ایدھی انسان دوست مرا ہے، انسان دوستی زندہ ہے


\"safdar انسان مرا ہے، انسان دوستی نہیں مرے گی۔ دیکھیے ہر فرقے کا فرد دکھی ہے، ہر مذہب کا مقلد سوگوار ہے، ہر رنگ ماتمی سیاہی میں لپٹا ہے، ہر نسل کا شخص اشکبار ہے، ہر قبیلے کی پنچائتیں ماتم کدہ ہیں۔

 انسان دوستی بہت بڑی طاقت ہے۔ جو انسان کے غم سے جڑا، کرب سے لپٹا، دکھوں کو سمیٹا، ان بچوں کو ماتھوں پر بوسوں کی بارش برساتا رہا جنہیں ان کی مائوں تک نے سڑک پر پھینک دیا۔ وہ بچے جو اپنے جنم میں اتنے ہی مقدس تھے جتنا میں اور آپ۔

 ہاں اس کی شان استغنا میں قصیدے لکھیے، اس کے اخلاص کے نغمے گائیے، اس کی دیانت کو خراج تحسین پیش کیجئے، اس کے خدمت خلق کے جذبے کے بیان میں تمام اسمائے صفات کھپا دیجئیے۔ یہ اس کا حق ہے اور ہمارا کفارہ۔ یہ اس کا وصف ہے اور ہماری محرومیاں، یہ اس کی ذات کا اٹوٹ انگ ہیں اور ہماری تشنگیاں۔ مگر سمجھیے وہ کیا چیز ہے جو اسے یہ مقام دیتی ہے۔ وہ کیا گن ہیں جو اس کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انسان بناتی ہیں۔ وہ ایسا سدھارتھ تھا جسے نروان کے لیے جنگل کی لکڑی بننے کی نوبت تک نہ پہنچنا پڑا۔ ایسا رشی جس نے عبادت کا سادہ ترین یک نکاتی ایجنڈا دریافت کیا۔ اس ایک لمحے پر قربان ہونا بھی ہم سوں کے لیے باعث سعادت ہوگا، جس لمحے نے ایدھی صاحب پر کائنات کی سب سے بڑی سعادت کا راز فاش کر دیا۔

 ہاں تو سوال اٹھا تھا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ایدھی کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے عظیم انسان بناتی ہے۔ جی بالکل درست، انسان۔۔۔ ان کی کاوشوں کا مرکز نگاہ انسان رہا۔ عقیدہ و رنگ و نسل سے ماورا۔ انسان دوستی جو ہم سوں کے لیے بس نعرہ رہی وہ ایدھی کا مقصد حیات بنی۔ بس یہ وہ مقام ہے جہاں ہم ایدھی صاحب کے نظری و عملی دشمن ہیں۔

 جب ایدھی کے پاس مدد لینے کوئی گیا تو ہمارے عالم کی طرح انہوں نے اس کا فرقہ نہ پوچھا، اس لیے وہ ایدھی ہے۔ جب ان کے پاس کوئی نصرت کی آس لیے پہنچا تو انہوں نے ہمارے سیاست دان کی طرح جماعتی وابستگی کی بابت دریافت نہ کیا ، اس لیے وہ ایدھی ہے۔ جب کوئی خانہ خراب عورت ان کے ہاں پناہ کی طلب میں پہنچی تو انہوں نے ’’غیرت مندوں ‘‘ کی طرح ٹیڑھی آنکھ کر کے یہ نہیں پوچھا کہ گھر سے بھاگ کر تو نہیں آئی ہو، اس لیے وہ ایدھی ہے۔ جب ان کی گود میں کوئی ’’حرامی بچہ‘‘(کتنا گھٹیا ہے یہ لفظ اور کتنا گھٹیا احساس جاگا ہے یہ لکھتے ہوئے) اس کی گود کی زینت بنا تو سوال نہیں کیا بلکہ فارم میں باپ کے خانے میں اپنا نام لکھ دیا، اس لیے وہ ایدھی ہے۔ جب انسانی لاشیں گدھوں کے لیے زمین پر چھوڑ دی گئیں تو ایدھی انہیں قریبی عزیز سمجھ کر دفنانے کے لیے پہنچا ، اس لیے وہ ایدھی ہے۔

 یقین مانیے ہر مذہب، ہر عقیدہ ، ہر مسلک ، ہر نظریہ مذہب انسانیت سے ہیچ ہے۔ بس یہ وہ نکتہ تھا جو ایدھی سمجھا ، ہم نہ سمجھے۔

