نئے ٹیکس اور عوام کی حالتِ زار


تحریک انصاف نے 2018 ء کے عام انتخابات میں جیسے تیسے کرکے اقتدار توحاصل کرلیا لیکن حکومت کے نظم کو چلانے کے لیے تحریک انصاف وہ کچھ نہیں کرپائی جس کا ڈھول ان کے عہدیدارانتخابی جلسوں اور ٹی وی چینلز پر پیٹا کرتے تھے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے ستمبر 2018 ء میں اپنی حکومت کا پہلا ضمنی بجٹ پیش کیا جس میں 183 ارب کے نئے ٹیکس اور ترقیاتی اخراجات میں 350 ارب روپے کی کمی کر دی گئی۔ مسائل کے انبار تلے دبی عوام نے طوعاً کرہاً اسے بھی قبول کرلیا کہ چلو نئی حکومت ہے اس کو اپنے انداز میں کام کرنے دینا چاہیے۔ لیکن تحریک انصاف میں منصوبہ بندی کے فقدان اور اقتصادی امور میں قابلیت کا پول ایک بار پھر اس وقت کھل گیا جب ان کے وفاقی وزیر خزانہ نے یہ اعلان کردیا کہ حکومت 23 جنوری کو ایک اور منی بجٹ پیش کرے گی۔

اس بجٹ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس میں 200 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کے ساتھ ترقیاتی اخراجات میں بھی مزید کمی کی جائے گی۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ قوم کو یہ بتایا جائے کہ اقتصادی ناکامی کے وہ کیا اسباب ہیں جن کے سبب تین چار ماہ بعد ہی ایک اور بجٹ پیش کرنے کی نوبت آگئی ہے؟ حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر اور ادائیگیوں کے توازن کی بہتری کے لیے قرض کے حصول کے لیے مختلف ممالک اور اداروں کے سامنے بھی سبکی کا سامنا کر نا پڑا ہے۔

تحریک انصاف جس لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور امیروں پر ٹیکس لگانے کی بات کیا کرتی تھی وہ صرف انتخابی نعرے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے اس خیال کو یہ تقویت ملتی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ْعمل کرتی نظر آرہی ہے اوردوسری جانب ہمارا ایف بی آر اپنے اہداف کے مطابق ٹیکس وصول نہیں کرپایا ہے۔ ایف بی آر نے چھ ماہ میں 175 ارب روپے معین ہدف سے کم اکٹھے کیے ہیں، اور ان کی نا اہلی کا خمیازہ غریب عوام کو مزید ٹیکسوں کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔

یہ تحریک انصاف کے غیر مؤثر اقتصادی ویژن کا نتیجہ ہے کہ اس کی حکومت آتے ہی ملک میں تجارتی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو گئیں جس کے سبب ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی گرتی قدر نے بھی ملک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنایا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی ہٹ دھرمی کی داد دیجیے کہ وہ اب بھی یہ کہہ رہی ہے کہ عوام کو گھبرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے تمام حالات قابو میں ہیں :

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں

خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

آنے والے ضمنی بجٹ میں غریب عوام کے ساتھ تو جو ہوگا سو ہوگا۔ چند روز قبل وفاقی حکومت نے دوا ساز کمپنیوں کے مطالبے پر جان بچانے والی تقریبا ساڑھے چار سو ادویات کی قیمت میں تقریباً نو فیصد کا اضافہ منظور کر لیا ہے۔ جب کی دیگر تمام ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد کا اضافہ منظور کر لیا گیا ہے۔ اس اضافے پر حکومت نے ایک بار پھر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتیں بین الاقوامی اور پڑوسی ممالک میں رائج قیمتوں سے پھر بھی بہت کم ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ دنیا کے بیشتر ممالک اور خاص کر یورپ اور امریکہ میں عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان ممالک میں دواؤں کی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کیا جا تا ہے نہ دواؤں میں ملاوٹ کی جاتی ہے۔

ضمنی بجٹ اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے یہ تاثر مزید مضبوطی اختیار کرتا ہے کہ تحریک انصاف کو بنیادی مسائل اور غریب عوام کے حالات کا ادراک نہیں ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر مقرر کی گئی کم از کم اجرت پندرہ ہزار ہے۔ اس پر بھی سو فیصدی عمل نہیں ہوپاتا ہے۔ پندرہ ہزار میں گھر کا خرچ، بچوں کی تعلیم، بجلی گیس کے بل اور علاج کے اخراجات کو پورا کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس پر بھی اگر پے در پے سہ ماہی بنیادوں پر بجٹ لائے جائیں اور نئے ٹیکس لگائے دیے جایئں تو :

خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

تحریکِ انصاف اپنی انتخابی مہم میں تواتر کے ساتھ یہ نعرہ لگاتی رہی تھی کہ وہ امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر خرچ کرے گی۔ امیروں پر ٹیکس کیا لگانا تھا ابھی تک جو بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ امیر غریب کی تخصیص کے بغیر لگائے گئے ہیں اور ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر غریب عوام ہی کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

واقع یہ ہے کہ اجارہ دار طبقات نے حقیقی معنوں میں معاشی سرگرمیوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا ہے۔ یہ ان ہی طبقات کا کیا دھرا ہے کہ معیشت کی بنیاد صنعت اور زراعت کی ترقی کی بجائے قرض پر قائم رکھی گئی ہے۔ جس میں تحریک انصاف نے چندے کا عنصر شامل کرکے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ موجودہ استحصالانہ اور ابلیسی معاشی و سماجی نظام میں غریب عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اقتصادیات اور سماجیات کے ماہرین کی مدد سے وطنِ عزیز کا معاشی و سماجی ڈھانچہ عدل، مساوات اور انصاف کے اصولوں کے تحت تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے معاشی و اقتصادی منصوبے بنائے جانے کی ضرورت ہے جن کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچ سکیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب زرعی اصلاحات کے مؤثر اطلاق سے جاگیرداروں اور وڈیروں کا معاشی اور سماجی تسلط ختم کیا جائے اور دوسرا کالے دھن کی معیشت کا خاتمہ کرکے سرمایہ داروں اور پراپرٹی ٹائیکونز کی اجارہ داری ختم کردی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).