جمہوریت کے بہادر شاہ ظفر۔ مگر کب؟


2008 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مخلوط حکومت قائم تھی، حکومت بھی ایسی کہ جس نے پرویز مشرف جیسے آمر کو بہ آسانی ایوانِ صدر سے دھکیل باہر کیا تھا، حزب اختلاف کی پوزیشن کمزور تھی، مگر ایک دن خلاف توقع آصف زرداری نہ صرف ایم کیو ایم کے مرکز نائین زیرو پہنچے بلکہ ان کے قبرستان بھی پہنچ گئے۔ اس منظر نے سب کو چونکا دیا لیکن پیپلز پارٹی کے وہ رہنما تو روتے دیکھے گئے جو ایم کیو ایم کو اپنا حریفِ اول سمجھتے تھے۔

اس موقع پر تو کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد مسلم لیگ نون نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو وہ اپنی دانست میں عددی لحاظ سے حکومت کے لئے کوئی خطرہ نہ بن سکی، کیونکہ ایم کیو ایم ایک مضبوط حلیف کے طور پر حکومت کا حصہ بن چکی تھی۔ یہ تھی ایک سیاسی رہنما کی دور اندیشی، جس نے پہلے سے میان نواز شریف کے ارادوں کو بھانپ لیا تھا۔

آصف زرداری کی طرز حکمرانی اور مفاہمتی پالیسی پر لاکھ تنقید ہوئی ہو مگر اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ان کی جماعت نے پانچ سالہ مدت کے دوران عدلیہ اور میڈیا کا سخت ترین رویہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا، ایک وزیراعظم کی قربانی دی اور اپنی مقبولیت بھی کھو دی لیکن ان پانچ سالوں نے اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی شکل میں جمہوریت کو جو طاقت دی وہ قابل تحسین تھی۔

اب ذرا آتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف جن کو سوائے خیبر پختونخواہ اسیملبی کے کسی بھی ایوان میں اکثریت حاصل نہیں اور ان کے حلیف بھی وہ جو ان سے زیادہ کسی اور کے وفادار ہیں، مگر ان کا رویہ۔ ؟ الامان والحفیظ۔ تحریک انصاف کی حکومت چاہے بھی تو ایک سابق وزیراعظم کے اپنی بیٹی سمیت جیل جانے، ایک سابق وزیراعلیٰ اور قائدِ حزب اختلاف کی تفتیش مکمل ہونے سے پہلے گرفتاری اور بشمول سندھ کی اہم ترین سیاسی شخصیات کے 172 افراد کے نام بہ یک جنبشِ قلم ای سی ایل میں ڈالنے کے واقعات سے خود کو الگ نہیں کرسکتی۔ چونکہ مذکورہ بالا معاملات کا تعلق نیب سے ہے، اسی نیب کا دوہرا معیار یہ ہے کہ اسی دور میں چوہدری برادران کے خلاف مقدمات بند ہوتے ہیں اور علیمہ خان کے معاملہ پر آنکھیں بند رہتی ہیں۔

روپے کی قدر میں گراوٹ اور ہوشربا مہنگائی نے لوگوں کے چولہے ٹھنڈے کردئے ہیں تو کہا گیا کہ ہماری پالیسی ہے کہ امیروں کو رلیف نہ ملے، اب ان کی نظر میں غریب پتہ نہیں کون ہیں؟ جن کو اس مہنگائی سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی؟

جہاں تمام ملک میں تجاوزات کے نام پر لوگوں کو گھروں سے محروم کیا جاتا ہے اور روزگار تباہ کیا جاتا ہے، وہیں بنی گالا کے گھر کو ریگیولرائز کرانے کی بات کر کے آپریشن متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔

اور تو اور ان کے وزرا کا لہجہ دیکھیں تو لگتا ہے ہلاکو خان کے کمانڈر ہیں، فوادچوہدری جیسا شخص جس کے بارے میں کچھ لکھنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ

خود آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

ایسا شخص سندھ میں حکومت گرانے پہنچ جاتا ہے۔

کیا کوئی سیاسی معاملات کی ذرا سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص سوچ سکتا ہے کہ کوئی اتنی کمزور مخلوط حکومت ایسا رویہ رکھ سکتی ہے؟ ایسے رویے سے تو لگتا ہے کہ یا یہ لوگ واقعی بے وقوف ہیں یا ان کو ایسی کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ لگے رہیں آپ کو کوئی نہیں چھیڑے گا۔

اپوزیشن جماعتوں کا یہ موقف بھی ایک لحاظ سے عوام دشمنی تھا کہ جیسی بھی حکومت ہے اس کو چلنے دیں تاکہ عوام میں ایکسپوز ہوں اور ان کو لانے والوں کو بھی سبق مل جائے۔

اب جب حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بظاہر ایک اتحاد کر لیا ہے، جس کو میں اب بھی پانی کا بلبلہ سمجھتا ہوں، کیا یہ اتحاد حکومت کو گرا سکتا ہے؟ حالات کو دیکھیں تو بالکل ممکن ہے، کیونکہ بلوچستان میں یہ تماشا دیکھ چکے ہیں، مگر اگر اس ملک کی تاریخ اور اقتداری حقائق کو سامنے رکھ کر سوچیں تو بالکل نہیں۔ یہ اتحاد بنا تو محض اس وجہ سے ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو جان کے لالے پڑ گئے ہیں مگر درحقیقت شہباز شریف اور آصف زرداری کسی بھی صورت ان قوتوں سے ٹکراؤ نہیں چاہیں گے جو اس ساری گیم کے منصوبہ ساز ہیں۔

ایسے میں ہوگا کیا، جس کو جہاں سے بھی تھوڑا سا رلیف ملنے کی امید دلائی گئی وہ وہیں سے اپنی راہیں الگ کر لے گا، بالکل اسی طرح جیسے سینیٹ چیئرمین اور صدر کے انتخاب کے وقت ہوا تھا۔ اب سوال ہے کہ پھر کیا ہوگا؟ کیا تحریک انصاف اسی طرح حکومت کرتی رہے گی؟ تو اس کا جواب بھی نفی میں ہی ہوگا؟ تحریک انصاف کو جب بھی آگ لگی اپنے گھر کے چراغ سے لگے گی۔ پھر کیا ہوگا؟ یہی اصل سوال ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس وقت تک حالات ملک کو اس نہج پر لاچکے ہوں گے کہ جمہوریت کی قسمت میں جناب محمد عمران خان نیازی ایک نئے بہادر شاہ ظفر بن جائیں گے، جی ہاں بہادر شاہ ظفر جس نے رنگون میں آخری سانسیں لینے سے پہلے کہا تھا کہ

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے

دوگز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).