برقعہ ، اسلام اور یورپ


\"edit\"یکم جولائی سے سوئزر لینڈ کے صوبے ٹیکینو TICINO میں برقعہ پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوئزر لینڈ میں سعودی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو اس ملک کا سفر کتے ہوئے، اس قانون کے بارے میں باخبر رہنے اور اس کا احترام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس علاقے میں برقعہ پہننے پر پابندی لگانے کا فیصلہ سوئس روایت کے مطابق 2013 میں ایک ریفرنڈم میں کیا گیا تھا۔ اس میں 65 فیصد لوگوں نے پابندی لگانے کی حمایت کی تھی۔ تاہم مرکزی حکومت کی توثیق اور علاقائی قانون ساز اسمبلی میں مناسب قانون بنانے کے عمل میں تین سال کا عرصہ صرف ہوا۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 10 ہزار ڈالر تک جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ مئی میں نیدر لینڈ کی حکومت نے برقعہ پر پابندی عائد کی تھی جبکہ بلغاریہ میں بھی اس حوالے سے ایک قانون کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یورپ میں برقعہ پر سب سے پہلے فرانس میں 2011 میں پابندی لگائی گئی تھی۔ یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل مسترد ہو گئی تھی۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ پابندی آرٹیکل 8، 9 اور 14 کے خلاف نہیں ہے۔ ان شقات میں نجی آزادی ، عقیدے کی آزادی اور امتیازی سلوک کی ممانعت کی بات کی گئی ہے۔

فرانس میں برقعہ پر پابندی کے بعد طویل عرصہ تک یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ یہ فیصلہ کس حد تک سیکولر ریاست اور لبرل رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف آرا کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ لبرل نظریات کے مطابق کوئی ریاست کسی فرد کے دینی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اس لئے یہ فیصلہ غلط ہے۔ یہ لوگ اس دلیل کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ یورپ میں برقعہ کا استعمال عورتوں کے استحصال کی علامت بن رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس، افغانستان نہیں ہے۔ فرانس یا یورپ کے دوسرے ملکوں میں رہنے والی مسلمان خواتین ، اپنی مرضی و منشا اور اپنے عقیدے کی تفہیم کے مطابق حجاب یا برقعہ پہننے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہو گا کہ مردوں کے جبر کی وجہ سے مسلمان عورتیں یورپ میں برقعہ پہننے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ معاملہ چند سو یا چند ہزار خواتین سے متعلق ہے۔ یورپ کے مختلف ملکوں میں مسلمان خواتین کی اکثریت برقعہ استعمال نہیں کرتی۔ اس لئے ان تھوڑی تعداد میں عورتوں کو اس حق سے محروم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تاہم بعض دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ برقعہ اور کسی حد تک حجاب کے استعمال سے معاشرے میں عورتوں کے دو طبقات پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ پوری آزادی کے ساتھ معاشرے میں تعلیم ، ملازمت اور دیگر سماجی سرگرمیوں سے استفادہ کرتا ہے جبکہ معدودے چند برقعہ پوش خواتین پر ان سہولتوں کے دروزے بند ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خاندان انہیں گھروں میں بند رکھ کر صرف کھانا بنانے، بچے پیدا کرنے اور انہیں پالنے تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔ یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت نے 2014 میں اپنے فیصلہ میں قرار دیا تھا کہ برقعہ پر پابندی کو کسی مذہبی رسم پر عمل پر پابندی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مسلمانوں میں پردہ کے حوالے سے مختلف رائے اور روایات موجود ہیں۔ فرانس میں یہ پابندی اس لئے لگائی گئی ہے کیونکہ برقعہ سے چہرہ ڈھانپ لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شناخت میں مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح یورپی عدالت نے فرنچ حکومت کی اس دلیل کو بھی قبول کر لیا تھا کہ برقعہ پر پابندی سکیورٹی کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے۔

اس پس منظر میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپ میں آباد مسلمانوں کو اس صورتحال کا کیوں سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کیا مسلمان تنظیمیں اور ماہرین پردہ اور اس کے لوازمات کے بارے میں کسی ایک وضاحت و صراحت پر متفق ہو سکے ہیں۔ عام طور سے مسلمان تنظیمیں اور مذہبی رہنما اس قسم کی پابندی پر احتجاج سے آگے نہیں بڑھتے۔ یا نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے بعض مسلمان اس قسم کی پابندیوں کے ساتھ سیاسی و سماجی عوامل پر بحث میں حصہ لیتے ہیں۔ سماجی لحاظ سے دیکھا جائے تو جس طرح برقعہ اور حجاب پر پابندی کے حوالے سے اقدامات اور مباحث یورپ میں گزشتہ دس برس کے دوران سامنے آئے ہیں، اسی طرح مسلمان آبادیوں میں اس قسم کی مذہبی پابندیوں پر عمل کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ بھی گزشتہ ایک سے دو دہائی کے دوران ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ رجحان چونکہ دنیا بھر میں اسلامی شدت پسندی یا ریڈیکل اسلام اور دہشت گردی میں اضافہ کے ساتھ ہی عام ہوا ہے یا اس پر اصرار شروع کیا گیا ہے، اس لئے یورپ کے باشندے برقعہ پوش خواتین اور انتہا پسند مسلمانوں میں فرق کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

یورپ کے مختلف ملکوں کے بعض مذہبی رہنماؤں نے شدت پسندی کی حمایت کرنے حتیٰ کہ بعض صورتوں میں دہشتگردی کو جائز اور درست قرار دینے کا رویہ بھی اختیار کیا ہے، جس کی وجہ سے عام طور سے مسلمانوں کے بارے میں منفی جذبات اور خوف میں اضافہ ہوا ہے۔ اس خوف کو کم کرنے کےلئے مسلمان تنظیمیں کوئی حکمت عملی تیار کرنے اور معاشرے اور مسلمانوں کے درمیان پل بنانے کے عمل کو موثر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر مسلمان رہنما درحقیقت اپنے ملکوں کی مذہبی روایت اور تفہیم کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ وہ اس فریم سے علیحدہ ہو کر صورتحال کا جائزہ لینے یا اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔ اکثر یورپی ملکوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر ملک یا خطہ کے لوگ اپنے علاقے اور نسلی حوالہ سے ہی مساجد یا عبادت گاہیں قائم کرتے ہیں۔ عرب ملکوں کے باشندوں کی اپنی مساجد ہیں، ترکی اور صومالیہ والے اپنے اپنے گروہوں کےلئے مذہبی اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں اور پاکستانی اپنے طورے پر اپنے لوگوں کےلئے علیحدہ مسجدیں بناتے پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلکی اختلاف کی بنیاد پر بھی مساجد تعمیر کرنے کا رواج عام ہے۔ اس طرح مذہبی رسم و رواج اور تفہیم کے بارے میں جو اختلاف اور لڑائیاں ان تارکین وطن مسلمانوں کے اصل ملکوں میں موجود ہیں، انہیں یورپ میں بھی ’’درآمد‘‘ کر لیا گیا ہے۔ ان سے چھٹکارا پانے کی کوئی کاوش کہیں پر نظر نہیں آتی۔ اس لئے اکثر صورتوں میں اسلامی مراکز کے مذہبی رہنما یا امام مقامی زبان سے نابلد رہتے ہیں اور وہ مقامی سیاسی و سماجی ضرورتوں کو سمجھنے اور اسلامی روایات کو ان کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اسی طرح مختلف مواقع پر جن علما کو اپنے اصل ملکوں سے بلوایا جاتا ہے، وہ بھی صرف ایک خاص نقطہ نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔

اس صورتحال سے انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے بعض گروہوں اور دینی علما نے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ یورپی زبانوں میں بات کرنے والے ماہرین کے ذریعے نوجوانوں سے رابطہ کرنے اور انہیں ہم خیال بنانے کےلئے سرگرم ہیں۔ اس قسم کے دینی ماہر عام طور سے انتہا پسندانہ اسلامی نظریات کے مبلغ ہیں۔ اس طرح انٹیگریشن یا مقامی معاشرے کی ضرورتوں ، سیاسی و سماجی یا موسمی ضروریات کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تفہیم کا کوئی سلسلہ شروع کرنے کا عمل نہایت سست روی کا شکار ہے۔ یہ مذہبی گروہ یا ادارے شخصی و مذہبی آزادی کی بنیاد پر مسلمانوں کے ’’انتہائی حقوق‘‘ کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن مقامی قوانین اور رسم و رواج کی تفہیم یا ان کا احترام کرنے کا کوئی جذبہ پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی تصویر کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مختلف یورپی ملکوں میں قائم اسلامی اداروں سے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق صرف مذہبی رسوم کی ادائیگی یعنی نماز کی ادائیگی ۔۔۔۔۔ خاص طور سے جمعہ و عیدین کی نماز یا جنازہ کی نماز وغیرہ ۔۔۔۔۔ تک محدود ہے جبکہ ان مساجد یا مراکز کا اہتمام و انتظام چند درجن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مرضی و منشا کے مطابق اپنا ادارہ بھی چلاتے ہیں اور اسلام کو بھی اپنے ہی نقطہ نظر کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ اس صورت میں معاشرہ چند افراد کی تفہیم دین کو ہی ملک میں آباد مسلمانوں کا عمومی رویہ سمجھنے لگتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اس سے لاتعلق رہ کر ہی مطمئن ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کی روایات پر بڑھتی ہوئی بحث کے سبب یہ خاموشی یا لاتعلقی مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے سنگین صورتحال پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

مسلمان رہنما ، امام یا عالم عام طور سے چونکہ اپنی مادری زبان میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی تقریریں بھی انہی دلائل اور بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں جو مثال کے طور پر کسی پاکستانی قصبہ یا گاؤں کا امام بروئے کار لاتا ہے۔ اس طرح ایک طرف مسلمانوں اور معاشرہ میں فاصلہ پیدا ہو رہا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی پرانی اور نئی نسل میں بھی بُعد سامنے آ رہا ہے۔ یعنی یورپ کے مسلمان معاشرے میں دو انتہائی نظریات کے درمیان پھنسنے کے علاوہ ، خود اپنے ہم عقیدہ لوگوں میں بھی گروہی تقسیم کا شکار ہیں۔ اس طرح بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان معاشرتی و سماجی مباحث میں کوئی اہم کردار ادا کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ ان کا زیادہ تر رویہ یہی ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں مصروف رہنے دیا جائے تو ہمیں اردگرد رونما ہونے والے واقعات و سانحات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس رویہ کے سبب اسلامی ادارے معاشرے سے فاصلہ تو پیدا کر ہی رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ نوجوان مسلمان نسل میں یا تو انتہائی مذہبی گروہ پیدا کرتے ہیں یا انہیں مذہب سے برگشتہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یعنی ایک طرف معاشرہ کے انتہائی گروہوں یا آرا کے مقابلے میں انتہا پسند مسلمانوں کی آوازیں سننے کو ملیں گی تو مسلمان گروہوں میں بھی بعض لوگ زندگی کا بیشتر حصہ مذہب اور اسلامی مرکز کےلئے وقف کر دیں گے تو دوسری طرف ان کے طرز عمل کے مخالف گروہ بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ اس لئے یورپ کے مسلمانوں کو صرف معاشروں سے بہتر مواصلت کرنے ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے گروہ میں بھی ہم آہنگی، اشراک اور افہام و تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مقاصد حاصل کرنے کےلئے جس دینی استعداد اور سماجی و سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، بیشتر صورتوں میں مسلمان رہنما اس سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ممتاز قادری کی پھانسی پر احتجاج دیکھنے میں آتا ہے، کبھی کوئی امام مسجد سلمان تاثیر کو کروڑ بار کافر قرار دیتا ہے اور کوئی عالم دین نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو جائز قرار دینے پر اپنی پوری صلاحیت صرف کرنے لگتا ہے۔ ایسے اماموں اور مسلمان رہنماؤں کی بھی کمی نہیں ہے جو دہشت گردی کے عوامل کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اسے مغرب اور امریکی استحصال کا شاخسانہ قرار دے کر نوجوان مسلمانوں کے دلوں میں نفرت بھرنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کےلئے یورپ کے مسلمانوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ اسلامی مراکز اور دینی رہنماؤں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments