بدنیت، حاسد اور لالچی مرد


اس کے ماموں اس کا رشتہ وہاں نہیں کرنا چاہتے کہ وہ لڑکا کنسٹرکشن کا بزنس کرتا ہے جبکہ خود اس کے ماموں بھی یہی کام کرتے ہیں وجہ یہ کی یتیم بھانجی سٹیٹس میں ان کے مطابق آگئی تو پھر ان کی کون سننے گا۔

وہ تین بھائیوں کی ایک بہن ہے اس کے بھائی نے ماسٹرز کے بعد آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ بھائی کے ایک دوست نے کہہ دیا تھا کے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی کو رشتہ مشکل سے ملتا ہے جبکہ اس کے بھائی خود جرمنی میں پی ایچ ڈی کر کے ہچھلے سے دس سال سے اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ وہیں مقیم ہیں۔

ان کے بھائی نے ان کی جاب زبردستی چھڑوا دی کہ ان کی بہن ان جتنا کما رہی تھی اور وجہ یہ دی کہ تمہاری اتنی نوکری کر کے جمع کرکے کیا فائدہ ہے خود پہ کچھ نہیں لگاتی۔ آج ان کے بھائی خود یورپ میں مقیم ہیں اور وہ خود اپنی ساری زندگی اسی طرح محتاج رہی کبھی کسی سے مانگ کبھی کسی سے۔

اُن کے شوہر نے سفارش کروا کے جاب سے نکلوا دیا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کی کمائی کھاتا ہے تو تاکہ وہ گھر پر بیٹھ جائے کسی کو نظر نہ آئے کے میکہ سے کتنا آتا ہے کیونکہ خود خرچے کے نام پر گھر کے کرائے کے بعد کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا اور کیا فرق پڑتا ہے ناک اُونچی رہے، بیوِ ی کی کمائی کا طعنہ نہ ملے کہ بیوی نوکری کرتی ہے گھر چلاتی ہے۔ کچھ وقت پہلے بیٹی کی شادی پہ ایک روپیہ نہیں لگایا، ہاں مگر نکاح نامہ پہ سارے خانے کٹوائے لازمی، اور بیٹی کی تصاویر جوکہ کپل فوٹوشوٹ تھا، اُس پہ خاندان بھر میں مشہور یہ کیا کہ کنجری نے اس طرح تصاویر بنوائی ہیں۔

اُس کے ابو تب چھوڑ گئے تھے جب وہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھی اس کے دو بھائی تھے اس کی ماں نے نوکری کی بینک میں، بچوں کو پڑھایا لکھایا اب وہ خود اسلام آباد میں اچھی پوسٹ پر جاب کررہی ہے تو باپ کی محبت اولاد کے لئے جاگ گئی۔

وہ آٹھ ماہ کی تھی بیمار، باپ ہسپتال لے کر نہیں گیا، مجبوراً ماں کو اُس کی نانی کو بلانا پڑا۔ پھر دوبارہ باپ کی شکل نہیں دیکھی۔ جب وہ چھ سال کی تھی تب ماں کی فوت ہوگی۔ میٹرک کے امتحان کے لیے برتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی، باپ سے کہا گیا، اور اُس نے اپنا نام دینے سا انکار کر دیا۔ اُس کے ماموں کا نام ہے اُس کے برتھ سرٹیفکیٹ پہ۔ آج وہ اسلام آباد کی ایک یونیورسیٹی سے ٹیکسٹائل میں گریجویشن کر چکی ہے۔

اُن کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ماں مر گئی تھی، باپ نے دوسری شادی کی۔ چودہ برس کی تھی کہ باپ بھی نہیں رہا دوسری ماں نے ایک شخص سے شادی کی۔ تین بیٹیاں پیدا ہوئے اس کے شوہر نے بھی دوسری شادی کرلی۔ اتفاقاً قدرت کی مرضی تھی کہ بیٹا نہ ہوا اور دوسری بیوِی سے بھی دو بیٹیاں ہیں۔ چونکہ گھر چلانا تھا تو اُن خاتون نے پارلر کا کام سیکھ کر پارلر بنالیا اپنا کام کر رہی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہی اُن خاتون کو طلاق بھی دے دی گئی مگر آج بھی وہ شخص انہیں کی کمائی کھانے کے لئے ساتھ رہتا ہے روز مارتا ہے۔ گھر کی تلاشی، بچیوں پہ ظلم کرتا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ میکہ کے نام پہ سوتیلے رشتے ہیں کوئی ساتھ نہیں اور کسی سے کہہ نہیں سکتی کیونکہ اس معاشرے میں اگر وہ سر اٹھا کے یہ بات کہی کہ تو اس اکیلی عورت کو نوچنے والے اور قصاب نکل آئیں گے۔

اُن کا شوہر تب چھوڑ گیا جب ان کا چھوٹا بیٹا سے ایک سال کا تھا کہ بچوں کو پالنے کے لئے انہوں نے بہت محنت کی ہے وہ شخص اس وقت بھی گوجرانوالہ کے کئی مربے زمین کا مالک ہے جب ساری اولاد انجینئر ڈاکٹر بن گئی تو انہیں اپنی اولاد یاد آگئی۔ بیٹی سے ملاقات کے وقت یاد آیا کے جب وہ سکول گئی تھی تب اُنہوں نے اُس کی فیس دیی تھی۔ تو وہ اب واپس لوٹا دے، کیونکہ اب اُن کی بیٹی ایک قابل سرجن ہیں امریکہ میں۔

ان کے شوہر کی تیسری شادی تھی اُن سے پہلی دو بیویوں سے دو بیٹیاں ہیں۔ اُن سے مزید دو بیٹیاں ہوئیں۔ پچھلے چھ سال سے وہ اپنی بیوی سے الگ کمرے میں ریتے ہیں جہاں بیٹیوں کو بھی اجازت نہیں کے اُن کی عبادت میں خلل پڑتا ہے۔ کمائی کے نام پہ کوئی ذمہ داری اُن کا فرض نہیں سوائے عبادت کے فرض کے۔ بیوی سے جو بن پڑتا ہے کرتی ہیں۔ ایک دفعہ طلاق بھی دے چکے، ہاں مگر کھانا کھانے کے لیے خود آتے ہیں باورچی خانے میں کے کہیں بیوی کھانا کم نہ ڈال کر دے۔ دال کی موجودگی میں برتن توڑے جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے اُن کے اپنے لیے لائے گے پھل مین سے ان کی دس سال کی بیٹی نے ایک آڑو کھا لیا۔ چونکہ پھل فریج میں تھا اور گنتی معلوم تھی، اس لیے کمی کے صورت میں بدعا دی گئی کہ جس نے کھایا ہے اُسے کینسر ہو۔

ایسے بہت سے کردار روز ملتے ہیں۔
سوال یہ ہے کے ایسے نفسیاتی کردار کے لیے آواز کوئی اُٹھائے کیسے؟ آواز جب جب اور اٹھائی جاتی ہے خاندان کی نام نہاد عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بقول مصطفی زیدی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

میں کہتی ہوں :
یہاں نہ کوئی قاتل ہے نہ مقتول ہم
سب کے ہاتھ اپنے ہی خون سے رنگے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).