سلیقہ مند لڑکی نے غریب لکڑہارے کو کیسے ارب پتی بنایا


پرانے زمانے میں ایران میں ایک شہنشاہ قباد نامی حکومت کیا کرتا تھا۔ اپنے وزیر بزرجمہر کی حکمت کے سبب اسے اپنی ایک ملکہ کی بے وفائی کا علم ہوا تو عورت ذات سے اس کا اعتبار اٹھ گیا۔ اس نے ملکہ کو تو دیوار میں چنوا کر قرار واقعی سزا دے دی مگر حرم کی باقی ہزاروں ملکاؤں اور کنیزوں سے اس کا جی اوب گیا۔ بس ایک کنیز نیلما نامی تھی جس کے گانے بجانے اور جی بہلانے کی باتوں کے سبب بادشاہ نے اسے اپنے قریب رکھا۔

اب حرم سے فارغ ہونے کے بعد بادشاہ کے پاس بہت زیادہ فالتو وقت بچنے لگا۔ اس زمانے میں ریڈیو ٹی وی تو ہوتا نہیں تھا، نیلما سے کتنے وقت محفل کی جا سکتی تھی، تنگ آ کر بادشاہ نے شکار پر جانے کا قصد کیا۔ شاہی قافلہ جنگ میں پہنچا۔ دن بھر شکار کھیلنے کے بعد جب شام کو بادشاہ قباد سستانے بیٹھا تو اس کی نظر ایک مفلوک الحال لکڑہارے پر پڑی۔ بڈھا لکڑہارا کمر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے تھا۔ بوجھ اور بڑھاپے کے مارے چلا اس سے جاتا نہیں تھا۔ گھسٹ رہا تھا۔

بادشاہ کو اس کے حال پر رحم آیا۔ اس نے اسے بلایا اور نام پوچھا۔ لکڑہارے نے نام بتایا قباد۔ بادشاہ حیران ہوا کہ ہم دونوں کا نام قباد ہے، کہاں میں کہ ایران کا شہنشاہ ہوں اور کہاں یہ کہ غربت سے یہ قریب المرگ ہے۔ بزرجمہر سے زائچہ بنوایا کہ اس لکڑہارے کی بدحالی کا سبب معلوم ہو۔ بزرجمہر نے زائچے پر غور کیا اور کہنے لگا کہ حضور دونوں کا ستارہ ایک ہے۔ مگر ہنگام تولد میں حضور کے ماہ و خورشید برج حمل میں باہم تھے اور اس کے وقت تولد برج حوت میں فراہم تھے۔

یہ سن کر نیلما اپنا منہ بند نہ رکھ سکی۔ کہنے لگی کہ ”کنیز ان ستاروں وتاروں کو نہیں مانتی۔ اس بڈھے کی بیوی ضرور نہایت پھوہڑ ہے۔ اسی وجہ سے یہ ان حالوں میں ہے۔ “

بادشاہ پہلے ہی عورت ذات سے نالاں تھا۔ یہ سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ کہنے لگا کہ ”تم اتنی ہی سیانی ہو تو اس بوڑھے کے ساتھ جاؤ اور اسے امیر بنا کر دکھاؤ۔ “ یہ کہہ کر اس نے نیلما کی شاہی خلعت اور زیورات وہیں دھروا لیے اور اسے باربرداری کے گھوڑے پر ڈالی جانے والی بوری پہنا کر جنگل میں چھوڑا اور خود اپنا ساز و سامان لے کر واپس محل کو روانہ ہوا۔

نیلما جنگل بیابان میں تنہا۔ اس نے گھبرا کر لکڑہارے کے پیچھے دوڑ لگائی اور اس کے قریب پہنچ کر خودی کو نہایت بلند کرتے ہوئے بولی ”اے مفلوک الحال بزرگ، مجھ کو اپنے گھر لے چل۔ خدا نے تجھ پر بہت رحمت کی کہ مجھے سی عورت کو تجھے دلوایا۔ کریم کارساز کا شکر ادا کر کہ ایام کلفت رفع ہوئے۔ اس کا غم نہ کھانا کہ روٹی مجھ کو دینا پڑے گی اور اس سن میں اور آفت سر پر لینا پڑے گی۔ ہزارہا کو کھلاؤں گی اور تیرا نام روشن کروں گی“۔

لکڑہارا اس کی باتوں میں آ گیا۔ اسے لے کر اپنے گھر پہنچا ہی تھا کہ ایک جوتا اڑتا ہوا آیا اور سیدھا اس کی چندیا سے ٹکرایا۔ ساتھ ہی اس کی بڑھیا بیوی دوسرا جوتا ہاتھ میں لئے اس پر پل پڑی اور کہنے لگی ”بڈھے تجھے اس عمر میں رنگینی سوجھی ہے، گھر میں پہلے تیرہ بچے کیا کم ہیں کہ اس بوری بند حسینہ کو میری سوتن بنا کر لے آیا ہے“۔

نیلما نے زمین پر پڑا ہوا جوتا نہایت سلیقے سے صاف کر کے بڑھیا کو تھمایا اور اسے تسلی دی کہ ”اماں حضور، بڑے میاں کی بیٹی ہوں اور جدی پشتی کنیز ہوں۔ تمہاری بہت خدمت کروں گی۔ جھاڑو پوچا سب میرا ذمہ۔ “ یہ سن کر بڑھیا کا دل نرم ہوا۔ اس نے نیلما کو رکھ لیا۔

ایک برس گزر گیا۔ ایک دن بادشاہ کے دربار میں ایک احمق سا سوداگر آیا جس کے پیچھے قیمتی نذرانوں سے لدے ہوئے چالیس خچر چل رہے تھے۔ اس نے ساری نذر بادشاہ کو گزاری اور اسے اپنے محل میں دعوت پر بلایا۔ بادشاہ نذرانے پا کر نہایت خوش ہوا۔ ہر چیز اس کی پسند کی تھی۔ اس نے دعوت قبول کر لی۔

وہ سوداگر کے محل میں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بالکل شاہی محل کے نقشے پر بنا ہوا تھا۔ ویسی ہی سجاوٹ۔ ویسے ہی قیمتی پردے اور پتھر۔ ویسی ہی چادریں اور ویسی ہی گدیاں۔ حتی کہ جس تخت پر بادشاہ کو بٹھایا گیا وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا شاہی تخت۔ بادشاہ حیران ہوا۔ بہرحال کچھ دیر گفتگو کے بعد بادشاہ کو کھانے کے کمرے میں لے جایا گیا۔

اس کمرے میں دیواروں پر اس واقعے کی تصاویر بنی ہوئی تھیں جس میں بادشاہ کو اپنی دل پسند کنیز نیلما کو خلعت شاہی سے محروم کر کے بوری بند کنڈیشن میں لکڑہارے کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر غم کھانے لگا۔ اس پر پردے کے پیچھے بیٹھی نیلما کہنے لگی کہ ”بادشاہ سلامت، ماحضر تناول فرمائیں۔ خاص آپ کی پسند کے کریلے گوشت بنے ہیں۔ “ بادشاہ نے ایک لقمہ ہی لیا تھا کہ پہچان گیا کہ یہ نیلما کے ہاتھ کا بنا کھانا ہے۔ بے اختیار کہہ اٹھا ”ہائے نیلما کے کریلے گوشت“۔

یہ سن کر نیلما سامنے آئی اور ادب سے جھک کر سلام کیا۔ کہنے لگی ”بادشاہ سلامت، یہ امیر سوداگر وہی غریب لکڑہارا ہے۔ اسے میری عقل کے سبب ایسا مال و دولت ملا ہے کہ آپ جیسا محل بنا کر اس میں آرام سے رہتا ہے۔ “

بادشاہ حیران ہوا۔ اس نے پوچھا ”نیلما تم نے یہ سب کیسے کیا؟ کیسے اس مفلوک الحال شخص کو ارب پتی بنا دیا کہ اب یہ بادشاہوں جیسی زندگی بسر کرتا ہے؟ کیا تمہیں کوئی سونے کی کان مل گئی ہے؟ “

تس پہ نیلما کی آنکھیں نم ہوئیں اور اس نے اپنی کہانی بیان کرنی شروع کی۔
”پہلے دن جب لکڑہارا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا تو اس نے بازار سے کھانا خریدا اور اپنے تیرہ بچوں کو دیا۔ کسی کو آدھی روٹی ملی کسی کو پوری۔ کسی کا پیٹ نہ بھرا۔ یہ دیکھ کر میں نے کہا ’چچا جان، آپ کل کھانے کی بجائے گیہوں اور دال خرید لائیں۔ ‘ لکڑہارے نے یہی کیا۔ میں نے پڑوسن کی چکی میں گندم پیسی، اس کا اتنا آٹا بنا کہ تین دن کی روٹیاں بن جائیں۔ دال کو چولہے پر چڑھایا اور پانی ڈال کر اتنا پتلا کیا کہ تین دن کا سالن بن جائے۔ یوں تین دن سب نے پہلی مرتبہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ “

”ان تین دنوں کی لکڑیوں کے جو پیسے بچے، ان سے میں نے ریشمی دھاگہ منگوایا۔ اسے بٹ کر ڈوریاں بنوائیں اور ان کو بیچنے سے جو پیسے ملے ان سے مزید دھاگہ منگوایا۔ یوں مہینے بھر میں میرے پاس ریشمی ڈوریاں بیچ بیچ کر اتنے زیادہ پیسے اکٹھے ہو گئے کہ میں نے ایک سلائی مشین خرید لی۔ پھر ہمیں ارب پتی بننے سے کون روک سکتا تھا؟ “

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar