ایدھی : قوم کے محسن


\"ajmal1\"جب ریاست چلانے والے اپنا اور اپنی آل اولاد کا پیٹ بھر رہے تھے تو ایدھی صاحب یتیموں کا پیٹ بھر رہے تھے، جب معاشرہ اپنے گناہوں کی سزا نومولود کے دیتے ہوئے لاوارث اسےسڑک کنارے پھینک رہا تھا تو ایدھی صاحب کا جھولا اس بچے کو نئی زندگی بخش رہا تھا، جب دہشت گرد ملک کے طول و عرض میں ہزاروں لوگوں سے جینے کا حق چھین رہے تھے تو ایدھی صاحب دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس کے ذریعے دم توڑتی سانسیں بحال کرنے میں مصروف تھے، جب یتیم کے لئے جینا دو بھر ہوا تو اچانک کہیں سے ایدھی صاحب کا دست شفقت اس کے سر پر پہنچ رہا تھا۔ جب بھوکے کو ماں جیسی ریاست بھی دو وقت کی روٹی نہ دے سکی تو ایدھی لنگر اس کے پیٹ کی بھوک مٹا رہے تھے۔ اور جب بے حس معاشرہ کسی خاتون کے سر سے چھت چھین رہا تھا تو ایدھی شیلٹر ہومز اسے آسائش فراہم کررہے تھے۔

مگر افسوس۔۔! وہ یہ سب 1957 سے کرتے چلے آرہے تھے، تقریبا چھ دہائیاں بیت گئیں، مگر افسوس۔۔!! ریاست اس قافلے میں اپنا حصہ نہ ڈال سکی، ریاست اس کا ماڈل نہ اپنا سکی، ریاست اور ریاست کے ہرکارے ایدھی کا سا جذبہ پیدا نہ کرسکے، ریاست چلانے والے سیاست چمکاتے رہے، ہر کسی نے اسے تھپکی ضرور دی، اس کے کام کو سراہا، اسے سب سے زیادہ غیر متنازعہ شخصیت بھی قرار دیا مگر آگے بڑھ کر اسے ماں کی سی سرپرستی نہ دی۔ ریاست برائے نام چلتی رہے، اور ایدھی انسانیت کا سب سے بڑا خدمتگار بن گیا۔ پھر یوں ہوا کہ 92 برس کا بوڑھا جسم جواب دینے لگ گیا، گردے ناکارہ ہو گئے، بیرون ملک علاج کی پیشکش کی گئی، مگر ایدھی لاکھوں بچوں کو چھوڑ کر جانے کو تیار نہ ہوا۔ وہ یہیں رہا اپنوں کے بیچ۔ لیکن کل وہ بیس کروڑ افراد کو یتیم کر گیا۔ وہ ہم سے روٹھ گیا۔ یہاں سے رخصت ہو گیا۔

ایدھی صاحب کہتے تھے:

پیدا ہونے والے کو ناجائز مت کہو۔ ’جو پیدا ہوا وہ آپ کا جائز بچہ ہے، ٹھیک ہے، مولوی مجھے بے دین کہتے ہیں، کہنے دو۔\’ بچے کو مارو نہیں، جھولے میں ڈال دو، میں کچھ نہیں کہوں گا۔

\"edhi\"بے مثال جذبہ اور بے لوث لگن ایدھی کے ساتھ رخصت ہوگئی، سوچتا ہوں بیس کروڑ کی آبادی میں ایک بھی ایدھی کا متبادل کیوں نہیں؟ 67 سالوں میں فقط ایک ایدھی؟ کیا اخلاقی گراوٹ کا شکار قوم کے لئے یہ لمحہ فکریہ نہیں؟ رہی سہی کسر ہمارے ٹی وی چینلز نے نکال دی، ایدھی صاحب کی رحلت پر تاثرات بھی لئے تو انہی سیاستدانوں کے جو اقتدار کی جنگ میں مصروف رہے اور ایدھی انسانیت کی جنگ لڑتا رہا۔ تاثرات درکار ہی تھے تو اس بچے سے پوچھا جاتا جسے نانا ایدھی نے شناخت دی، اس خاتون سے پوچھا جاتا جسے ایدھی نے چھت دی، یا پھر اس زخمی سے کہ جسے نئی زندگی ایدھی کی وجہ سے ملی۔ یہ سیاستدان بھلا کیا بتائیں گے کہ ایدھی کون تھا اور اس کے جانے سے انسانیت کو کتنا بڑا نقصان پہنچا ہے؟ مدر ٹریسا سے کسی نے پوچھا، ایدھی کا کام کیسا ہے؟ وہ بولیں:\’ ایدھی تو ولی ہے۔\’ ایسا درویش صفت قلندر پیر کہ جس کی مسیحائی سے پورا پاکستان مسلسل انسٹھ برس تک فیض یاب ہوتا رہا اب ہم سے جدا ہو چکا ہے، وہ نہ سہی اس کی صفات تو انسانیت کی معراج ہیں لیکن ہے کوئی اس کی شمع اٹھانے والا؟

حضرت رومی نے فرمایا تھا:

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
(کل (ایک) شیخ چراغ لئے سارے شہر کے گرد گھوما کیا (اور کہتا رہا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کا آزرو مند ہوں۔)

سچ پوچھئے تو میں صدمے کا شکار ہوں، میرے لئے مزید لفظ ڈھونڈنا محال ہو چکا ہے۔ ان گنت سوالات ہیں کہ پلک جھپکنے کا موقع تک نہیں دے رہے۔ ایک سوال آپ سب سے بھی کہ ایدھی کو ہم \’رئیل فادر آف دی نیشن\’ (حقیقی محسن قوم) کیوں نہیں کہہ سکتے؟

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments