ہم نے کشمیر کیسے گنوایا؟ اور دوسرے تاریخی معاملات پر اصغر خان کے خیالات


ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان 17 جنوری 1921 کو کشمیر ( جموں ) کے ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے اور گزشتہ سال 5 جنوری کو انتقال کر گئے۔ اصغر خان نے ابتدائی تعلیم بہترین تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور 1939 میں میٹریکولیشن کرنے کے بعد انڈین ملٹری ایکیڈمی سے 1940 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ 1941 میں رائل انڈین ایئر فورس میں فوجی مشیر مقرر ہوئے اور دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر بھارتی فضائیہ میں بطور فوجی مشیر خدمات انجام دیں۔ 1941 میں رائل انڈین ایئر فورس میں رہتے ہوئے ہی فضائی تربیت حاصل کی۔

قیام پاکستان کے بعد رسال پور ایکیڈمی کے کمانڈنٹ کا عہدہ سنبھالا۔ دوران ملازمت پاک فضائیہ، آر اے ایف اسٹاف کالج ( برطانیہ) ، جوائنٹ سروس ڈیفنس کالج ( برطانیہ ) اور 1955 میں امپیریئل ڈیفنس کالج سے اعلی تعلیم اور فضائی و فوجی تربیت حاصل کی۔ 1957 میں محض 36 سال کی عمر میں پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف بنے۔

اپریل و مئی میں رن آف کچھ کے تنازعے پر جب 1965 میں پاکستان و بھارت میں کشیدگی عروج پر تھی تو ایئر مارشل اصغر خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو فون کیا اور مشورہ دیا کہ دونوں ممالک کی فضائیہ کو اس معاملے میں عملی اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یوں ان کی شخصیت متنازع قرار پائی۔ 15 اگست 1965 کو اصغر خان پاک فضائیہ سے ریٹائر ہو گئے۔ اور 20 اگست 1965 کو قومی ایئر لائن پی آئی اے کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اصغر خان نے 30 نومبر 1968 تک پی آئی اے میں خدمات انجام دیں۔

پِی آئی اے میں بطور سربراہ ملازمت کے بعد اصغر خان نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا، جس کے نتیجے میں جنرل ایوب اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔ 1969 میں اصغر خان نے اپنی سیاسی جماعت جسٹس پارٹی بنائی، جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے تحریک استقلال رکھ دیا۔ اصغر خان کی جماعت نے 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لیا، لیکن کوئی کامیابی ہاتھ نہ آئی۔

میاں نواز شریف اور چوہدری اعتزاز احسن کے علاوہ کئی سیاست دان اور صحافی کسی زمانے میں تحریک استقلال کا حصہ رہے ہیں۔ دسمبر 2011 میں اصغر خان نے اپنی جماعت کو موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف میں ضم کر دیا اور تا دم آخر تحریک انصاف کا ہی حصہ رہے۔ چونکہ اصغر خان سوائے عمران خان کے تمام سیاسی رہنماؤں اور قوتوں سے مایوس ہو چکے تھے۔

ریٹائر ایئر مارشل اصغر خان گو کہ سیاسی سطح پر تو وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر پائے جو دیگر سیاست دانوں کے حصے میں آئیں۔ لیکن وطن عزیز کی سیاسی تاریخ ان کے سیاسی کردار کے بغیر مکمل بھی نہیں۔ اصغر خان نے یوں تو جنرل ضیاء الحق کو 1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے دوران فوجی مداخلت کی دعوت دی تھی اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت بھی کی تھی۔ لیکن اصغر خان کی احتجاجی سیاسی روش کی بنا پر جنرل ضیاء الحق نے کئی سال اصغر خان کو نظر بند رکھا۔

1981 میں نظر بندی ختم ہوئی تو تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) میں حصہ لیا۔ اور 1990 میں تو اپنے بد ترین سیاسی مخالف ذوالفقار علی بھٹو کی صاحب زادی بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد ( پی ڈی اے ) قائم کیا اور جنرل الیکشن میں حصہ لیا۔ جنرل الیکشن کے نتائج حسب توقع و خواہش ہی آئے۔ جنرل الیکشنز میں چند جنرلز کی مداخلت کے ثبوت ملنے پر اصغر خان نے عدالت عظمی سے رجوع کیا۔ یہ مقدمہ اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔

اصغر خان ہمیشہ بر سر اقتدار جماعتوں، آمروں کے علاوہ وطن عزیز کے سیاسی رہنماؤں کی سیاسی اور فوجی سربراہوں کی جنگی حکمت عملیوں اور مہم جوئیوں کے ناقد رہے ہیں۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتابوں اور ٹی وی انٹرویوز میں بھی ببانگ دہل کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اصغر خان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق مہا راجہ کشمیر تقسیم بر صغیر کے بعد تین ہفتوں تک حکومت پاکستان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن وزیر اعظم کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔

مہا راجہ کشمیر کی خواہش تھی کہ ان کی کشمیر کے حکمراں کی حیثیت کو بر قرار رکھا جائے تو وہ پاکستان سے الحاق کو تیار ہیں۔ لیکن حکومت نے اس وقت کے وزیر اعلی صوبہ سرحد خان عبد القیوم کے مشورے اور ایما پر قبائلیوں اور جو فوجی چھٹیوں پر تھے، ان کی مدد سے کشمیر پر لشکر کشی کی۔ اس صورت حال میں مہا راجہ کشمیر نے بھارت سے فوجی مداخلت کی درخواست کی اور بھارت سے الحاق کر لیا۔ اگر لشکر کشی نہ کی جاتی تو آج کشمیر کی صورت حال قطعی مختلف ہوتی۔

ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے اصغر خان کہا کرتے تھے کہ ریٹائر ہونے کے بعد صحافتی ذرائع سے ان کو پتا چلا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ایک مقام اکھنور کے قریب ٹینک جمع کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں میں نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کا وقت مانگا اور 3 ستمبر کو ہماری ملاقات ہوئی۔ میں نے جنرل ایوب خان سے پوچھا: کیا آپ نے جنگ کا فیصلہ کر لیا ہے؟

جنرل ایوب خان نے کہا کہ تم کو کس نے بتایا؟ جواباً کہا کہ بتایا کسی نے نہیں لیکن آپ نے اکھنور کے مقام پر ٹینک بھیجے ہیں اور بھارت اس کارروائی پر رد عمل پنجاب پر حملے کی صورت میں دے گا تو جنرل ایوب خان نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ چوں کہ فارن آفس نے مجھ کو یہی بریفنگ دی ہے۔ اصغر خان کا کہنا تھا کہ میرا اندازہ درست نکلا اور بھارت نے 6 ستمبر کو پنجاب پر حملہ کر دیا۔

مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھی اصغر خان کا کہنا تھا کہ اگر شیخ مجیب الرحمن کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لیا جاتا اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے اجتناب کیا جاتا تو نہ ملک دو ٹکڑے ہوتا اور نہ 1971 کی جنگ کی نوبت آتی۔ ایٹمی دھماکے کے حوالے سے بھی اصغر خان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم کے نمائندے مشاہد حسین سید نے مشورہ طلب کیا کہ ایٹمی دھماکہ کیا جائے کہ نہیں؟ تو میں نے انکار کیا اور کہا کہ پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مضبوط پاکستان بھارت کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ آپ اپنا گھر داخلی طور پر مستحکم بنائیں، فوجی اخراجات کم کریں، تعلیم کا بجٹ بڑھائیں۔ اصغر خان کارگل کے محاذ پر جنگ کا ذمہ دار بھی جنرل پرویز مشرف کو ٹھہراتے ہیں۔

اصغر خان امریکی ڈرون حملوں کو جنرل پرویز مشرف کی امریکہ کے حوالے سے اپنائی گئی غلط حکمت عملی کا شاخسانہ قرار دیتے تھے۔ اصغر خان کا کہنا تھا کہ ہر حکومت خصوصاً آمر حکومتی خرچے پورے کرنے کے لیے امریکہ کی مدد کرتے ہیں۔ اگر ہم نے امریکہ کی حمایت نہیں کرنی تو ہم کو اپنے عسکری اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ تعلیم کا بجٹ بڑھانا ہوگا، جب ہی ہم اقوام عالم کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اسامہ بن لادن کی وطن عزیز میں موجودگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے اداروں کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم نہیں تھا تو ہونا چاہیے تھا۔ ایبٹ آپریشن پر ان کہنا تھا کہ ہماری فورسز کو آپریشن کا علم بھی ہوتا تو ہم امریکی فضائیہ کے آپریشن کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

اصغر خان کا تعلق آفریدی قبیلے سے تھا۔ قبائلی علاقوں کے پاکستان میں انضمام کے حوالے سے اصغر خان کا نقطہ نظر تھا کہ قبائلی علاقے قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان میں ضم ہو جانے چاہیئیں تھے۔ اصغر خان فوجی اخراجات میں کمی اور تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافے کے متمنی تھے۔ اصغر خان میران شاہ، بنوں اور جنڈولہ میں یونیورسٹی کے قیام کے خواہاں تھے۔ اصغر خان کہتے تھے کہ کبھی نہ کبھی وہ وقت ضرور آئے گا کہ ہم ایک قوم بن جائیں گے۔

پاکستانی قوم کے بارے میں ان کا نقطہ نظر تھا کہ ہم اب تک ایک قوم نہیں بن سکے ہیں۔ قومیں سو دو سو سال میں جا کر بنتی ہیں۔ ریاست کی ناکامی پر اصغر خان قومی سطح پر مکالمے اور بحث کو مفید جانتے تھے۔ کیا ہم بحیثیت قوم کسی ایسے مکالمے یا بحث کے لیے تیار ہیں؟ تو فی الحال اس کا جواب نفی میں ہے۔ اصغر خان کی عسکری و سیاسی زندگی پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں۔

اصغر خان کا سیاسی سفر گو کہ نا کامیوں سے عبارت ہے لیکن زندگی کے آخری برسوں میں میں ان کی شدید خواہش تھی کہ عمران خان اقتدار سنبھالیں، چونکہ وہ عمران خان کو زیر عتاب قوم کا نجات دہندہ تصور کرتے تھے۔ اصغر خان کی وفات کے بعد ان کی خواہش کی تکمیل تو ہو گئی۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وزیر اعظم عمران خان، اصغر خان کی توقعات پر پورا اترتے ہیں کہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).