شاعروں کا کلام اور عوام کی کشیدہ کاری


دنیائے ادب اور موسیقی میں بے شمار شاہکا ر ایسے ہیں جو قاری یا سامع تک موجودہ شکل میں تغیر ات کی مسافتیں طے کرتے پہنچے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی شعر کا پتھر پہ لکیر کی مانند سلامت رہنا ممکن نہیں۔ بہت سے مثالیں ملتی ہیں کہ اردو کے اساتذہ نے لکھا کچھ مگر عوام نے بنا کچھ دیا۔ بعض مواقع پہ تو اصل مصرعے سے بھی جاندار مصرع متعارف ہوگیا۔ جیسے کہ کسی تخلیق کار کو داد دیتے وقت یہ مشہور زمانہ مصرع کہا اور لکھا جاتا ہے۔ ”اللہ کرے زور قلم اور زیادہ“۔ مگر داغ کا مکمل شعر کچھ یوں ملا

خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی

اللہ کرے حسن رقم او ر زیادہ

اسی طرح مومن کا مصرع ”شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو“ بھی شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو، میں بدل گیا۔ تاہم ماننا ہوگا کہ مومن کی چمک سے عوامی لپک زیادہ پر کشش ہے۔ پھر ہم سنتے آئے ہیں کہ ”اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا“۔ مگر میر طاہر کا اصل شعر بھی ملاحظہ ہو،

مکتب عشق کے دستور نرالے دیکھے

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

یقینا شاعر کو ردیف کی پاپندی کا مسئلہ ہوگا۔ بات ردیف کی چلی تو یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عوامی اصلاح کاروں نے غالب جیسے شاعر کی بھی اصلاح کردی۔ ان کی مشہور غزل، آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک، کے ساتھ تو ہاتھ ہی ہو گیا۔ انیسویں صدی تک ان کے پانچ دیوانوں میں غزل کا ردیف ”ہوتے تک“ رہا مگر بیسویں صد ی میں چھٹا دیوان چھپا تو اس میں یہ ردیف ”ہونے تک“ ہو گیا۔ قائم چاند پوری کا شعر سنیئے

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند۔

کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

لوگوں نے یوں پڑھنا مناسب جانا، قسمت کی خوبی دیکھئے، ٹوٹی کہاں کمند۔ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا۔

اسی طرح سبط علی صبا نے لکھا:

دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لئے۔

اب عوام کو خستہ مکان کی جگہ کچے مکان بہتر لگا، سو لگا دیا۔ یہ مصرع تو یقینا آپ نے سنا ہوگا،

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے۔ اس شعر کے شاعر کا علم شاید ہی کسی کو ہو۔ دہلی کے اک مشاعرے میں میر درد اور سودا کی موجودگی میں بارہ سالہ شاعر پنڈت مہتاب رائے طبن نے اپنی غزل کا مطلع ان الفاظ میں پڑھا،

شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

محفل تو عش عش کر ہی اٹھی پر رفیع سودا تو یہاں تک کہہ بیٹھے کہ صاحبزادے جواں ہوتے نظر نہیں آتے ہو۔ اور واقعی مہتاب رائے طبن صرف تیرہ برس کی عمر میں آگ میں جل کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے شعر کے پہلے مصرعے میں تبدیلی ہوئی جسے 1954 میں شیلندرا نے فلم ”پریچے“ کے گیت کے انترے میں استعمال کیا۔

بر صغیر کی فلمی دنیا میں بڑے بڑے نغمہ نگاروں نے پرانے مشاہیر کے مطلعوں یا غزل کے کسی مصرعے کو اپنے نغمات میں کچھ ایسی خوبی سے سمویا کہ وہ گیت انہیں کے ہی نام سے امر ہو گئے۔ بعض اشعار کے الفاظ اور قوافی بدلے گئے تو کچھ کسی اور تخلیق کار کے نام سے منسوب سمجھ لئے گئے۔ 40 کی دہائی کی فلم ”میلہ“ کا مشہور گیت، یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ 18 ویں صدی میں فیض آباد کے شاعر مرزا محمدتقی نے یہ مصرعے باندھے،

دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز وہ کم نہ ہوں گے

چرچے یہی رہیں گے افسوس ہم نہ ہوں گے

شکیل بدایونی نے اس مطلع کو اپنے شاہکار گیت ”یہ زندگی کے میلے“ کا حصہ بنایا۔ مجروح سلطان پوری نے 1969 ء میں فلم چراغ میں فیض کی غزل ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ سے مصرعہ اٹھایا اور گیت ”تیری انکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے“ تخلیق کر لیا۔ اس طرح گلزار نے 1975 ء میں فلم موسم کے لئے غالب کی مشہور غزل کے شعر ”دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن“ سے خوبصورت گیت بنا لیا۔ جسے بھوپندرا اور لتا نے گایا۔

1971 ء میں فلم ”لیلیٰ مجنوں“ کا گیت ”کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو“ بڑا ہٹ ہوا۔ نغمہ نگار ساحر لد ہیانوی نے کمال مہارت سے اس گیت کی لڑیوں میں موتی پروئے۔ اس گیت کی تاریخ یوں ہے کہ لکھنو کے اک گمنام صوفی شاعر نے کچھ ایسے شعر لکھا،

شہر میں اپنے ہی لیلیٰ نے منادی کر دی

کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

فلم اک دوجے کے لئے میں آنند بخشی نے ”عشق پر زور نہیں غالب نے کہا ہے اس لیے“ نغمہ لکھا اور داد تحسین حاصل کی۔ مرزا غالب کے شاگرد میاں داد خان سیاح کے اس شعر نے کافی شہرت پائی ”قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو“

اس کے قوافی میں قدرے تبدیلی سے ایک فلم میں دھرمیندر وغیرہ پہ یوں پکچرائز ہوا ”خوب جمے گا رنگ جب مل بیٹھیں گے تین یار“

یمین الدین المعروف حضرت امیر خسرو کے اس کلام سے تو سبھی واقف ہوں گے، ۔ ”ز حال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں“

مشہور نغمہ نگار گلزار نے فلم غلامی میں اس کلام کو اپنے انداز میں لکھ کر اس کی خوب صورتی میں کچھ ایسے اضافہ کیا۔ ”

ز حال مسکیں مکن بہ رنجش بہ حال ہجراں بیچارہ دل ہے

سنائی دیتی ہے جس کی دھڑکن ہمارا دل یا تمہارا دل ہے

بعض ناقدین اقبال کے شعر، پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر، کو بھرتری ہری کی تخلیق مانتے ہیں مگر تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ بھرتری ہری ساتویں صدی عیسوی کا ہندو شاعر اور فلسفی تھا جب اردو اس شکل میں تھی ہی نہیں۔ البتہ مانا جا سکتا ہے کہ اس کے کسی قول یا شعر کو اقبال نے اپنے الفاظ میں لکھ کر بال جبریل کے آغاز میں درج کیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).