بلوچستان کے سینٹ الیکشن میں نظریاتی ورکر ہار گیا


روز شام کو ایک نوجوان اپنے دیگر تین چار دوستوں کے ہمراہ ہمارے دفتر آن پہنچتا۔ بڑے سلیقے اور مہذب انداز میں سلام دعا کے بعد اپنی جماعت کی پریس ریلیز ہمیں تھما دیتا۔ ساتھ میں اسے اچھی کوریج کی استدعا بھی کر لینے کے بعد کھڑے کھڑے واپس پلٹ جاتا۔ ایک ٹانگ میں نقص ہونے کی و جہ سے اس کے چلنے پھرنے میں ذرا سی معذوری کا گمان بھی ہوتا ہے۔ روز دفتر آ جانے کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس نوجوان سے شنا سائی ہوتی گئی۔ معلوم ہوا کہ اس نوجوان کا نام غلام نبی مری ہے۔ یہ نوجوان بلوچستان نیشنل پارٹی کا نظریاتی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ سردار اختر مینگل کے ہراوّل دستے کا سپاہی ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہم روزنامہ انتخاب میں بطور سب ایڈیٹر کام کیا کرتے تھے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے لئے 2006 سے 2013 تک کا سفر بعد بڑا کٹھن سفر رہا۔ بی این پی نے مشرف کی ریشہ دوانیوں کے خلاف لشکر بلوچستان کے نام سے عوامی تحریک شروع کردی تھی۔ کوئٹہ میں جلسہ عام میں اعلان ہوا کہ لشکر بلوچستان کوئٹہ سے گوادر تک لانگ مارچ کرے گا۔ لانگ مارچ کے اعلان کے بعد بی این پی کے خلاف مشرف نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ سردار اختر مینگل کو لسبیلہ سے گرفتار کیا گیا۔ انہیں پنجرے میں بند کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ اختر مینگل کی گرفتاری کے بعد تمام ذمہ داریاں پارٹی کے سیکنڈ کمانڈ جنرل سیکرٹری حبیب جالب کے کا ندھوں پر آن پڑیں تھی۔ حبیب جالب کی قیادت میں بی این پی نے بلوچستان بھر میں احتجاج کی کال دی تھی۔ کوئٹہ پریس کلب بی این پی کے احتجاج کا محور ہوا کرتا تھا، غلام نبی مری ہمیشہ حبیب جالب کے شانہ بشانہ ہوتے، وہ روزانہ ہمیں صبح کے وقت پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے اور شام کو اخبار وں کے دفاتر کی یاترا کرتے دکھائی دیتے تھے۔

حبیب جالب کو 14 جولائی 2010 کے دن ایک ریلی کی قیادت کرتے ہو ئے نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ حبیب جالب کی شہادت کے بعد بی این پی کے کارکنوں میں شدید قسم کا خوف پھیل گیا تھا لیکن غلام نبی مری نے وحشیانہ ماحول میں بھی بی این پی کا علم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ لیڈر شپ کی طویل جلاوطنی اور کٹھن دور میں یہ مرد آہن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے چند نظریاتی ساتھیوں کے ہمراہ حبیب جالب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے احتجاج میں صف اوّل میں کھڑے نظر آتے تھے۔ ایک دن راہ چلتے راقم نے غلام نبی مری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، سنگت ذرا دھیان رکھیں، مخدوش حالات ہیں، احتیاط لازم ہے۔ جواب دیا مجھے معلوم ہے۔ ایک دن سریاب روڈ سے پریس کلب آتے ہوئے مجھے بھی کوئی گولی مار کر چلا جائے گا۔ میں ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہوں۔ پارٹی سے نظریاتی کمنٹمنٹ پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ یقین جانیں، تب سے آج تک اس بندے کے لئے میرے دل میں ایک خاص مقام بن گیا ہے۔

بلوچستان میں سینٹ کی ایک خالی نشست پر الیکشن ہونے جارہے تھے۔ جب سنا کہ بی این پی نے غلام نبی مری کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے تو دل باغ باغ ہوا۔ سچ پوچھیں تو میرا ذاتی خیال تھا کہ بی این پی کسی میر، وڈیرہ کو ٹکٹ دیگی لیکن میری سوچ کے بر عکس غلام نبی مری کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ ٹکٹ ملنے کا سن کر غلام نبی مری کی پرانی یادوں کی فلم نظروں میں گھومنے لگی۔

14 جنوری 2019 کو سینٹ کے الیکشن ہوگئے نتائج میں غلام نبی مری 23 ووٹ لے کر اپنے مد مقابل سے ہار گئے ہیں، اب ذرا فرق ملاحظہ کریں غلام نبی مری کے مقابلے میں 38 ووٹ لے کر جیتنے والا لینڈ لارڈ وہ شخص ہیں جس نے اپنی جماعت پر شب خون مار کر راتوں رات وفاداری بدلی تھی، سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچستان موسمی گدھوں کی بھر مار ہی سہی لیکن غلام نبی مری جیسے نظریات پر کمنٹ رکھنے والے درویش صفت کارکن بھی موجود ہیں۔

آپ سردار اختر مینگل سے ہزار اختلاف رکھیں، اختلاف رکھنا آپ کا پیدائشی حق تصور ہوگا لیکن وہ اپنے دوستوں کا دوست بھی ہے۔ کٹھن دور میں ساتھ دینے والوں کو شرف دینا جانتے ہیں، آغا حسن اور غلام نبی مری کی مثالیں سامنے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).