جماعت اسلامی: تعمیر میں مضمر خرابی


کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معاشرے کے بعض توانا اور انتہائی ناگزیر مظاہر دیکھتے ہی دیکھتے غیر متعلق ہوجاتے ہیں۔ ان معاشرتی عوامل کی بعض خوب صورت مثالیں میدانِ سیاست سے بآسانی دستیاب ہیں۔ تازہ ترین مثال جماعت اسلامی کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران جماعت اسلامی کے تعلق سے دو اہم واقعات رونما ہوئے، اوّل، جماعت سے وابستہ ابتدائی نسل کی انتہائی اہم شخصیت یعنی چوہدری رحمت الٰہی انتقال کر گئے اور دوم، اس جماعت نے متحدہ مجلس عمل سے علیحدگی اختیار کر لی۔

چوہدری رحمت الٰہی کا شمار، جیسا مخدومی مجیب الرحمن شامی صاحب نے لکھا، ان ذمہ داران میں ہوتا تھا جنھوں نے اس جماعت کی بنیادیں مضبوط کر نے میں اپنی توانائیاں صرف کردیں اور سیاسی و جمہوری جدوجہد، اتحادوں کی تشکیل حتیٰ کہ اقتدار کے ایوانوں میں بھی اپنی خدمات کے گہرے نقوش چھوڑے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ متحدہ مجلس عمل کا بھی ہے۔ دینی جماعتوں کا یہ اتحاد ہماری حالیہ اور ماضی قریب کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ وطن عزیز میں جب جمہوری و غیر جمہوری سیاست اور پاکستان پر افغانستان کی صورت حال کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا تو اس اتحاد کی ابتدا و انتہا کا مطالعہ بھی دلچسپی کے ساتھ کیا جائے گا۔ اس تذکرے میں جماعت اسلامی کا ذکر نمایاں بھی ہو گا اور غیرمعمولی بھی لیکن اس کے باوجود یہ دونوں اہم واقعات توجہ سے محروم رہے ہیں، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ جماعت اسلامی کی اہمیت میں کمی محسوس کی جانے لگی ہے۔ یہ دونوں مثالیں قومی سیاست کے طالب علموں، خاص طور پر ان دوستوں کے لیے دلچسپی کے بہت سے پہلو اپنے اندر رکھتی ہیں جو جماعت اسلامی کے امور، خاص طور پر اس کی سیاسی مدّ و جذر سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

حالیہ برسوں کے دوران میں جماعت اسلامی کی سیاسی کارکردگی زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔ گزشتہ عام انتخابات اور ان سے قبل تمام ضمنی انتخابات سے ظاہر ہوا کہ اس کا حلقہ متاثرین ماضی کے مقابلے میں بہت سکڑ چکا ہے۔ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ ماضی میں اگر قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں اس کا امید وارتن تنہا دس سے پندرہ اور بعض صورتوں میں بیس ہزار اور اس سے کچھ زائد ووٹ لے جاتا تھا تو اب یہ تعداد کم ہوکر چند سو تک محدود ہوچکی ہے۔

اس صورت حال نے جماعت کے ذمہ داران اور ہمدردوں کے حلقے میں یقینا خطرے کی گھنٹیاں بجائی ہیں اور بعض احباب نے بھی اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اضطراری کیفیت میں لیے گئے ان جائزوں میں بعض بنیادی عوامل توجہ سے محروم رہ گئے ہیں۔ ان تجزیوں میں بعض صورتوں میں شخصیات کو ہدف تنقید بنا کر یا بعض معمولی اور ظاہری عوامل جیسے سوشل میڈیا کے غیر حکیمانہ استعمال پر اعتراض کر کے سمجھا گیا کہ جائزے کا حق ادا ہوگیا۔ 77 طویل برسوں پر مشتمل گونا گوں سرگرمیوں کی تاریخ رکھنے والی جماعت کے نشیب و فراز کو اتنے سرسری انداز میں سمجھنا اگر آسان ہوتا تو یہ جماعت بھی اپنی قیادت اور سوشل میڈیا پالیسی وغیرہ میں تبدیلی لاکر اپنے مسائل پر قابو پا چکی ہوتی۔

جماعت اسلامی ایک مقبول سیاسی قوت کیوں نہ بن سکی؟ اس مطالعے میں یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن جماعت کا موجودہ مسئلہ یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ معاشرے کی مختلف سطحوں پر پھیلے ہوئے اس کے وہ ہمدرد کیا ہوئے جن کے ووٹ اور اخلاقی حمایت سے قومی منظر نامے پر اسے ہمیشہ اہمیت حاصل رہی۔ اگر اس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لیا جائے تو توقع کی جا سکتی ہے تو مسئلے کا سرا ہاتھ میں آ جائے گا۔

برادرم عامر خاکوانی کا تجزیہ ہے کہ اسلامی جمیعت طلبہ جماعت اسلامی کی وہ نرسری ہے جو اسے افرادی قوت فراہم کرتی ہے، اس دعوے کے حق میں انھوں نے یہ ثبوت بھی پیش کیا ہے کہ جماعت کی آج کی تمام تر قیادت جمیعت ہی کی مرہون منت ہے۔ اس تجزیے کی اصابت میں کوئی کلام نہیں لیکن جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے حلقہ ہمدرداں کی تشکیل میں اگر جمیعت کا کوئی کردار ہے بھی تو بہت معمولی ہے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد کے ان برسوں میں جب جماعت انتخابی سیاست میں متحرک ہوئی تو اس وقت معاشرے میں جمعیت کے متاثرین کا حجم اتنا نہیں تھا جو جماعت کو ایک انتخابی قوت کی حیثیت عطا کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کا یہ حلقہ متاثرین جمیعت کے پھیلاو کے بجائے کسی اور سرگرمی کا نتیجہ رہا ہو گا۔

