توسیع پسندی اور جنرل صاحب کا خوش آئند بیان


\"wajahat\"آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق پاکستان فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے چھ جولائی کو فرمایا کہ پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ ایک تاریخ ساز اعلان ہے۔ عالمی حالات کا مشاہدہ کرنے والے اس اعلان کے عملی نتائج پر نظر رکھنا چاہیں گے لیکن تاریخ کے طالب علموں کے لئے جنرل صاحب کا اعلان ایک بیان سے زیادہ ایک اصولی بیانیے کی توثیق ہے۔ چار دہائیوں پر پھیلی ایک اجتماعی کج روی سے رجوع کرنے کا اشارہ ہے۔ پلٹ رہے ہیں غریب الوطن، پلٹنا تھا…. ٹھیک چالیس برس پہلے پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ کابل میں سردار داو¿د کے کچھ مخالف گروہوں کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میں وفاق اور صوبوں کی سیاست کے کچھ قصے تھے، قوم پرستی کے الجھے ہوئے دھاگے تھے، سرد جنگ کے ذیلی منظر تھے، عراق کا سفارت خانہ تھا۔ نصیراللہ بابر صاحب تھے اور ایک گمنام بریگیڈئر صاحب تھے۔ فرزین سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ….

ہماری نسل نوجوانی کی ابتدائی منزلوں میں تھی اور ہمارے اساتذہ سکم اور بھوٹان کی مثالیں دے کر ہمیں سمجھاتے تھے کہ ہمسایہ ملک توسیع پسند ہے۔ چھوٹی قوموں کی خودمختاری کو پامال کرنا چاہتا ہے۔ہمسایہ ملکوں کو اپنے مفادات کا آلہ کار بنانا چاہتا ہے۔ ہم نے استاد محترم کی بات پلے باندھ لی اور یہ سمجھ لیا کہ توسیع پسندی ایک نامناسب رویہ ہے۔ ہم البتہ یہ نہیں جانتے تھے کہ توسیع پسندی محض دوسری قوموں کو ہڑپ کرنے کا نام نہیں ہے توسیع پسندی فرد کی نفسیات اور گروہی ترجیحات سے تعلق رکھتی ہے۔ بیان میں جہاں مشکل پیش آئے، غالب کام آتا ہے۔ فرد کی آرزو مندی کو لفظ دیتے ہوئے اسداللہ خان نے لکھا، پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے…. غالب استاد تھے، قطرے میں دجلہ دیکھتے تھے اور دکھانے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ اسی اجمال کو کچھ تفصیل دی اور لکھا، سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی، بن گیا سطح آب پر کائی…. تو نتیجہ یہ نکلا کہ موج کو اپنے کناروں سے باہر روانی کی خواہش زنجیر ہو جائے تو تباہی ارد گرد ہی نہیں پھیلتی، اپنے گھاٹ پر بھی کائی جم جاتی ہے۔عفونت جنم لیتی ہے، بیماری پھیل جاتی ہے۔ توسیع پسندی سے پناہ مانگنی چاہئے۔

انسانی تاریخ پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں، توسیع پسندی کشور کشائی کا روپ اختیار کرتی ہے۔ انسانوں کو غلام قرار دیتی ہے۔ خیال پر جبر بنتی ہے، اختیار پہ اجارہ بنتی ہے، انگنت گمنام چہروں کے استحصال سے مٹھی بھر کے لئے مراعات کی ضمانت قرار پاتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام توسیع پسندی کا شاخسانہ تھا۔ سلطنتوں کا عروج و زوال توسیع پسندی کا جوار بھاٹا تھا۔ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں توسیع پسندی کے نام پر لڑی گئیں۔ توسیع پسندی کے اس تصور میں ناگزیر طور سے کچھ دوسرے اصول ضابطے منسلک ہوتے ہیں۔ توسیع کے لئے ضروری ہے کہ کچھ افراد کو غیر معمولی تسلیم کیا جائے۔ کچھ گروہوں کو خصوصی درجہ دیا جائے۔ کچھ تہذیبوں کو برتر قرار دیا جائے۔ کچھ نسلوں کے شجرے کو تقدیس کے پانی میں غسل دیا جائے۔ کچھ ثقافتوں کو پسماندہ قرار دیا جائے اور ایک اہم نکتہ یہ کہ توسیع کی موجودہ صورتوں کو ازلی قرار دیا جائے۔ صاحب اقتدار کے اقبال کو ابدی قرار دیا جائے۔ اقتدار کے انتقال پر غور و فکر کو منحوس سمجھا جائے۔ جب صاحب اقتدار رخصت ہو تو بے یقینی کے ایک وقفے کے بعد اعلان کیا جائے، بادشاہ مرگیا، بادشاہ زندہ باد!

توسیع پسندی کے لئے ضروری ہے کہ جغرافیے کو فتوحات کا ایک لامحدود سلسلہ قرار دیا جائے اور فرد کو ایک ایسا ستارہ جس کی روشنی کبھی ماند نہیں ہوگی۔ اس کی مثالیں تاریخ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور خود ہماری سات دہاہیوں کی تقویم بھی کچھ ایسی تہی دست نہیں۔ توسیع پسندی میں ایک بڑی غلط فہمی یہ لاحق ہوتی ہے کہ لمحہ موجود کی چکا چوند میں یہ خیال نہیں رہتا کہ توسیع کی حدود بہرحال موجود ہیں۔ اور توسیع کی حرکیات کا جبر ناگزیر ہے۔ جرمنوں کا برق رفتار کوندا ایک طرف بلجیم، ہالینڈ اور فرانس اوردوسری طرف پولینڈ وغیرہ کو کچلتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو راستے میں کہیں نہ کہیں ماسکو کا میٹرو اسٹیشن آتا ہے۔ جاپان منچوریا تک پہنچ جاتا ہے۔ جرمن توسیع پسند کہتے تھے کہ ہمیں جینے کے لئے زیادہ جگہ چاہئے، ہم آریہ نسل ہیں اور حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کی زمینیں ہمارے لئے اناج اگائیں۔ تاحد نظر تک پھیلے مال مویشی ہمیں دودھ اور مکھن فراہم کریں۔عقوبت خانوں کا ایک وسیع جال بچھایا جائے۔۔منتخب مقامات کو چھوڑ کر روشنی گل کر دی جائے۔ جاپان کے دانشور لکھتے تھے کہ چین کی کلبلاتی بستیاں ہماری خوشحالی کا قدرتی منطقہ ہیں۔ ہند چینی میں جاپان کا ڈنکا بجنا چاہئے۔ مسولینی روم کی عظمت رفتہ کی بحالی چاہتا تھا۔ سٹالن 1812 میں ہونے والی نپولین کی یلغار سے روس کے ناقابل تسخیر ہونے کا نتیجہ اخذ کرتا تھا۔ چرچل کی ہر سانس میں برطانوی راج کی رعونت بسی تھی اور امریکہ ایک نوجوان کھلاڑی تھا جسے یہ جاننے کا یارا نہیں تھا کہ نتائج کی ریکارڈ بک میں اوسط کا اصول لاگو ہوتا ہے۔ خود اپنے ہاں دیکھئے۔ سترہ جنوری 1951 کو فوج کی کمان سنبھالنے والا چھ فٹ دو انچ قد اور 210 پونڈ وزن کا حامل جنرل پہلے 1954 میں توسیع حاصل کرتا ہے، پھر1957 میں اور پھر فیلڈ مارشل بن جاتا ہے۔ پھر فروری 1968 میں علالت آ لیتی ہے اور25 مارچ 1969 آ پہنچتا ہے۔ میعاد کی اہمیت اجتماعی دانش کا اصول قبول کرنے میں ہے۔ ادارے اس طرح مضبوط نہیں ہوتے کہ ایک چاق و چوبند، دبنگ اور بیدار ذہن اپنی غیر معمولی صلاحیت کی دھن بجاتا نکلے اور عامة الناس چیونٹیوں کی طرح قطار باندھے اس کے قدموں کے نشان دیکھتے چلیں۔

توسیع پسندی ترقی کا افقی تصور ہے اور جدیدیت ترقی کے عمودی تصور کا نام ہے۔ جغرافیائی پھیلاؤ کی حدود متعین کر دی جائیں تو طے شدہ جغرافیائی حدود میں دستیاب انسانی اور قدرتی وسائل کی قدر افزائی کا اصول بروئے کار لایا جاتا ہے۔ انسانی سرمائے میں اضافے کے لئے انسانی صلاحیت اور حقوق کی مساوات ضروری ہوتی ہے۔علم کی حدود کے لئے لامحدود کا مفروضہ تسلیم کرنا پڑتا ہے اور اپنے سے مختلف کے لئے جینے کا حق تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ یہاں اختلاف توانائی کا سرچشمہ قرار پاتا ہے۔ توسیع پسندی کی حدود ہیں، قدر افزائی کی کوئی حد نہیں ہے۔ اداروں کی توانائی اس اصول کو تسلیم کرنے میں ہے کہ بنیادی اصول ضابطوں کی پاسداری کرنے سے ہر نسل کو کامیابی کی نعمتوں میں اپنا حصہ مل سکے گا اور گزشتہ کامیابیوں کی بنیاد پرنئی چوٹیاں سر کی جاسکیں گی۔ نئی منزلیں تسخیر ہوں گی اور کارکردگی کے نئے اشاریوں پر کمند ڈالی جائے گی۔

جنرل راحیل شریف نے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں جو پالیسی بیان کی ہے، اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے جس کے بسنے والے اپنے ملک پر حکمرانی کا بدیہی حق رکھتے ہیں۔ ہم افغان بھائیوں کی صلاحیت، معاملہ فہمی پر بھروسہ رکھتے ہوئے ان کی خوشحالی کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی باقی رہے تو پاکستان محفوظ نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت دور اور نزدیک کے سب دوستوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ افقی توسیع پسندی کے دن گزر چکے ہیں۔ آج کے عہد کی تزویراتی گہرائی اصولوں کی پاسداری میں ڈھونڈنا ہو گی۔ تمام قوموں کو اپنے مفادات کے تحفظ کا حق ہے لیکن ان مفادات کی فصل ہمسائیوں کے صحن میں کاشت نہیں کی جا سکتی۔ اسی اصول کا اطلاق وطن عزیز میں بھی ہونا چاہئے۔ جغرافیائی حدود کی طرح اختیار کی حدود کا احترام بھی ضروری ہے اور توسیع کی بجائے میعاد کا اصول تسلیم کرنے سے قوم کی اخلاقی قامت بلند ہوتی ہے۔ انسانی سرمایہ ترقی کرتا ہے اور اپنی مٹی کے ہر ذرے میں ترقی کی ایک شاخ نصب کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments