ہر ڈیل کی ایک صبح ہوتی ہے


یہ اُن دنوں کی بات ہے جب لڑکیاں زیادہ خوداعتماد نہیں ہوتی تھیں۔ اُس وقت اگر کوئی لڑکی بیاہ کر شہر چلی جاتی اور اُس کے سسرال والے ذرا بڑے اور بہتر گھرانے کے مالک ہوتے تو وہ لڑکی کئی دنوں تک شادی کے بھاری بھرکم روایتی لباسوں، نئے نئے چہروں اور ہرطرف سے گھورتی آنکھوں کے باعث بدحواس پھرتی۔ وہ کبھی میز سے ٹکراتی، کبھی اُس سے کوئی برتن ٹوٹ جاتا اور کبھی ہنڈیا جلا دیتی۔ اس منظرنامے میں نفسیاتی دباؤ کے باعث وہ اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کرتی رہتی۔

پرانے وقتوں کی اِس مثال کو ہم اپنے موجودہ سیاسی حالات کے لیے ایک آئینہ بھی بنا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے بینڈ باجوں اور ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ جس طرح حکومت سنبھالی اُس شان کی خوداعتمادی اُن میں کبھی نظر نہیں آئی۔ اُن کی بدحواسیوں سے لگتا ہے کہ وہ شروع سے ہی کسی نفسیاتی دباؤ کے تحت اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کرتے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپوزیشن کو سیاسی عمل کا حصہ سمجھنے سے زیادہ سوکن سمجھا ہوا ہے۔ انہوں نے کرپشن کی داستانوں کے علاوہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر پہلے این آر او کا الزام لگایا۔

جب ملزمین نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر این آر او مانگنے والوں کا نام پوچھا تو میخانے کے آخری پہر کی طرح ہر طرف مدہوشی چھا گئی۔ اب یکایک حکومتی ذمہ داروں کی طرف سے پھر ایک مہماتی بیان داغا گیا کہ حکومت پر ڈیل کے لئے پریشر ڈالا جارہا ہے۔ جو لوگ سیاست اور ڈیل کے مکینزم کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ڈیل کا پریشر آنے کے تین ہی روایتی طریقے ہیں جن میں مقامی سٹیبلشمنٹ، انٹرنیشنل طاقتیں اور پارلیمنٹ کی دوسری جماعتوں سے مجبوراً سودے بازی شامل ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پریشر والے پہلے نکتے کے تجزیے میں تحریر ہے کہ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک یعنی پی ٹی آئی حکومت میں ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ سے جس طرح ناراض ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی پر ن لیگ سے ڈیل کرنے کا پریشر ڈال رہی ہے تو کیا اسٹیبلشمنٹ ن لیگ سے راضی ہوگئی ہے؟ اگر ن لیگ نہیں تو پھر کیا پی ٹی آئی پر پیپلز پارٹی سے ڈیل کا پریشر ڈالا جا رہا ہے؟

اِس لوسٹوری کو دل ہے کہ مانتا نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی پر پریشر ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، وہ تو وقت پڑنے پر درمیانی راستہ اختیار کرنے کے ماسٹر ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ وہ وقت ٹلنے پر ڈیل سے مکر بھی سکتے ہیں۔ ایک اور بات یہ کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی پیج پر ہیں۔ اگر ایسا تھا تو پھر کیا یہ سوال کیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ والے پی ٹی آئی کی بدحواسیوں کی وجہ سے اُن پر سے دست شفقت اٹھا رہے ہیں؟

انٹرنیشنل طاقتوں کی طرف سے پریشر والے دوسرے نکتے کے تجزیے میں تحریر ہے کہ پی ٹی آئی والے اِس نکتے کی خود ہی تردید کرتے آرہے ہیں۔ یعنی ان کے بیانات میں یہ بات زور دے کر کہی جاتی ہے کہ انٹرنیشنل طاقتیں پی ٹی آئی کی ایماندار حکومت کو بہت پسند کرتی ہیں۔ اسی لیے چین، عرب اور ترکی وغیرہ میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو بہت سراہا جارہا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر انٹرنیشنل طاقتیں پی ٹی آئی پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے کیوں پریشر ڈالیں گی؟

دوسری طرف انٹرنیشنل طاقتوں کے تعلقات پاکستان کی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ دیکھے جائیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ ن لیگ کے تعلقات چین، ترکی اور عرب سے تھے۔ اگر ان ممالک نے ن لیگ کی حمایت میں پریشر ڈالنا ہوتا تو وزیراعظم عمران خان اور ان کے اراکین کو ان ملکوں کے دوروں کے دوران وہ پذیرائی نہ ملتی جن کا خود وزیراعظم عمران خان اور ان کے حکومتی اراکین دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کو لے کر بات کریں تو اُن کی ریپوٹیشن چین، ترکی اور عرب ممالک میں ویسی نہیں ہے جیسی ن لیگ کی تھی۔

البتہ پیپلز پارٹی امریکہ کے لئے ایک کارآمد جماعت ثابت ہوتی آئی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی حکومت نے امریکہ کی سنگین توجہ سے بچنے کے لیے چین اور روس وغیرہ کے ساتھ معاملات کو ذرا سلو کردیا ہے۔ لہٰذا امریکہ پاکستان میں اپنی کم ہوتی دلچسپی کے باعث حکومت وقت پر کسی دوسری جماعت سے فی الحال ڈیل کا پریشر کیوں ڈالے گا؟ پارلیمنٹ میں برتری کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈیل کرنے والے تیسرے نکتے کے تجزیے میں تحریر ہے کہ پی ٹی آئی کو اس مشقت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے لیے یہ مشقت انتخابات سے پہلے، انتخابات کے وقت اور انتخابات کے بعد کوئی دوسرے کرتے تھے۔

لہٰذا پی ٹی آئی کو کسی دوسری جماعت کو پارلیمنٹ میں ساتھ ملانے کے لیے اُس سے ڈیل کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ یا پھر پی ٹی آئی کے لئے یہ لمحہ فکریہ آن پہنچا ہے کہ انہیں پہاڑ پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچنا شروع کردی گئی ہے؟ تینوں نکات کی تشریح کے بعد یہ بھی تحریر ہے کہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے بعد جنرل ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق کی انٹرنیشنل ڈیل کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوئی۔

بینظیر بھٹو کی انٹرنیشنل ڈیل کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی۔ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بعد بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم ہوئی۔ بینظیر بھٹو کی انٹرنیشنل اور مقامی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بعد نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ ختم ہوئی۔ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بعد بینظیر بھٹو کی دوسری مرتبہ حکومت ختم ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے انٹرنیشنل ایجنڈے کی ڈیل کے مطابق نواز شریف کی دوسری مرتبہ حکومت ختم کی۔

جنرل پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملاکر ق لیگ کی ڈیل بنائی۔ بینظیربھٹو نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کو بروئے کار لاکر جنرل پرویز مشرف سے واپسی کا راستہ زبردستی حاصل کیا وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ہاں سیاسی ڈیل کی یہ کہانیاں بتاتی ہیں کہ ہر ڈیل کے بعد ڈیل کرنے والی حکومت کا جانا ٹھہر جاتا ہے۔ اگر ڈیل رات ہے تو پھر حکومت کی تبدیلی اُس کی صبح کہلانی چاہیے۔ کیا پی ٹی آئی بدحواسی اور خوف سے ڈیل کا ڈھنڈورا اس لئے پیٹ رہی ہے کہ اُسے صبح ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).