جماعت سے وابستہ سنجیدہ فکر اصحاب سے گفتگو اور تاریخ کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے قیام کے بعد اس جماعت نے جس قدر بھی وسعت حاصل کی، مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کے بل بوتے پر حاصل کی۔ کم از کم ستر کی دہائی تک جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور وابستگان کسی سیاسی لالچ کے بغیر محض ایک دینی یا نظریاتی ذمہ داری کے احساس کے تحت اپنا لٹریچر لوگوں تک پہنچایا کرتے تھے۔ اس لٹریچر نے معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کو جماعت کا خاموش حامی بنا دیا۔ یہ طبقہ دین، سیاست اور ریاست کے بارے میں علامہ اقبالؒ کے انداز فکر ہی کو پاکستان کے نظریاتی و سیاسی مسائل کا حل سمجھتا تھا یعنی اسلامی طرز زندگی جدید عہد کے تقاضوں کے عین مطابق۔ پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کے ایک قابل لحاظ حصے کا تاثر یہ تھا کہ مولانا مودودیؒ اور ان کی جماعت ان کے اقبا ل ؒ برانڈ تاثر کے قریب تر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جماعت اپنے متاثرین کے انداز فکر کو سمجھنے میں ناکام رہی اور قاضی حسین احمد مرحوم کے زمانے میں جماعت روایتی مذہبی طبقے بلکہ دیوبندی مکتبہ فکر کا رنگ ڈھنگ اختیا ر کرتی چلی گئی۔ اس طرح جماعت اور روایتی مذہبی طبقات کے درمیان فرق تقریباً ختم ہوگیا، یوں جماعت کی طرف اس کے متاثرین کی کشش کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی حالانکہ یہی وہ لوگ تھے جو انتخابات کے مواقع پر جماعت کی جھولی اپنے ووٹوں سے بھر دیا کرتے تھے۔ قربانی کی کھالوں کا معاملہ بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مالی عبادات اور قربانی کی کھالیں محض اس لیے جماعت کے سپرد کر دیا کرتے تھے کہ وہ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی پوری امانت اور دیانت کے ساتھ مستحقین تک پہنچا کر ان کے لیے اجر و ثواب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لٹریچر کے بعد جماعت کے حلقہ متاثرین میں اضافہ کرنے والی دوسری بڑی قوت اس کی رفاہی سرگرمیاں تھیں۔

 کم از کم گزشتہ تین دہائیوں کی تاریخ کے جائزے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جماعت کی انتخابی قوت میں وسعت پیدا کرنے والی ان ہی دو سرگرمیوں میں سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ لٹریچر کے پھیلاؤ اور خدمت خلق کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے لوگ گلی کوچوں میں پھیل جایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کا عوام سے براہ راست رابطہ ہوتا اور وہ عام آدمی کی سوچ سے براہ راست واقفیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ ان سرگرمیوں کے ختم یا محدود ہو جانے کی وجہ سے جماعت کے عوامی رابطے بڑی حد تک متاثر ہوئے اور اس کی عوامی حمایت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ اسی کی دہائی کے بعد جوان ہو کر کاروبار زندگی سنبھالنے والی نئی نسلوں پر اس تبدیلی نہایت گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔

انتخابی معاملات میں جماعت کی بڑھتی ہوئی عدم مقبولیت کے معاملے میں ایک اور معاملے پر توجہ بھی ضروری ہے۔ اس کا تعلق اس بیانئے سے ہے جسے جماعت نے ستر کے انتخابات میں شکست کے بعد تشکیل دیا۔ ان انتخابات میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے  18 اعشاریہ 6 ووٹ حاصل کر کے مغربی پاکستان میں فیصلہ کن برتری حاصل کرلی تھی۔ اس کے مقابلے میں دائیں بازو کی تمام جماعتوں نے مجموعی طور پر ان سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس موقع پر جماعت نے یہ تصور پیش کیا کہ اگر دائیں بازو کی سیاسی قوتیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تو سوشلسٹ رجحانات رکھنے والی پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔

1977ء میں تشکیل پانے والے پاکستان قومی اتحاد کے قیام میں اگرچہ بہت سی دیگر سیاسی وجوہات بھی کارفرما تھیں لیکن پس منظر میں جماعت کی یہ فکر بھی کام کررہی تھی۔ بعد کے برسوں میں کچھ حالات میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور کچھ جماعت کی فکر میں انقلاب آیا جس کے سبب جماعت اس بیانیے سے لاتعلق ہوگئی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے متاثرین اور ہم خیالوں کو اپنی نئی فکر کا قائل نہ کرسکی۔ ان لوگوں کے خیال میں جماعت اپنے نصب العین سے ہٹ کر خالصتاً سیاسی انداز فکر اختیار کرکے اقتدار کی سیاست کاحصہ بن چکی تھی۔ مایوسی کی اس کیفیت میں جماعت کا ووٹ پہلے مسلم لیگ ن کی طرف ملتفت ہوا جو اس وقت دائیں بازو کی ترجمان بن کر ابھر رہی تھی اور اب اس میں سے کچھ حصہ تحریک انصاف کی طرف بھی متوجہ ہوا ہے۔

جماعت کے وابستگان اور اس کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے درمیان یہ ایک مقبول خیال ہے کہ جماعت کی موجودہ قیادت تبدیل کردی جائے یا اس کی ابلاغی حکمت عملی میں کوئی جوہری تبدیلی کردی جائے تو صورت حال بدل جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، اب جماعت کو کچھ ایسا کرنا ہوگا جو اس نے ابھی تک سوچا ہی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).