میری اماں کی سلائی مشینیں اور مرغیاں اور میرا پچھتاوا


زندگی جب اپنے اختتام کی طرف رُخ موڑتی ہے، تو پچھتاوا نہ صرف ساتھ ساتھ چلنا شروع کرتا ہے بلکہ مسلسل بولنے بھی لگتا ہے۔ دیکھا، کہا تھا نا کہ ایسا مت کر۔ کتنا روکا تھا۔ ایسا نہ کیا ہوتا تو آج یوں نہ ہوتا اور اگر ویسا کیا ہوتا تو آج کچھ یوں ہورہا ہوتا۔ عورت کو عموماً زندگی کے آخری اسٹیج پر ماں کی نصیحتیں یاد آیا کرتی ہیں۔ ماں اپنے تجربے کا نچوڑ بیٹی کو جہیز میں دینا چاہتی ہے مگر زندگی کی تجربہ گاہ میں داخل ہوتی بیٹی وہ فرسودہ تجربہ قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ بہت ساری زندگی گزارنے کے بعد کہیں جاکر انکشاف ہوتا ہے کہ زندگی ہے ہی فرسودہ چیز! اسے فرسودگی سے گزارو تو مزے میں گزرتی ہے۔ مختلف راستہ پکڑو تو آگے کی کوئی گارنٹی نہیں!

میری اماں کمال کی آرٹسٹ تھیں۔ رنگوں سے کھیلنے کا فن انہیں کڑھائی کی صورت آتا تھا۔ میں نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں سنگر سلائی مشین سے لے کر ہر دور کی جدید ترین سلائی مشینیں دیکھیں۔ ہر سال حج کا سفر ہماری زندگی کا حصّہ تھا ہی، مگر واپسی پر جدہ میں چند دن رہ کر جدید جرمن سلائی مشینوں کی بڑی بڑی دکانوں کی زیارت کیے بغیر ہمارا سفرِ حج گویا مکمل ہی نہ ہوتا تھا!

میری بہت ہی ابتدائی یادوں کے منظر میں پیروں سے چلنے والی وہ سلائی مشین ہے، جس کا سائیکل جیسا سیاہ پہیا، پیڈسٹل چلاتے اماں کے پیروں کی رفتار کے ساتھ گھوما کرتا تھا۔ اماں اس پر جھکی بڑی بڑی چادریں کاڑھا کرتی تھیں۔ رنگ برنگی پھول پتے۔ بیل بوٹے۔ پھولوں تلے بچھی ہوئی سبز گھاس۔ پس منظر میں سفید دھاگے سے بنے بادل۔ مشین پر ان کے پیر تیز تیز چل رہے ہوتے تھے اور کئی رنگوں کے دھاگوں کی ریلیں، ان کے ارد گرد جیسے رقص کررہی ہوتی تھیں۔

مجھے مشین کا وہ اسٹینڈ اُس کم عمری میں بہت ہی پسند تھا۔ مگر میرا چھوٹا سا ذہن تصور ہی تصور میں اس اسٹینڈ کو رائٹنگ ڈیسک کی صورت دیکھتا تھا۔ میں سوچا کرتی کہ اگر اس پر سے مشین ہٹا لی جائے تو اس پر کاپی رکھ کر لکھا جاسکتا ہے! پھر اس کے بعد کئی جدید مشینیں آئیں۔ اماں نے وہ اسٹینڈ چھوڑ کر جدید اسٹینڈ بنوا لیے۔ اب وہ بجلی سے چلنے والی جرمن مشینیں لینے لگی تھیں۔ پرانا اسٹینڈ جو گھر کے ایک کونے میں پڑا رہ گیا تھا، میرا پہلا رائٹنگ ڈیسک بنا۔

یہاں سے میرے اور اماں کے بیچ اختلافِ رائے شروع ہوا۔ اماں مجھے اپنا کڑھائی کا فن دینا چاہتی تھیں۔ اور میں ایک نمبر کی نا خلف اولاد نکلی۔ سلائی کڑھائی مجھے چھوُ کر بھی نہ گزری تھی۔ شروع میں تو انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ میں اسکول کی کاپیوں میں چھپا کر کیا کارستانیاں کرتی ہوں۔ مگر جب راز فاش ہوا تو انہوں سے سر پیٹ لیا۔ مگر تب تک خاصہ وقت گزر چکا تھا اور میں لکھنے کی عادی مجرم بن چکی تھی۔ اور اماں مشین پر کڑھائی کرنے کے بجائے، اپنے ہاتھوں سے شیفون کے دوپٹوں پر بڑی ہی نازک نفیس کڑھائی کرنے لگی تھیں۔

ان کے دوپٹوں کے کناروں پر ریشم کے دھاگوں سے نفیس سی بیلیں بنی ہوتیں، جنہیں وہ خود ڈزائین کرتی تھیں۔ لوگ ان کے دوپٹوں کو چھوُ کر دیکھا کرتے تھے اور حیران ہوتے تھے۔ مگر مشین کو انہوں نے چھوڑا نہیں۔ اسی سال سے اوپر کی عمر تک وہ اپنے کپڑے اپنی جرمن مشین پر سیا کرتی تھیں۔ اس کے آٹو میٹک ڈزائننگ سسٹم پر اپنی شلواروں کے پائنچے بناتیں۔ اس دوران میرا لکھنے کا جرم حدیں پار کرچکا تھا۔

مجھ میں اور اماں میں اپنے اپنے فن کے معاملے میں ایک عادت مشترک ہوئی۔ اماں اپنے سلے ہوئے کپڑے بار بار ادھیڑا کر نئے سرے سے سیتی تھیں اور مطمئن نہیں ہوتی تھیں۔ اور میں لکھ لکھ کر صفحے پھاڑ کر یا مروڑ کر پھینکتی جاتی اور دوبارہ لکھنے لگتی۔ اماں کے ارد گرد رنگ برنگے دھاگوں اور کترنوں کا ڈھیر بکھرا ہوا ہوتا اور میرے ارد گرد ادھ لکھے کاغذوں کے پرزے اور مروڑے ہوئے گولے۔ اب وہ جان گئی تھیں کہ ان کی بیٹی کیا کر رہی ہے! بڑے دکھ سے کہا کرتیں۔ نورالہدیٰ تھوڑی سی سلائی کڑھائی بھی سیکھ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کاغذ اور جھوٹی کہانیاں تیرے کام نہیں آئیں گی۔ ۔ ۔ کچھ اپنا ہنر ہاتھ میں ہوگا تو زندگی آسان گزرے گی ۔ ۔ ۔ ہنر سیکھ ہنر ۔ ۔ ۔ میرے پھاڑ کر پھینکے ہوئے کاغذ دیکھ کر کہا کرتیں کہ ۔ ۔ ۔ یہ کاغذ نہیں پھاڑ رہی تو ۔ ۔ ۔ پیسے ہیں ۔ ۔ ۔ جنہیں پھاڑ پھاڑ کر پھینک رہی ہے تو ۔ ۔ ۔

اور میرا حال یہ تھا کہ مجھے چھوٹا سا ٹانکا لگانا بھی نہ آیا ۔ ۔ ۔ اوپر سے وہ دن قیامت سے کم نہ ہوتا تھا جس دن میرے درزی کا بل آتا تھا۔ ہر بار بل کی ادائگی سے پہلے مجھے اپنے پھوہڑ پنے پر ایک لیکچر سننا ہوتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ موئے درزی بھی نہیں رہیں گے ۔ ۔ ۔ اپنا ہنر ہوگا تو کام آئے گا ۔ ۔ ۔ وہ انسان ہی کیا جو اپنے تن کے کپڑے بھی نہ سی سکے۔

مگر میں ان کی مرضی کی نہ بن سکی۔ میرے لیے جو بھی خواب انہوں نے دیکھے تھے، ایک بھی پورا نہ ہوا مجھ سے۔ میرے لکھنے کے ہنر نے میرا رخ میڈیا کی طرف موڑ دیا۔ تب میں نے بڑے فخر سے سوچا کہ یہ ہے میرا ہنر جو مجھے پیسہ کما کر دے رہا! مگر اب! اچانک پچھتاوے نے مجھے گھیر لیا ہے۔

میڈیا موئے پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ تنخواہ رکی ہوئی ہے۔ لاکھوں کس کام کے اگر پرس میں نہیں۔ اوپر سے سلائی مشینوں کے کاروبار کی شہرت نے مجھے ڈپریشن میں ڈال دیا ہے۔ کاش اماں کا کہا مانا ہوتا۔ سلائی کڑھائی کا ہنر سیکھا ہوتا۔ اماں کی سلائی مشینوں کی اہمیت کو سمجھا ہوتا۔ آج میں کہاں کھڑی ہوتی! پاکستان سے امریکہ تک پھیلا ہوا ہوتا میرا کاروبار!
بات اس ایک پچھتاوے پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ اماں کو میرے بہت ہی بچپن میں مرغیاں پالنے کا بھی شوق ہوا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah