یہ تو بس رونق لگانے کی تیاری


1977ء کی انتخابی مہم کے دوران ایئرمارشل اصغر خان مرحوم نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے اہم ترین رہ نمائوں میں سے ایک تھے۔ اپنی تقاریر میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’’کوہالہ کے پل‘‘ پر پھانسی پر لٹکانے کا وعدہ کرتے رہے۔

انتخابی نتائج آجانے کے بعد پاکستان قومی اتحاد کو مگر اقتدار نہیں ملا۔انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگے۔ اس کے نتیجے میں ایک تحریک چلی۔بھٹو حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگادیا۔ان کی حکومت نے بعدازاں اپریل 1979میں بھٹو کو پھانسی پر بھی چڑھادیا۔ اگرچہ یہ واقعہ کوہالہ پل پر نہیں راولپنڈی کی جیل میں ہوا تھا۔

اس پھانسی کے صرف دو سال گزرجانے کے بعد مگر اصغر خان مرحوم نے بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔1990کے انتخابات کے دوران انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر غلام مصطفیٰ جتوئی اور نواز شریف کے بنائے اسلامی جمہوری اتحاد کے خلاف لاہور سے قوی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا تھا۔

اصغر خان کے رویے میں’’بے ثباتی‘‘ کی یاد مجھے کل رات ریگولر اور سوشل میڈیا پر مچائے شور کی بدولت آئی ہے۔منگل کی سہ پہر آصف علی زرداری کی شہباز شریف کے ساتھ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف والے چیمبر میں ایک ملاقات ہوئی ہے۔ اس کے بعد میرے کئی دوستوں کو وہ دھواں دھار بیانات یاد آگئے جو بطور ’’خادم اعلیٰ‘‘ شہباز شریف ’’علی بابا اور چالیس چوروں‘‘ کے خلاف دیاکرتے تھے۔

کسی زمانے میں آج کے وزیر اعظم راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط کو اپنا چپڑاسی بھی تعینات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ چودھری پرویز الٰہی کو بھی وہ ’’ڈاکو‘‘ کہہ کر پکارتے رہے۔ یہ دونوں حضرات مگر ان دنوں ان کی حکومت کے طاقت ور ترین حلیفوں میں شامل ہیں۔

سیاست دانوں کی اصل چالاکی ہی ماضی کو فراموش کرتے ہوئے بلھے شاہ کی بتائی ’’آئی صورت‘‘ میں اپنی سہولت کے لئے پرانے دشمنوں کو دوست بنانے والی مہارت ہے۔یورپ کے ایک بہت تخلیقی لکھاری میلان کندیرا نے بہت خوب صورتی سے ایک پورا ناول لکھ کر ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ حکمران اشرافیہ عوام کی اجتماعی یادداشت کو اہمیت نہیں دیتی۔انہیں جبلی طورپر علم ہوتا ہے کہ لوگ ماضی کی باتوں کو فراموش کردیتے ہیں۔فقط حال پر توجہ مرکوز کئے رکھتے ہیں۔

سیاست دانوں کی اس ’’خوبی‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی میں نے منگل کے دن قومی اسمبلی کی عمارت میں کئی گھنٹے گزارنے کے باوجود یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت اور پیپلز پارٹی میں تعاون کی راہ نکالنے کے لئے کونسے لوگ متحرک ہیں۔ ایسے کونسے بنیادی نکات ہیں جو ان دونوں کو ماضی کی تلخیاں فراموش کرتے ہوئے چند اہداف کے حصول کے لئے متحد کرسکتے ہیں۔

میڈیا اورخاص کر اس کا ’’سوشل ‘‘ کہلاتا ورژن مگر Hypeکے لئے بہت بے چین رہتا ہے۔اسے خلقتِ شہر کو مصروف وخوش رکھنے کے لئے نت نئے فسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔Digitalدور میں وڈیو کلپس کے خزانے موجود ہیں۔ ان سے کھیلتے ہوئے روزانہ چسکہ بھری سینکڑوں کہانیاں بنائی جاسکتی ہیں۔

میرے یا آپ کے دلوں میں چسکے کے لئے موجود خواہش کی تسکین کے لئے مواد کی فراہمی سے بالاتر سیاست بنیادی طورپر اقتدار کے کھیل سے جڑا ایک سفاک دھندا ہے۔ اس کی حرکیات پر بے رحم نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی جماعت کے مابین بڑھتی ہوئی دوستی کو اس نگاہ سے دیکھیں تو منگل کے روز اپوزیشن رہ نمائوں کے درمیان ہوئی ملاقات کسی ٹھوس پیشرفت کی نشان دہی نہیں کرتی۔

