کیا سکرپٹ بدل رہا ہے؟


کہانی الجھتی جا رہی ہے، محبت بھی ضرورت بن جائے تو بوجھ محسوس ہوتی ہے، اُلفت مجبوری بن جائے تو اُس سے بھی جان چھڑانا پڑ جاتی ہے۔۔۔ کہانی الجھتی جا رہی ہے۔ پہلی بار شاید نکتہ دانوں کے ہاتھ نکتہ دستیاب ہے نا تجزیہ کاروں کے ہاتھ کوئی سرا۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ وہ سب جو ایک عرصے سے عوام کو سمجھاتے تھے کہ تبدیلی آئے گی تو سب بدل جائے گا، اشاریے بدل جائیں گے، اعداد قابو میں آئیں گے، ریاست مدینہ کا خواب تکمیل پائے گا، انصاف ہی انصاف ہو گا، کسی کے آگے کشکول نہیں پھیلایا جائے گا، ڈالر خوار ہو جائے گا، دو سو ارب ڈالر اگلے ہی دن لینڈ ہو جائیں گے اور سب سے بڑھ کر کوئی این آر او نہیں ہو گا۔

کوئی بتا ہی دیتا کہ جس نہج پر معیشت کھڑی ہے ایک نہیں کئی کئی ملکوں کے سامنے کشکول اُٹھانا پڑے گا۔ کاش کوئی بتا ہی دیتا کہ معیشت کو چلانے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔

کیا یہ سب صرف اسد عمر کو بتانا تھا یا وزیراعظم کو بھی کچھ کرنا تھا۔۔ آخر کپتان تو وہ ہی ہیں۔۔۔ اُس ٹیم کے جو بانوے کا ورلڈ کپ جیتی تھی۔

تبدیلی کے خواب کو عوام تک پہنچانے والے زیرک تجزیہ نگار تک مایوس ہو چکے ہیں کہ نااہلیت کا مقابلہ کیسے ہو؟ مجھ جیسے لوگ تو لکھ ہی رہے تھے اور سوشل میڈیا کی مخالف مہم کا مقابلہ بھی کر رہے تھے مگر اب تبدیلی والے بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔

کیا سکرپٹ بدل گیا ہے، اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں یہ بحث اس یقین کے ساتھ ہو رہی ہے جیسے ن لیگی حکومت کے آخری دنوں میں عدالت کے فیصلے سے پہلے ہو رہی تھی۔ یہ وہ ملک ہے جہاں خاموشی کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے اب یہ معلوم کرنا ہے کہ خاموشی کا پیمانہ کیا ہے؟

انتخابات سے قبل لاکھ حربے استعمال کیے گئے۔ جوڑ توڑ، دھونس دھاندلی، حلقہ ہلکا۔۔۔ سب کیا گیا۔ مگر تبدیلی اُتنی ہی ہاتھ آئی جتنی آنی تھی۔ پارلیمنٹ کے اعداد سے لے کر سندھ میں پی پی حکومت تک سب کچھ ہاتھ ہوتے ہوئے مقتدروں کے ہاتھ بس یہ کچھ ہی آیا۔

نامکمل اور ادھورے منصوبوں نے کیا انقلاب برپا کرنا تھا، ادھ کھلی آنکھوں نے کیا خواب دیکھنا تھے؟ بہرحال اب کیا کریں یہ سوال اہم ہے، جیسا تیسا احتساب بھی ہو گیا، ایک رہنما جیل چلا گیا، دوسرے کو بھجوانے کی خواہش ہے پھر کیا ہو گا؟ اس سے آگے مقتدروں نے کیا سوچا ہے؟

ایک فرضی شکل تو یہ ہے کہ حکومت کی خواہش کے مطابق سب کو بند کر دیا جائے، پھر کیا ہوگا؟ جن کو ادراک ہونا تھا وہ اب شاید سمجھ رہے ہیں جب عوام کا دباؤ محسوس ہو رہا ہے اور ضمنی بجٹ کے بعد شاید زیادہ ہو گا۔

سپریم کورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت برقرار رکھی ہے اور دوسری جانب ن لیگ فوجی عدالتوں کی ممکنہ طور پر ایک سال کی توسیع کو تیار ہے۔ شہباز شریف کے خلاف تاحال کوئی ریفرنس دائر نہیں ہو سکا۔ اگر شہباز کو پرواز مل گئی تو حالات بجٹ سے پہلے یا بجٹ کے فوری بعد بدل سکتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے جس کا جو کام ہے وہی کرے۔ حکومت کو ہی حکومت کرنے دی جائے چاہے جیسی بھی ہو اور حکومت پارلیمنٹ میں سب کو اعتماد میں لے اور ایک معاشی ایجنڈے پر اتفاق کیا جائے۔ پارلیمنٹ کو فیصلہ ساز بنایا جائے۔

کپتان کی کامیابی میں ہی نظام کی کامیابی ہے شاید یہ بات سمجھ میں آجائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).