تین تین بیٹوں کی بے یار و مددگار بوڑھی ماں


کبھی کبھی جن سوالوں کی تلاش میں انسان اپنی ساری زندگی گزار دیتا ہے تو کبھی اُن کے جواب اچانک ڈھونڈے بغیر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کے اپنے پسندیدہ سفر لاہور سے دوحہ جانے والی کونیکٹڈ فلائٹ میں کھڑکی کے باہر ایک طرف رات اور دوسری طرف سورج سے نکلتی کرنوں سے محظوظ ہوتے ہوئے اچانک مجھے کسی کی سسکیوں کی آواز نے چونکا دیا مڑ کے دیکھا تو لگ بھگ 55، 60 سال کی خاتون زاروقطار رو رہی تھیں اپنی عادت سے مجبور ہمیں کچھ نہ سوجھا تو اپنے ہینڈ بیگ میں سے ایک ٹشو نکال کے انھیں تھما دیا۔

وہیں سے پھر ہماری گفتگو کا آغاز ہوا خاتون نہایت غصے اور غم کا شکار تھیں۔ میری ماں کہتی اور زار و قطار رونے لگ جاتی۔ ہمارا دل بیٹھ جاتا اور ہم اپنے آنسوؤں کا گولہ پھر سے آنکھو ں میں واپس دکھیل کے ایک اور ٹشو تمھا دیتے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ یہی سلسلہ جاری رہا جس کے بعد کی گفتگو آپ کے سامنے حاضر ہے۔ ”میری ماں آج تین تین بیٹوں کی بوڑھی ماں بے یار و مددگار بستر پر لیٹی ہے۔ اور کسی بھی بیٹے کے پاس وقت نہیں ماں کے لئے۔

کوئی ایک بھائی بھی اُنہیں رکھ کر راضی نہیں تماشا بنا دیا میری بوڑھی ماں کا ایک بھائی چار دن رکھتا دوسرے کے گھر چھوڑ آتا دوسرا چار دن رکھتا تیسرے کے گھر چھوڑ آتا۔ ماں بوڑھی جان لاوارثوں کی طرح بہوؤں کی باتیں سن کر روتی رہتی جو بکتے جھکتے تین وقت کا کھانا آگے رکھ کر بھاگ جاتیں۔ بیٹا یہ لوگ تو انہیں کب کا اولڈ ہاوس بھیج دیتے لیکن شرم و عزت آگئے آجاتی ہے کہ دنیا کیا کہے گی کہ بوڑھی ماں گھر سے نکال دی؟

اس کے بعد خاتون نے ایک لمبی سرد آہ بھر کر اللہ سے معافی مانگی اور دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا ”یہ تھے میرے ماں کے تین تین بیٹے جنہیں اس نے اتنی تکلیفوں سے پیدا کیا راتیں جاگ جاگ کر پالا۔ اُف تک نہ کی اور آج ان تینوں سے ایک ماں نہیں سنبھالی جا رہی۔ خیر ہم نے ایک اور ٹشو آگے بڑھایا اور نرمی سے کہا فکر مت کیجئے اب آپ جارہی ہیں نا اپنی والدہ کی خوب خدمت کیجئے گا۔ خاتون توسف سے نا میں سر ہلا کر بولی کہ بیٹا میں تو پاکستان جارہی ہوں اماں جی تو انگلینڈ رہتی ہیں دراصل ہماری ساری فیملی ہی انگلینڈ ہے۔

میری ماں، بھائی شوھر سب لوگ بہت عرصہ سے ادھر ہی رہائش پذیر ہیں۔ خاتون نے تو ہمیں حیران کردیا ہے حیرت کے ان ہچکولوں سے سنبھلتے ہوئی ہم نے ڈھٹائی سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کی والدہ آپ کے گھر نہیں آتیں؟ تاکۂ آپ کو بھی خدمت کا موقع ملے۔ اور آپ پاکستان خیریت سے جا رہی؟ مسکراتے ہوئے جواب آیا وہ تو بہت خوشی سے میرے پاس آتی ہیں لیکن بیٹا میری اپنی بھی مجبوریاں ہیں۔ اماں جی کا کام ہی اتنا ہوتا واش روم لے کر جانا، کھلانا، نہلانا اوپر سے بڑھاپا ایک بات بار بار کرتے جاتی ہیں میرا تو سر پھٹنے والا ہو جاتا ان کے کاموں میں ہی سارا دن گزر جاتا نہ میں کہیں آ جا سکتی ہوں نہ کسی سے مل سکتی ہوں میرے بس کی بات نہیں یہ اور مجھے تو خود سال میں دوبارلازمی پاکستان جانا ہوتا ہے اپنا ملک ہے نا وہاں جا کر رہنا کسے اچھا نہں لگتا؟

اوربیٹا جس ماں کی تین تین بیٹے ہوں وہ کیوں بیٹی کے گھر پر پڑی رہے؟ آج کل کی لڑکیاں تو خدا کی پناہ! اسلام کا سہارا لیتی کہ اسلام میں تو ہے ہی نہیں ساس سسر کی خدمت۔ بھلا اُن سے کوئی پوچھے کہ شوہر تو کام پر چلا جاتا ہے اب سارا دن گھر میں ماں باپ کے گھٹنے سے لگ کے تو بیٹھ نہں سکتا اگر تین وقت کا کھانا دے دی گی تو گھسنے لگی؟ آج اگر ہر لڑکی شوہر کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ سمجھے تو کوئی بھی بے سہارا نہ ہو۔

اس بات پر ہم نے اثبات میں سر ہلا کر منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا۔ کیونکہ اس دنیا میں سب کچھ بتایا جاسکتا ہے لیکن کسی کے جذبات کو کیسے محسوس کیا جاتایہ کیسے سکھایا جائے؟ کیا اس عمر میں ماں باپ کو تین وقت کی روٹی ہی چاہیے ہوتی؟ یہ تو سائنس بھی کہتی ہے کہ انسان بڑھاپے میں پھر بچہ بن جاتا ہے تو کیا اسے اس تین وقت کی روٹی کے علاوہ محبت پیار و پرواہ کی ضرورت نہیں؟ کیا خون کے رشتے کی کمی کا متبادل خون کا رشتہ ہی نہیں؟

اور اگر خونی رشتے ہی مجبوریوں کی آڑ میں ہاتھ کھینچ لیں تو تیسرے بندے سے کیا امید کی جائے؟ اور آخری سوال جو شاید ہم ان سے پوچھ ہی لیتے اگر خاتون ہماری ماں کی عمر کی نہ ہوتی کہ اگر آپ کی والدہ نے تین تین بیٹوں کو تکلیف سے پیدا کیا اور پالا تو آپ کو کیا ڈاؤن لوڈ کیا تھا؟ اس لمحے جن سوالات کا جواب ہم 25 سال خاک چھانتے ڈھونڈتے رہے وہ اچانک ہمیں کئی ہزار فٹ کی بلندی پر مل گئے۔ تب پہلی بار ہمیں معاشرے کی سمجھ آنے لگی۔

یہ احساس ہوا کہ ساری زندگی ہم تین بہنوں کا سن کر لوگ ہمارے ماں باپ سے اظہار افسوس کیوں کرتے تھے۔ کچھ ڈھکے چھپے الفاظ میں مشکلیں آسان ہونے کی دعا دیتے تو کچھ جلد از بوجھ اتارنے کی اُمیددکھا دیتے۔ ہمیں اس عورت سے ہمدردی ہونے لگی جس سے بلاوجہ ہم نے 20 سال نفرت کی جب میں 4 سال کی تھی تو اپنے بھائی کی پیدائش پر سرخ لہنگا پہنے لوگوں کے گھروں میں لڈو تقسیم کرنے گئی تو ایک عورت تعصب سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی شکر ہے اللہ نے چادر ڈال دی نہیں تواس کی دفعہ تو اس کی دادی روتی دیکھتی نہیں جاتی تھی۔

اس بات کو ہم نے ایسا دل پر لیا کہ دل چاہا لڈوؤں کی تھال پر پڑے سرخ رومال کو کھینچیں اوراس میں منہ چھپا کر روتے ہوئے کہیں دوربھاگ جائیں اور کبھی بھی اپنے پیدائش پر رونے والوں کو پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ ہمیں پہلی بار اپنی دادی پر پیارآنے لگا وہ ان پڑھ ضرورتھی لیکن ماں کی ممتا سے مجبورتھی۔ جانتی تھی کہ میرے بیٹے کا سہارایہ تین تین بیٹیاں کبھی بھی نہیں بنیں گی۔ دل چاہا واقعی دادی زندہ ہو تو جاکر ہاتھ چوم لو آج کل تو کوئی دو دن کسی کو گھر میں رکھنے پر آمادہ نہیں۔

اوروہ کیسی عظیم عورت تھی اس نے صبر کیا چاہے رو رہو کر ہی کیا۔ تب کہیں جا کر ہمیں اُس سیانے کی مشہور بات بھی سمجھ میں آہی گئی کہ عورت کی عقل ٹخنوں میں ہوتی ہے اور بالآخر ہم نے ہتھیار پھینک ہی دیے اور یہ مان لیا کہ عورت واقعی بے وقوف ہے۔ جس محبت کو قدرت نے اس کے اندرسمودیا وہ اسے ذمہ داریوں کے غلاف میں لپیٹ کر اپنا بوجھ کسی دوسری عورت کے کندھوں پر ڈال کرکسی اور کی ذمہ داریوں کا ٹو کرا اٹھائے۔ ”بابُل بھی روئے بیٹی بھی روئے“ گاتی ہوئی مظلومیت کی تصویر بنتی دکھائی دی۔

معاشرے کے ان دوہرے رویوں کا اندازہ تو ہمیں اس چار سال کی عمر میں ہونے والے اس واقعہ سے تھا ہی لیکن اس رات عورت کے دوہرے رویوں کا بھی بخوبی اندازہ ہواجو ہر بات میں اکیسویں صدی کا نعرہ لگاتی رہی جس نے ساری عمر تو معاشرے کی اس غیر مساوانہ تقسیم کے خلاف لڑتے گزار دی لیکن دوسری طرف وہی بنتِ حوا مساوی ذمہ داروں کی دفعہ معاشرے کی بے مقصد روایتوں، مجبوریوں اور کسی حد تک اپنی کوتاہیوں کی اوٹ میں منہ سر چھپائے بھاگتی نظر آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).