بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کیوں زیادہ ضروری ہے؟


ہمارے ہاں جب بھی خواتین کے حقوق کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ہی خواتین کو وہ حقوق دے دیے تھے جو معاصر معاشروں میں موجود نہ تھے۔ درست کہ اسلام نے تو خواتین کوحقوق دے دیے لیکن کیا ہمارے معاشرے نے بھی ان حقوق کو تسلیم کیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرتی پاور سٹرکچر میں خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اسلام نے اسے عطا کیے ہیں؟ کیا اسے مرد کے مقابل مساوی حقوق میسر ہیں؟ سچ یہ ہے کہ ہم نے پسند کی شادی، تعلیم، وراثت، اپنے سماجی رتبے کے تعین اور ملازمت سمیت ہر معاملے میں عورت کے حقوق کو مرد کے تابع کر رکھا ہے۔

سوشیالوجی کے نقطہ نظر سے مرد و عورت کی جنسی تخصیص اور معاشرے میں ان کا کردار محض ایک سماجی تعبیر (social construct) ہے۔ ہر پیدا ہونے والی ذی روح کودراصل معاشرہ عورت و مرد میں تقسیم کرتاہے جبکہ علم حیاتیات و نفسیات نے اس بارے میں کوئی تخصیص نہیں کی۔ عورت و مرد کی شناخت تہذیبی ضرورت کے تحت ہے اور دونوں کے معاشرتی کردار کو کائناتی اصول نہیں بلکہ معاشرہ متعین کرتا ہے۔ قرآنی احکامات میں تخصیص نہیں اور یہ مردوں اور عورتوں دونوں پر منطبق ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر قرآن اور حدیث میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کی بات کی گئی ہے تو ان احکامات کی تخصیص صرف مرد تک محدود نہیں۔ جہاں تک اخلاقی حدود قیود کی بات ہے وہ بھی صرف خواتین کے لئے نہیں بلکہ مردوں کو بھی ان حدود کی پابندی کرنے کا کہا گیاہے۔ کم فہم لوگ عورتوں کے کردار کو محدودرکھنے کے لئے ان معاملات میں مذہبی سہارے تلاش کرتے ہیں جب کے عورت کے کردار کا تعین زیادہ تر معاشرتی یا ثقافتی حوالے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عورت کی تعلیم، شادی بیاہ، ملازمت یا اس کے سماجی کردار کے حوالے سے دقیانوسی تصورات (stereotypes) پائے جاتے ہیں جن کا مقصد اس پر مرد کی بالا دستی کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔

یہ تصورات زیادہ تر شخصیتی خصلتوں (personality traits) ، گھریلو رویوں (domestic behaviors) ، پیشوں (profession) اورجسمانی وضع قطع (physical appearance) کے گرد گھومتے ہیں۔ مثلاً عام طور پر سننے کو ملتا ہے کہ عورت جذباتی ہوتی ہے اور آسانی سے دھوکہ کھا جاتی ہے جب کہ مرد جارح مزاج اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ عورت کم عقل ہوتی ہے، زیادہ تعلیم یافتہ عورت ہاتھ سے نکل جاتی ہے، کالج یا یونیورسٹی پڑھنے والی لڑکیاں اچھے کردار کی نہیں ہوتیں، ملازمت پیشہ خواتین اپنے شوہروں کی عزت نہیں کرتیں، عورت کو صرف چار دیواری تک محدود ہونا چاہیے، مخلوط نظام تعلیم میں بہت خرابیاں ہیں، لڑکیوں کے لئے تعلیم یا نرسنگ کا شعبہ ٹھیک رہتا ہے اورصرف لڑکے ہی اچھے پائلٹ، انجینئراور ڈاکٹر بن سکتے ہیں، عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خوبصورت اور دبلی پتلی ہوں جب کہ مرد مضبوط قد کاٹھ کے مالک ہوں، مردوخواتین سے یہ بھی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ظاہری حلیے اور لباس کے انتخاب میں معاشرتی ترجیحات کو مد نظر رکھیں۔

عورتوں اور مردوں کے بارے میں ان سماجی تعبیرات (social constructs) اور دقیانوسی تصورات (stereotypes) کی میڈیا اور معاشرے کے ذریعے عکاسی کی جاتی ہے اور خاص طور پر خواتین کے بارے میں عمومی تاثر یہ اجاگر کیا جاتا ہے کہ وہ صرف مرد کے وسائل پر ہاتھ صاف کرتی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر گھریلو خواتین خانہ داری میں مصروف رہتی ہیں اور انھیں مردوں کی طرح کسی ہفتہ وار چھٹی کی بھی سہولت میسر نہیں ہوتی لیکن مرد کے مقابلے میں ان کے کام کو کام نہیں سمجھا جاتا۔

عورتوں کے بارے میں غالب تصورات کے تناظر میں ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو درست کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ خاص طور پر میڈیاکو الفاظ کے چناؤ اور عورتوں کے حوالے سے واقعات رپورٹ کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ہماری سوسائٹی اور میڈیا کو عزت کے معیارات کی بھی از سر نو تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جنسی زیادتی کی شکار خواتین کو ہمارا میڈیا اور معاشرہ عزت لُٹ جانے سے منسوب کرتا ہے اور بعض واقعات میں خواتین کے قتل کو بھی عزت سے منسوب کرتا ہے۔ حالانکہ قصور وار اور مجرم مرد ہوتا ہے لیکن عورت کاریپ کرنے یا اسے قتل کرنے پر اس کی عزت کے حوالے سے کوئی سوال نہیں اُٹھایا جاتا۔

ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کے لئے خواتین کی تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے۔ مردکی تعلیم و تربیت پر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے لیکن عورت کی تعلیم و تربیت پر سمجھوتہ معاشرے کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تعلیم و تربیت اور ڈگری دونوں میں بہت فرق ہے۔ ایک کا تعلق شعور، اچھا انسان بننے اور ذمہ داری کے احساس جبکہ دوسرے کا تعلق صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ہے۔ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خواتین ہی معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ عورت کے کردار کو محدود اور اس پر بے جا پابندیاں عائد کرکے اور اسے تعلیم سے دور رکھ کرہم معاشرتی فساد کی بنیادرکھتے ہیں کیونکہ وہ لڑکیاں جن کے بہت سے خوابوں اورارمانوں کا گلہ دبا کر اور زندگی کے بارے میں ان کی ترجیحات، سوچ اور مرضی کی پرواہ کیے بغیر ہم انھیں اگلے گھر بھیج دیتے ہیں وہ کبھی اچھی نسل پیدا نہیں کرسکتیں۔ بچوں کی تربیت میں ماں کا بنیادی کردار ہوتا ہے لیکن وہ ماں اپنے بچوں کی کیسی تربیت اور اعتماد سازی کرے گی جس کو ماں باپ اور معاشرے نے مجبوریوں اور سمجھوتوں سے باندھ دیا ہو؟

بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام، میڈیا اور سوسائٹی عورت کے کردار کو سماجی میل جول اور گپ شپ (rapport talk) سے آگے دیکھنے کا حوصلہ فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی عمومی طور پر خواتین اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرنے اور انھیں بروئے کار لانے کے بارے میں کوئی واضح سوچ رکھتی ہیں۔ تعلیم یا ڈگری کے حصول کی تگ و دوکے پیچھے بھی دراصل زیادہ تر شعوری یا لاشعوری طورپر اچھے رشتے کی خواہش کاجذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ڈگری یافتہ خواتین کے قیمتی وقت کا مصرف یا ان کی دلچسپیاں بننے سنورنے، پہناووں کے انتخاب میں حساسیت، گھریلو نوک جھوک، بے پرکیاں اڑانے، غیبت وگلے شکوے کرنے یا ذہنی تفریح کے لئے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کا بے مہار استعمال کرنے کے گرد گھومتی ہیں اور میڈیا بھی ان کی کچھ ایسی ہی تربیت کرتا ہے۔

ویسے بھی نصاب سے ہٹ کر کچھ پڑھنے یا سیکھنے کے لئے ہماری خواتین ہی کیا مرد حضرات بھی اپنے ذہن پر غیر ضروری بوجھ ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔ تحقیق اور تجسس کا شوق جو علم کی بنیاد ہیں ہمارے پڑھے لکھوں میں بھی ناپید ہے اور خواتین تو خود کو اس عمل سے کوسوں دور رکھتی ہیں۔ سنی سنائی باتیں اور مفروضے ہمارے علم کی بنیاد ہیں۔ ایسے میں معقول معاشرتی رویوں کی امید یا خراب معاشرتی رویوں کی اصلاح ایک دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل سائنسز کو فروغ دیا جائے اور معاشرتی، معاشی و سیاسی قیادت سازی کے فرائض سماجی سائنسدانوں کے پاس ہوں لیکن غلط طور پر طے کردہ سماجی ترجیحات کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں میں سوشل سائنسز کے مضامین کی اہمیت کم اور معیار گرتا جارہا ہے۔ ہماری معاشرتی ساخت میں مذہب کا کردار لامحدود ہے جبکہ مذہب جیسا حساس ترین شعبہ ہم نے معاشرتی طور پر پسماندہ ترین اور محروم طبقے کے سپرد کر رکھا ہے۔

ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں داخلے کے لئے میرٹ کے جو معیارات نیچرل سائنسز، اپلائیڈ سائنسز، فارمل سائنسز، سوشل سائنسز اور ہیومنٹیز کے مضامین کے لئے ہیں کیا اس میرٹ کا عشر عشیر بھی مذہبی تعلیمات کے لئے ہم نے مقرر کیا ہے یا پھر ہمارے نزدیک مذہب ایک حساس معاملہ نہیں ہے؟ آج ہمارے معاشرے میں سماجی سیاستدانوں یا دانشوروں (social scientists) خاص کر خواتین دانشوروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ حقیقی تبدیلی سماجی سائنسدان ہی لا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).