بقاکا مسئلہ


جامعہ ملیہ کالج، ملیر۔

آج میں آپ لوگوں کو ارتقاء کا نظریہ اور ڈارون کے خیالات کے بارے میں پڑھاؤں گا مگر پڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ صرف نظریہ ہے اور نظریے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی آدمی کوئی بھی نظریہ دے سکتا ہے۔ اسی طرح سے ارتقاء کا نظریہ ہے۔ اگر ڈارون کے خیالات یہ ہیں کہ صرف وہی زندہ رہ سکتا ہے جو سروائیو کرسکتا ہے۔ جو سب سے زیادہ فٹ ہے، جو زمانے کے ساتھ حالات کے ساتھ بدل سکتا ہے۔ تو یہ اس کا نظریہ ہے جو کہ غلط ہے۔

اس لیے غلط ہے کہ انسان اسی طرح سے بنایا گیا ہے اس دنیا میں اعلیٰ ترین ہے اور اس دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ہے۔ جانوروں کے اصول انسان پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ میں آپ لوگوں کو یہ سب کچھ اس لیے پڑھا رہا ہوں کہ یہ نظریہ امتحان کے لحاظ سے اہم ہے۔ پچھلے تین سالوں سے امتحان میں اس بارے میں سوال نہیں آیا ہے۔ لگتا ہے کہ اس سال یہ سوال ضرور آئے گا لہٰذا اگر امتحان میں یہ سوال آجائے تو اس کا جواب بھی لکھنا ہے اور وہی لکھنا ہے جو کتاب میں لکھا ہے تاکہ آپ لوگوں کی ڈویژن خراب نہ ہو اور آسانی سے داخلہ میڈیکل کالج میں ہوسکے۔

اس نظریے پر یا اس طرح کے نظریوں پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم لوگ بندر کی اولاد نہیں ہیں ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ حالات کیسے بھی ہوں گے ہم سروائیو کریں گے کیونکہ دنیا ہمارے لیے بنائی گئی ہے دنیا کی وجہ سے ہم نہیں بنے ہیں۔ دنیا ہماری وجہ سے بنی ہے۔ تو میں آپ کوبتاتا ہوں کہ دراصل ارتقا کے نظریے کو ڈارون کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت مل گئی کیونکہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وائٹ ہاؤس، واشنگٹن

صدر امریکہ نے بہت مخصوص لوگوں کی بہت ہی اہم اور بالکل خفیہ میٹنگ بلائی تھی، زندگی اورکائنات سے متعلق ملک کے قابل ترین ماہرین اور سائنسدانوں کی میٹنگ تھی اورساتھ ہی قومی سلامتی کونسل کے ارکان، فوج اور کچھ مخصوص سیاست دانوں کو بلایا گیا تھا۔ کانفرنس روم میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور جوزف وائتھ کی پریزنٹیشن کے بعد سبھوں نے اپنی ریڑھ کی ہڈیوں میں ٹھنڈ سی محسوس کی تھی۔ جوزف نے صاف صاف بتادیا تھا کہ تین سال آٹھ مہینہ اور چھ دن کے بعد تین سو میل لمبا ایک سو اٹھارہ میل چوڑا اور تقریباً ایک میل کی اونچائی لیے ہوئے کسی بہت بڑے ستارے کا ٹکڑا اٹھارہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ٹکرا جائے گا۔

مصیبت یہ ہے کہ اس ٹکڑے سے تقریباً ایک سو، دو سو اور دو سو پچاس میل کے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے اٹھتّر ٹکڑے اور ہیں جن میں سب سے چھوٹا اکتیس میل لمبا اور دو میل چوڑا ہے اور سب سے بڑا باون میل لمبا اور ایک میل چوڑا ہے۔ بڑا ٹکڑا بحرالکاہل میں امریکہ سے تقریباً دو ہزار میل کے فاصلے پر گرے گا مگر بقیہ ٹکڑے بڑے ٹکڑے سے پہلے اور بعد میں زمین کے مختلف حصوں پر گرتے رہیں گے۔ ہوا یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں سال پہلے کائنات کے بہت اندر، بہت ہی اندر شاید کوئی اور بگ بینگ ہوا ہے۔

ستارے سیارے بنے ہیں دنیاؤں کا وجود عمل میں آیا ہوگا، تخلیق کا گورکھ دھندا شروع ہوا ہوگا اور اس توڑ پھوڑ میں بہت سارے آسمانی ٹکڑے مختلف رفتار سے مختلف سمتوں میں دائیں بائیں، اوپر نیچے، آگے پیچھے ہر طرف روانہ ہوگئے ہیں اور یہ ٹکڑے زمین کی طرف آرہے ہیں۔ ایسے کوئی بھی امکانات نظر نہیں آتے ہیں کہ یہ اپنا راستہ بدل لیں گے۔

اسے روکا نہیں جاسکتا ہے اگر کل ہی کئی ہائیڈروجن بموں سے بھرے ہوئے راکٹ اس کی طرف روانہ بھی کیے جائیں تو ان کو وہاں بھیجنے میں تقریباً دو سال لگ جائیں گے اور ان بموں کے دھماکوں سے بڑے ٹکڑے کے مزید شاید کچھ ٹکڑے ہوجائیں گے مگر ان تمام ٹکڑوں کا رُخ زمین سے کسی اور طرف ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ہم لوگوں نے ہر طرح کے ماڈل بنا کر ہر طرح کے ممکنات اور ناممکنات کے بارے میں سوچا ہے مگر اس کے علاوہ کچھ اور سمجھ میں نہیں آتا ہے جو میں آپ لوگوں کو بتارہا ہوں۔

زمین پر کیا ہوگا مختصراً یہ کہہ دیتا ہوں کہ زمین پر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ زمین اپنے محور سے ہلے گی نہیں۔ ٹکرانے سے پہلے، ہمارے سارے مواصلاتی نظام ختم ہوجائیں گے۔ سمندر کی اتنی بڑی لہریں اُٹھیں گی کہ ساری خشکی پانی میں ڈوب جائے گی۔ اس سے پہلے گرد مٹّی کی زبردست آندھی ہماری پوری فضا میں چھاجائے گی۔ فوری طور پر سورج کی روشنی سے ہم لوگ محروم ہوجائیں گے اور چند ہی گھنٹوں میں ساری دنیا پر برف کی موٹی تہہ جم جائے گی۔

زندگی ارتقائی شکل میں ختم ہوجائے گی۔ بیکٹریا، وائرس بھی برف بن کر رہ جائیں گے۔ کمپیوٹر ماڈل سے یہ پتہ لگتا ہے کہ شاید تقریباً اٹھارہ سال کے بعد گرد اورمٹی کی تہوں سے ہوتی ہوئی سورج کی پہلی کرن زمین پر کہیں پہنچے گی اور پھر آہستہ سے برف پگھلنے کا آغاز ہوجائے گا۔ شاید اس سے اگلے دس سے تیس سالوں کے درمیان زمین کا ایک حصہ اس قابل ہوجائے کہ انسان دوبارہ یہاں پر رہ سکے۔

کیا کیا جاسکتا ہے؟ صدر امریکہ نے سوال کیا تھا۔

اگر سارے ریسورسز اس مسئلے کے اوپر لگادیے جائیں تو شاید ہوسکتا ہے کہ ایک ماسٹر پلان کے تحت پچاس دن کے اندر اندر زمین سے روز خلائی جہاز تھوڑے تھوڑے چنیدہ انسانوں کو، مختلف چنیدہ جانوروں کو، کچھ درختوں جھاڑیوں کے بیج، کچھ سبزیوں، پھل اور پھلوں کے بیج، سبزیاں، پودے اور انڈے دینے والے پرندوں اور حیوانات کے انڈوں کو یہاں سے روانہ کیا جائے۔ زمین سے تین مہینے کے فاصلے پر ایک ستارہ جس کا نام سروائے ول رکھا گیا ہے جس کی کوئی فضا نہیں ہے وہاں پر جا کر رہنے کے امکانات پیدا کیے جائیں اور اگلی نسل کو واپس زمین پر بھیجنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اس کا ایک پروگرام ہم لوگوں نے مرتب کرلیا ہے اور آپ کی منظوری کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

” دنیا میں کتنی حکومتوں کو پتہ ہے کہ یہ حادثہ ہونے والا ہے؟ “ صدر امریکہ نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے پوچھا تھا۔

”اس کا کوئی اندازہ تو نہیں ہے لیکن کچھ غیر معمولی سرگرمیاں روس اورجاپان میں نوٹ کی گئی ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ جلد ہی چین اور دوسرے یورپین ممالک کو پتہ لگ جائے گا کیونکہ ان کے پاس اس قسم کے ادارے ہیں جو پروب کرتے ہیں۔ ہم لوگوں نے نظر رکھی ہوئی ہے۔ کوئی بھی تبدیلی ہوگی تو فوراً ہی وائٹ ہاؤس کو پتہ لگ جائے گا۔ “

”مجھے فوراً روس، چائنا، جاپان، انگلینڈ، فرانس، جرمنی سے بات کرنی ہوگی۔ “ صدر امریکہ نے بات شروع کی۔ ”اور اگر معاملہ اتنا سنگین ہے تو تمام تر خطروں کے باوجود جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے وہ کیا جانا چاہیے بغیر کسی تاخیر کے۔ آپ لوگ ماسٹر پلان بنانا شروع کریں اور دیکھیں اور دوسرے ممالک کس طرح سے کام آسکتے ہیں یہ انسانوں ہی کی نہیں زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ “

صدر امریکہ نے سینیٹ اور کانگریس میں مخالف ارکان کے چیدہ چیدہ لیڈروں کو بلایا ہوا تھا۔ آج انہیں بھی اعتماد میں لے کر ایک پلان بنایا جانا تھا کہ کس طرح سے بقاء کے اس پروجیکٹ کو اور بہتر بنایا جائے۔ وائٹ ہاؤس میں ہر باخبر آدمی کی نیند اُڑچکی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4