چھوٹے عمران خان زوہیر طورو کا نیا پاکستان


زوہیر طورو کو کون کون جانتا ہے؟ ”انقلاب! اگر ہماری پولیس ہمیں ڈنڈے مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔ ہم گرمی میں تباہ ہو گئے ہیں! “ جی یہی والا زوہیر طورو۔ زوہیر طورو بیچارہ اسلام آباد کا ایک برگر بچہ تھا۔ وہ انقلاب کے مزاحیہ تصورات رکھتا تھا۔ وہ تحریک انصاف کا رکن تھا اور اب تحریک انصاف حکمران ہے۔ یعنی یہ دراصل زوہیر طورو کا پاکستان ہے۔

مگر زوہیر طورو کا پاکستان ہے کیا؟ دراصل بدقسمتی سے پاکستان ہمیشہ سے ہی مختلف قوتوں کے ہاتھوں میں یرغمال رہا ہے۔ لیاقت علی خان صاحب اور ان کے بعد کی جمہوری حکومتیں ساری ہی بغیر کسی بھی سوچ و فکر کی حکومتیں تھیں۔ پھر ایوب خان صاحب فوجی وردی میں آ کر تخت پر براجمان ہوئے اور عدلیہ ان کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔ ان کی اقتدار میں آمد کے دن کو ان کے دس سالہ دور حکومت میں ”یوم انقلاب“ کے طور پر منایا جاتا تھا۔

بھٹو صاحب جو ایوب خان کو ڈیڈی ڈیڈی کہا کرتے تھے، بھی خود کو انقلابی قرار دیا کرتے تھے۔ پھر ضیاء الحق نمودار ہوئے تو وہ بھی ایک نوع کا اسلامی انقلاب ہی لے آئے پھر جو جو آیا اسے انقلاب لفظ کو بربنائے فلرٹ برتنے کی خارش ضرور رہی۔ الطاف حسین بھی خود کو انقلابی گردانتے تھے، باچا خان بھی یہاں انقلابی کہلائے، جی ایم سید بھی انقلابی قرار پائے بلکہ پلیجو صاحب بھی انقلابی کا خطاب موت کے بعد لے ہی گئے۔

ایک زمانے میں جیسے ہر پڑھا لکھا شخص ”مولانا“ بن جایا کرتا اور اپنے نام میں باقاعدہ یہ اضافہ کر لیتا، ویسے ہی اب ہر کوئی ہی انقلابی بنا ہوا ہے۔

اس دوڑ میں میدان سیاست میں سب سے آگے عمران خان صاحب ہیں مگر ان کا شاندار انقلاب ملک میں کس طرح جلوہ گر ہوا ہے؟

آج اس ملک میں ہر شخص پریشان ہے۔ خان صاحب اور ان کے ”ڈیڈی“ صاحب کے احکام پر پچھلے 70 سالوں کی تجاوزات گرائی جا رہی ہیں۔ لاکھوں گھرانے اس مہم کی زد میں آ کر فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے۔ ہر طرف سے نیب، نیب کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ٹی وی کھولئے تو صرف بلڈوزر اور شاول ہی نظر آتے ہیں یا پھر بلڈوزر جیسا کسی نیب کے ملازم کا چہرہ۔ اس انقلاب کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ ماضی میں کی گئی ہر نوع کی بدعنوانی اور ہر غلطی کو اکھاڑ ڈالا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن بھی ہے؟ کیا پہلے سے ابتر معاشی حالت یوں کروڑوں افراد کو بے روزگار کر دینے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کروڑوں افراد کو گھر توڑ کر بے گھر کر دیا جائے؟

پھر عمران خان صاحب اور ان کے ”ڈیڈی“ ہر نوع کے سیاسی مخالف پر آرٹیکل 6 لگا دینا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں جہاں پر ڈیم بنا کر سندھ کا پانی ہمیشہ روکا گیا ہے، کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر ڈیم بنانے کے خلاف کسی نے ایک لفظ بولا تو اس پر غداری کا مقدمہ بنے گا۔ ان سنگین حالات میں عدالتیں انتہائی حساس اور جذباتی معاملے پر فیصلہ بھی سناتی ہیں اور عوام سے احتجاج کا حق بھی چھین لیتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ سب وہ حکومت کر رہی ہے جو ایک زمانے تک اسلام آباد میں دھرنا دے کر ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے جو اپنے دھرنے میں بجلی کے بل جلایا کرتے تھے۔

بدقسمتی سے پاکستان موجودہ انتخابات سے ویسے ہی دور میں داخل ہو گیا ہے جیسے یحییٰ دور میں پاکستان 1971 ء کے انتخابات سے پہنچا تھا۔ پھر مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا تھا اور مغربی پاکستان کو بھٹو کا عذاب سہنا پڑا تھا۔ اس زوہیر طورو کے انقلاب کی دھول جب بیٹھے گی تو نہ جانے ہم کیا کیا کھو چکے ہوں گے اور نہ جانے ہمارے پاس بچے گا کیا؟ زوہیر طورو کا انقلاب تو بڑی بھیانک شے ہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).