تیرا کیا بنے گا خوبصورتیا


کل کی بات لگتی ہے، 2008 کے انتخابات ہوئے، ملک میں جمہوریت بحالی کا جشن تھا، پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی سے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا اور سینہ تان کر داد طلب انداز میں کیمروں اور حاضرین سے مخاطب ہوئے، خواتین و حضرات دیکھ لیں میں نے وعدہ پورا کردیا جمہوریت بحال ہو چکی۔ جب انہوں نے یہ الفاظ کہے تو میں سوچتا رہ گیا کہ اس جمہوریت کا وعدہ انہوں نے کس سے اور کب کیا تھا۔ فوج میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے، آرمی چیف بنتے ہوئے یا چیف ایگزیکٹو بنتے ہوئے، ان کا تو سارا عرصہ جمہوریت کا مذاق اڑاتے گزرا تھا وہ سوال اٹھایا کرتے تھے کہ کیا یہ قوم اتنی بانجھ ہو چکی ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ کوئی اور لیڈر پیدا نہیں کر سکتی۔

یقین دلاتے تھے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی آئندہ کبھی باری نہیں آئے گی۔ سب کو معلوم تھا کہ چوہدری افتخار کی تحریک کے بعد بے نظیر بھٹو کا قتل پرویز مشرف کو اس حد تک کھوکھلا کر چکا ہے کہ اب فوج بھی دامن بچانے میں لگی تھی۔ پرویز مشرف نے مسلح افواج کے اپنے ہی لگائے نئے چیف اشفاق پرویز کیانی کے گلے شکوے بہت جلد شروع کر دیے تھے۔ بہرحال بطور صدر ان کے استعفی سے سمجھ آیا کہ وہ جنرل کیانی سے خفا کیوں تھے۔

میں سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہا کہ نواز شریف نے پہلے جنرل راحیل شریف اور بعد میں جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنا کر انہیں اپنا آدمی سمجھا ہی کیوں جو بعد میں شکوے شروع ہوئے، انہیں یاد نہیں رہا کہ جنرل پرویز مشرف جس کی ساری زندگی فوج میں گزری، بطور آرمی چیف اس نے جہاز میں بیٹھے پورا ملک قبضے میں لے لیا، جب وہ اپنے لگائے آرمی چیف جنرل کیانی سے خوش نہ ہو سکا تو میاں صاحب کس کھیت کی مولی تھے۔ آرمی چیف صرف آرمی چیف ہوتا ہے اور بس۔

پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومت بنائی اور مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں۔ اب دور شروع ہوا، میڈیا پہ ہر روز حکومت گرانے کا۔ اینکرز میں دوڑ لگی کہ صدر آصف زرداری کو جیل پہلے کون پہنچاتا ہے، کبھی بتایا جاتا کہ ایمبولنس تیار ہے کبھی یہ کہ آئندہ ہیر کے روز ایک نئی حکومت کے ساتھ ملیں گے وغیرہ۔ اس سارے دور میں بات یہاں تک پہنچی کہ نواز شریف مسلم لیگ کے کنونشن سے الحمرا میں خطاب کر رہے ہیں، ورکر نعرے مار رہے ہیں ”گو زرداری گو“ اور نعرے خود شہباز شریف لگوا رہے ہیں۔

نواز شریف کی پالیسی ہمیشہ کی طرح گو مگو کی رہی۔ ایک طرف وہ کالا کوٹ پہن کر یوسف رضا گیلانی کے خلاف گواہی دینے سپریم کورٹ پیش ہو گئے دوسری جانب زرداری کے خلاف سڑکوں پر کسی تحریک کی مخالفت بھی کرتے رہے۔ آج گئی کہ کل گئی حکومت نے روتے دھوتے وقت پورا کیا، حال یہ تھا کہ رات کو صدر زرداری بیڈ روم میں انواع و اقسام کے اسلحے کے ساتھ سوتے، بکروں کا صدقہ دیا جاتا اور کبھی پیر کی کہنے پر سمندر کے پاس، کراچی یا دبئی میں وقت گزارتے کبھی پہاڑوں کے پاس ایوان صدر میں۔