 ایدھی صاحب اللہ کرے صرف آپ مرے ہوں، آپ کا نصب العین نہ مرا ہو۔ آپ مرے ہوں آپ کا مقصد نہ مرا ہو، آپ مرے ہوں، آپ کا جذبہ نہ مرا ہو۔ آپ مرے ہوں آپ کا لہجہ نہ مرا ہو۔

 کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ہم ایسے لوگوں میں یہ بنجارہ کیسے پیدا ہو گیا۔ بونے سماج میں یہ سرو قد کیسے اگا۔ وہ سماج کہ جہاں اپنا مسلک، اپنی برادری، اپنے پیٹی بھائیوں سے محبت اعلی انسان کی پہچان ہو، بڑی چھلانگ لگائی تو اپنا صوبہ لائق محبت قرار پایا۔ کچھ زیادہ ہی اچھلے تو ریاست کی سرحدی لکیر کو محبت کا محیط مان لیا۔ اور باقیوں سے زیادہ ہی اوپر اٹھنے کا شوق چرایا تو عقیدے کے دائرے میں مبحوس انسانوں کا غم اور یاس نوحوں کا موضوع بنا لیا۔ مگر ایسا کہاں سے لائیں کہ ایدھی کہیں جسے۔ وہ جو دنیا کی سرحد کو بھی بے کنار نہ سمجھ سکا، جس کا جذبہ محبت و خدمت ریاستی ہی نہیں عالمی سرحدوں سے اوپر اٹھ گیا۔

 منبر و مسند نشینو، سوچو کہ کیوں یہ مقام بلند تمھیں نہیں ملتا۔ سالاران لشکر غور کرو کہ ایدھی کا میدان جنگ کتنا وسیع ہے اور وہ کیسا سرخرو ہے۔ اہل سیاست و اقتدار کے مزار کے مجاورو سوچو کہ کیوں لوگ تم پر اعتماد نہیں کرتے مگر ایک فقیر پر دل و جان سے اعتماد رکھتے ہیں۔ علم نظریہ بازی کے عالمو، جانو کہ اپنے غیر نامیاتی نظریات کی اسیری انسان کو اشرف نہیں بناتی بلکہ زندہ انسانوں سے بے لوث محبت آپ کو وہ مقام دیتی ہے۔ محلوں میں آبادی، کوٹھیوں کے مکین، بنگلوں کے رہائشی اور ان جیسی آسائشوں کے لیے رات دن ایک کیے بچ جانے والے یہ بھی دیکھیں کہ دو کمرے کے سادہ تر گھر میں بھی عظمت کے مینار تعمیر ہو سکتے ہیں۔

 ایدھی صاحب الوداع، وجود مٹ جاتا ہے ، مگر انسان وجود سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ تاریخ کے بستے میں ایسا کوئی اریزر نہیں جو آپ کے نام کو مٹا سکے۔ آپ ہم میں سے تھے، مگر ہم آپ جیسے نہیں۔ آپ کو ہمارے اچھے ہونے کا زعم تھا اور ہم قدم قدم پر آپ کا زعم پامال کرتے رہے۔

 آج آپ خاموش ہیں اور ویسے تو آپ تب بھی خاموشی سے ہی اپنا کام کرتے رہے تھے۔ کاش آپ ایسی خاموش زندگی ہم لپیٹ کر جی پاتے۔ آپ کو دینے کے لیے کچھ نہیں ، یہ لفظ اور فقرے تھے جو ٹوٹے ہوئے بھی ہیں اور جذبات کا بوجھل پن جنہیں بے ربط بھی کر رہا ہے۔ یہ سالم بھی ہوتے تو کیا حق تھا جو انہوں نے ادا کر لینا تھا۔ ہاں ایک چیز سالم ہے ، یہ دل کہ جو بوجھل ہے، یہ آنکھ کے کونوں میں معلق دو آنسو ہیں جو سالم ہیں اور جو اس لیے گرنے سے رک رہے ہیں کہ کہیں آپ کا تقدس پامال نہ ہوجائے۔ اور ایک چیز بھی ہے جو ابھی تک سالم ہے اور دعا ہے کہ سالم رہے اور وہ یہ کہ انسان دوستی کے مذہب پر کچا پکا ایمان اور پختہ ہو گیا ہے۔ موت آپ کے جسم کو فنا کر دے گی مگر یہ عزم اس وقت سالم ہے کہ انسان مریں گے، انسان دوستی نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments