بجلی کا کھیل ہے کوئی مذاق نہیں


یار حسین سب ڈویژن 2 کا استاد نور الرحمن جانفشانی اور پوری ایمانداری سے فرائض انجام دیتے ہوئے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ سفید داڑھی، سر پر سفید ٹوپی سفید کپڑے، بزرگ استاد نور الرحمان ایک تصویر میں، کمر سے پیٹی باندھے گیارہ ہزار وولٹ کے کھمبے پر چڑھنے کے لیے تیار دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد لائن مینی کی پوری عمر گزارنے والا نور الرحمن اس ایک لمحے سے دوچار ہو گیا جس سے وہ ساری عمر اتفاقاً بچتا آیا تھا۔ یک دم بجلی کا ایک جھٹکا آیا اور دوسری تصویر میں نور الرحمن بابا کا جسم کھمبے سے جھول گیا۔

اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ان جیسے چار سو چونسٹھ 464 لائن مینوں کو کیا نام دیں جو 2012 سے 2017 تک بجلی کے محکموں کے حادثات کا شکار ہو گئے۔ شہید، جاں بحق، ہلاک یا خودکش۔ سوچ کا اپنا اپنا زاویہ ہو سکتا ہے۔

شاید ہم ایسے ایک لائن مینوں کو ہیرو کا درجہ دینا چاہیں، جو چالیس فیصد تک لاسز والے محکمے میں اس عملے کے ساتھ کام کرتے ہیں جو ماہوار رشوت پہنچانے والے کی ایک کال پر گرا ہوا بریکر یہ دیکھے بغیر اٹھا دیتے ہیں کہ کہیں کوئی پیٹی بھائی کھمبے پر کام تو نہیں کر رہا۔

یا شاید ہم اِن کو اُن بہادروں میں شمار کریں جو بغیر ہیلمٹ یا دستانوں کے بسم اللہ پڑھ کر کھمبے پر چڑھ جاتے ہیں اور نہ صرف امر ہو جاتے ہیں بلکہ تاریخ میں بہادری کی سند اپنے بعد کے آنے والوں کے لیے بغیر حفاظتی اقدامات کے گیارہ ہزار وولٹ سے آنکھ مچولی کھیلنے کو لکھ دیتے ہیں۔

ہم ان سب کو روشنی کا پیامبر بھی کہہ سکتے ہیں جو اس اندھیر نگری میں نوکری کرتے ہیں جہاں حفاظتی سامان خریدا تو جاتا ہے لیکن ان تک نہیں پہنچ پاتا۔ شاید ادارے کے اسٹور تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔ شاید جس کمپنی سے ادارے نے خریدا ہو اس میں بھی بنتا تک نہیں۔ لیکن روشنی کی رفتار سے ان کی روحیں ہر سامان کی محتاجی سے پرے جنت سدھار جاتی ہیں۔

ہم ان سب کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو سخت گرمی سردی میں دن اور رات، وقت کی پروا کیے بغیر ہمارے پنکھے اور بلب روشن کرنے کے لیے ہاتھوں میں ڈانگیں پکڑے تربیت کے نام پر سمجھائی گئی جگاڑ لگانے کھمبوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور پھر گر جائیں تو ٹوٹتے نہیں، ٹوٹ جائیں تو بولتے نہیں، بول لیں تو سنائی نہیں دیتے اور جل کر مسخ ہو جائیں تو اس لسٹ میں ایک نمبر کے سوا ان کی کوئی پہچان نہیں رہتی جس لسٹ پر نیپرا ہر سال نیچے لکھ دیتا ہے کہ سیفٹی کی مد میں ڈسکوز کی حالت پہلے کی طرح آج بھی بہت بری ہے۔ اور جانے کب تک رہے گی۔
میرے پاس ان سب کو شہدا لکھنے کے سوا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ بجلی کا کھیل ہے۔ کوئی مذاق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).