روتے دھوتے اس دور میں اسامہ بن لادن کی پاکستان کی سر زمین پر امریکی حملے سے موت، خود سول حکومت کے لئے ہلاکت انگیز معاملہ بن گیا، منصور اعجاز نامی ایک کردار نمودار ہوا، حسین حقانی اس کی نظر ہوئے، ایبٹ باد کمشن بنا جس کے چئیرمن موجودہ چیئرمین نیب جناب جسٹس جاوید اقبال ہی تھے۔ اس دور کے بارے میں جنرل کیانی کے دوست ہارون رشید لکھ چکے کہ کس طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل پاشا انہیں ملنے ایوان صدر جاتے اور کیسے صدر زرداری بول بول کر تھک جاتے مگر وہ کوئی سنجیدہ جواب دیے بغیر واپس چلے جاتے، یہ واقعہ مذاق اڑانے کی غرض بتایا جاتا کہ ہاہاہاہا دیکھو اس صدر کی اوقات۔

اس کے بعد آتے ہیں جناب نواز شریف، شاید کچھ لوگ اتفاق کریں کہ 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی لہر میں بہت قوت تھی۔ اتنی کہ بڑے بڑے سیاسی پنڈت پی ٹی آئی کی حکومت بننے کی پیش گوئی کر رہے تھے کہ جنرل حمید گل جو ابھی حیات تھے، نے ایک ٹی وی انٹرویو میں نواز شریف کی حکومت بننے کی اطلاع دی اور وجہ بھی بتا دی کہ طاقتور حلقوں میں بات طے ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ جنرل کیانی کے دور میں ہی نجم سیٹھی کی چڑیا بتا چکی تھی کہ کیانی ڈاکٹرائن کیا ہے۔

یعنی سول حکومت کو ڈرا کر رکھو اور کام کرواؤ، براہ راست سامنے آ کر حکومت سنبھالنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک خبر آپ کو بتاتا چلوں کہ بقول آصف زرداری، جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ سے قبل یہ ایک امریکی عہدیدار تھا جس نے صدر زرداری سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جنرل کیانی کو ایک سال کی ایکسٹینشن دے دی جائے اور انہوں نے اسے جی ایچ کیو کی خواہش سے تعبیر کرتے ہوئے ایک نہیں بلکہ تین سال کی ایکسٹینشن اس امید پر دی کہ اب جنرل کیانی ان سے خوش رہیں گے اور تین سال زرداری آرام سے حکومت کریں گے، مگر ان کی یہ امید ایکسٹینشن دینے کے بعد جنرل کیانی سے پہلی ملاقات میں اس وقت ہی دور ہو گئی جب جنرل کیانی نے صدر زرداری کا سرسری شکریہ کرنے پر اکتفا کیا اور معمول کی گفتگو پر آ گئے۔

بہرحال واپس آتے ہیں، اب نواز شریف کا دور شروع ہوا، چند مہینے ہی گزرے تھے کہ اسلام آباد میریٹ ہوٹل، جسے اب سوٹڈبوٹڈ لنڈا بازار کہنا زیادہ مناسب ہو گا، کی لابی میں نواز حکومت کو گالیاں پڑنی شروع ہو گئیں۔ جن حساس اداروں کے افسر کچھ لگی لپٹی کے ساتھ بولا کرتے تھے وہ بغیر لگی لپٹی سیدھی گالیاں نواز حکومت کو دیتے اور رسمی طور پر بھی آف دی ریکارڈ کہنا چھوڑ گئے۔ یہ نواز حکومت کے آغاز کی بات ہے آخری دور کی نہیں البتہ ایک بنیادی فرق جنرل کیانی کی دوبارہ ریٹائرمنٹ کے موقع پر یہ تھا کہ وہ چھ سال گزار چکے تھے اور نواز شریف ان کی منت کر سکتے تھے کہ وہ مزید کچھ کرنے سے اس لئے قاصر ہیں کہ فوج میں دوسرے جنرل حضرات بھی بیٹھے ہیں۔ اب جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی۔

پھر دھرنا ہوا اور اس سے جڑے واقعات، گواہیاں اب درجنوں کے حساب سے موجود ہیں کہ وہ کیوں ہوا، کس کی مدد شامل رہی۔ نواز شریف بہرحال ایک مضبوط مینڈیٹ رکھتے تھے، پارٹی بھی تھی، تجربہ بھی سو کسی نہ کسی طرح وہ یہ چوٹ برداشت کر گئے مگر اب تھینک یو راحیل شریف کا دور اپنے عروج پر آچکا تھا۔ ان کا شروع کردہ آپریشن ضرب عضب، کیوں شروع ہوا اور کتنا کامیاب رہا اس کے بارے میں اسلام آباد کے میجر عامر کی گواہی کافی ہے جو وہ اپنے انٹرویوز کے علاوہ مجالس میں ببانگ دہل بیان کرتے ہیں۔

میں صرف اتنا یاد دلا دوں کہ جیسے جیسے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آتی جا رہی تھی نواز حکومت پر دباؤ بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ راحیل شریف کا تھینکس کرنے کا درست طریقہ ان کی ایکسٹینشن ہی ہو سکتی ہے اور یہ اس ملک وقوم پر قرض ہے۔ مگر یہ نہ ہوا، ان کی جگہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تقرر ہو گیا۔ جنرل شریف نہ جانے کس سے پوچھ کر سعودی عرب کی بنائی اسلامی فوج کی کمانڈر بن گئے، یہاں قواعد و ضوابط پر بحث ہوتی رہی وہاں جہاز اڑ بھی گیا۔

جنرل باجوہ کے چارج سنبھالنے کے بعد مریم نواز کا وہ ٹویٹ آپ کو یاد ہو گا کہ بادل چھٹے گئے روشنی واپس آگئی۔ جلد ہی مریم نواز کو اپنے خیالات سے رجوع کرنے کا موقع ملا اور انہیں نے کھل کر بات کرنا شروع کر دی۔ سامنے آؤ، روک سکو تو روک لو وغیرہ۔ نوا ز شریف بھی اپنی صاحبزادی کو انقلابی خواہشات سے نہ روک پائے نتیجہ یہ نکلا کہ خود بارات سمیت رک بھی گئے اور اب منجمد بھی ہو چکے۔ یہ ہے اس پس منظر کی تھوڑی سی جھلک جس کا عمران حکومت کو آج سامنا ہے۔

حیرت کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ کیوں دو اور دو چار والی حقیقت سامنے نظر نہیں آتی کہ جب میں خود نقل مار کے امتحان پاس کروں گا تو مجھے نقل میں مدد فراہم کرنے والے کیسے میری صلاحیتوں کو دل سے تسلیم کریں گے۔ عوامی حکومت عوام کے زور پر آتی ہے، سمجھوتے کر کے نہیں۔ جب آپ نے غیبی مدد شکریے کے ساتھ قبول کر لی تو غیب سے آنے والی ہدایات پر عمل بھی کریں، اور نہ ماننے پر غیبی آفات کے لئے تیار بھی رہیں۔ یہ شور جو آج کل آپ سن رہے ہیں کسی کی بے چینی کا پتہ دیتا ہے۔

شہباز شریف نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی میں کمال کا پتہ پھینکا ہے کہ بیرون ملک سے آتی امداد کو آرمی چیف جنرل باجوہ کے کریڈٹ میں ڈال دیا ہے۔ موجودہ حکومت کی حکومت پر غور کویں کہ وہ غرا کر یہ جواب بھی نہ دے سکے کہ اب تک کی آئی امداد اور گوادر پر آئیل ریفائنری سے متعلق سعودی سرمایہ کاری، در اصل عمران خان کی خوبصورتی اور انگریزی بولنے کی وجہ سے ہے اور اس کا کوئی تعلق دفاعی ادارے سے نہیں۔

شہباز شریف تو یہ ہی کریں گے، مگر سوال اور ہے کہ کیا اس مرتبہ سال کے آخر میں ایکسٹینشن پر بات رک جائے گی، میرا خیال نہیں کہ بات یہاں رکے گی۔ جہاں نواز شریف اور آصف زرداری جیسے مضبوط اعصاب اور اقتدار کا طویل تجربہ رکھنے والے مات کھائیں اور بار بار کھائیں وہاں اپنا لیڈر خوبصورت عمران خان، وظائف کر کے کب تک بچتا ہے دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).