڈیم کا ٹھیکہ دینا جائز ہے۔ کل اگر بطور وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کا احتساب عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تھا تو نئے پاکستان کے بانی کی بہن کی بیرون ملک کروڑوں ڈالرز کی جائیدادوں کی چھان پھٹک اپوزیشن کا پروپگنڈہ ہے۔

قوم تو اس انتِظارمیں ہے کہ عدالتِ عالیہ اور جناب چیف جسٹس مریم نواز، شہباز شریف اور مراد علی شاہ، علیمہ خان، حمزہ شہباز اور بلاول بھٹو کے احتساب میں مماثلت اور یک رنگی پیدا کرتے ہوئے علیمہ خان کے خلاف از خود نوٹس لے کر پانامہ کی طرز پر جے آئی ٹی بنائیں گے اور نیب پر سپریم کورٹ کے کسی جج کو مقرر کرکے محدود وقت میں مقدمے کے فیصلے کا حکم صادر کریں گے مگر بدقسمتی سے عوام احتساب کو انتقام بنتے، عدل کو جور بنتے اور انصاف کو ظلم میں ڈھلتے ہوئے دیکھ کر کف افسوس مل رہے ہیں۔

قوم یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں نہ ہونے کے باوجود انہیں رات کو انٹرنیشنل فلائٹ سے رسواکن انداز سے اتار دیا جاتا ہے مگر دوسری طرف حکومتی وزیر لیاقت جتوئی ای سی ایل میں نام شامل ہونے کے باوجود بیرون ملک اڑان بھر دیتے ہیں۔ قوم اس سے پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے دوہری شہریت کے کیسوں کے حوالے سے ن لیگ کے شجاعت عظیم اور پی ٹی آئی کے زلفی بخاری کے معاملے میں دوہرے انصاف کی غیرمنطقی مثالیں بھی دیکھ چکی ہے۔ یہ تو نئے پاکستان میں ہونے والے احتساب نما انتقام کی چند بدترین مثالیں ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت احتساب صرف ن لیگ ہو رہا ہے۔ اس یک طرفہ احتساب نے موجودہ حکومت، نیب، سپریم کورٹ اور مقتدر اداروں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).