بہت سے دوست کئی روز سے مسلسل یاد دلاتے جارہے ہیں کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت محض 6ووٹوں کی اکثریت سے بنائی گئی ہے۔ ایم کیو ایم اور سردار اختر مینگل پر توجہ دی جائے تو وزیر اعظم کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا جاسکتا ہے۔

کتابی اعتبار سے یہ دعویٰ ٹھوس اعدادوشمار کی روشنی میں بہت منطقی سنائی دیتا ہے۔ سوال مگر یہ اٹھانا بھی ضروری ہے کہ آیا شہباز شریف اور آصف علی زرداری واقعتا عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کروانا چاہ رہے ہیں۔ میرا جواب نفی میں ہے۔ اگر آپ میری رائے سے اتفاق کرتے ہیں تو نواز شریف کی جماعت اور پیپلز پارٹی میں بڑھتی ہوئی دوستی فی الوقت تخت یا تختہ والا ماحول بناتی نظر نہیں آئے گی۔

موجودہ حکومت کے شدید ترین مخالفین کے دلوں میں ذرا غور سے جھانکیں تو آپ کو یہ دریافت کرنے میں دقت محسوس نہیں ہوگی کہ وہ سب اس حکومت کے ’’اپنے ہی بوجھ تلے‘‘ دب کر فارغ ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

امید بھرا انتظار سیاسی اعتبار سے کوئی ’’ٹھوس‘‘ حکمت عملی نہیں ہوتی۔ محض انتظار ہی ہوتا ہے۔ انتظار کی لت میں مبتلا ہوئی اپوزیشن سے محض ایک ووٹ کی اکثریت سے قائم ہوئی حکومتوں کوبھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ وہ بلکہ انگریزی والا Chillمحسوس کرتی ہیں۔ میری دانست میں عمران حکومت ان دنوں ویسا ہی محسوس کررہی ہے۔

اس کے اعتماد کا عالم تو یہ ہے کہ ٹھوس اعدادکی بنیاد پر قائم ہوئی سندھ حکومت کوہر صورت مارچ اور اپریل کے درمیانی ہفتوں میں فارغ کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ فواد چودھری صاحب سندھ تشریف لے جاچکے ہیں۔25جنوری کو عمران خان صاحب کی گھوٹکی میں آمد متوقع ہے۔

وہاں اس شہر کے طاقت ور ترین مہر خاندان کی میزبانی میں بھی وہ ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔ ان کا خطاب واضح انداز میں سندھ میں قائم ہوئی پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ ہوگا۔اس جنگ کے حتمی نتائج کے بارے میں بہت اعتماد کے ساتھ پیش گوئی میرے لئے فی الوقت ممکن نہیں۔

یہ سوال اگرچہ ذہن میں ضرور اٹھتا ہے کہ شہباز شریف اور ان کی جماعت مراد علی شاہ کی حکومت کو بچانے کے لئے کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔فوری جواب اس سوال کا ’’کچھ بھی نہیں‘‘ کی صورت نمودار ہوتا ہے۔

ہم میڈیا والے اس حقیقت کو بھی نظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کے ووٹ بینک کی متحرک Baseپیپلز پارٹی سے سخت ناراض ہے۔ان کا خیال ہے کہ ’’یاروں کے یار‘‘ نے نواز شریف کے کڑے وقت میں ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اب اگر ریاستی شکنجہ پیپلز پارٹی کو اپنی پکڑ میں لینے کو تیار ہورہا ہے تو مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو اس سے لاتعلق رہتے ہوئے ’’جیسی کرنی ویسے بھرنی‘‘ والے رویے کے ساتھ ’’تماشہ‘‘ دیکھنا چاہیے۔

نون لیگ کی Baseمیں موجود اس رحجان کے ساتھ شہباز شریف کے پاس آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کو تحفظ فراہم کرنے کی نیک نیتی کے ساتھ خواہش کے ہوتے ہوئے بھی کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔قومی اسمبلی کی کارروائی کو یہ دو جماعتیں البتہ یکسو ہوکر کافی رونق اور توانائی فراہم کرسکتی ہیں۔ میری دانست میں فی الحال اس رونق کی تیاری ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).