محفل متراں دی


بروکلین، نیویارک کے 32 بے سیکنڈ باتھ ایونیو پر لالہ چوہدری شہباز کے برس ہا برس سے زیرِ تسلط آپارٹمننٹ کو میں عرف عام میں ”چھڑوں کا ڈیرہ“ کہہ کر پکارتا ہوں۔ کیونکہ چوہدری صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ کئی ”ولائتی“ اور ”دیسی“ شادیاں کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے اس دولت کدہ پر کئی سالوں سے ”چھڑے“ ہی رہتے چلے آ رہے ہیں۔

انکے اس پُر رونق ڈیرہ پر پاکستان سے اور خصوصاً اندرون امریکہ سے نیویارک آنے والے دوستوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جن کی لالہ جی کے ساتھ وہاں مستقل قیام پزیر کرامت صاحب اور فرمان صاحب مہمان نوازی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔

لالہ شہباز کے پندرہ سے بیس دوستوں کا ایک گروپ اکثر ان کے ڈیرہ پر، ہر پندرہ دن بعد نہیں تو کم از کم مہینے میں ایک بار ایک پُرتکلف دعوت کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ دعوت اکثر تمام دوستوں میں سے کوئی ایک دوست رضا کارانہ اپنی کسی خوشی کے اظہار کے طور اپنی طرف سے باقی دوستوں کو کھانا کھلا کر اس محفل میں شریک کرتا ہے۔

بڑے سائز کا سالم بکرا یا اگر مہمان زیادہ ہوں تو دو بکرے بڑے سائز کے دیگچوں میں پکائے جاتے ہیں۔ ویسے تو گروپ میں ایک درجن کے قریب ساتھی اچھے کُک ہیں مگر اپنے عامر چوہدری صاحب کی کُکنگ کے کیا کہنے۔ ! کل رات بھی انہوں نے کمال کا مٹن پکایا، حالانکہ عامر صاحب حال ہی میں گجرات میں بالوں کی ہیئر ٹرانسپلانٹیشن کرنے والے ایک ”کماؤ“ ڈاکٹر سے پونے دولاکھ روپے کے 3500 سو اپنے ہی ”پیچھے سے آگے“ بال لگوا کر واپس پلٹے ہیں۔

ڈاکٹر نے پرہیز کے طور پر انہیں سیک والی جگہ خاص طور پر چولھے کے آگے کھڑے ہونے سے منع کیا ہوا تھا مگر پھر بھی ”یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے“ کے مصداق انہوں نے دوستوں کی محبت میں ہانڈیاں خود بنائیں۔

وہ الگ بات ہے ہے کہ بعد میں پیسنے میں شرابور وہ، ”واہ واہ“۔ ”کیا کہنے“، ”سواد آ گیا“، عامر بھائی! کے آوازے سن کر خوشی سے نہال ہوتے رہے۔

تمام دوستوں کو اطلاع کرنے سمیت اس قسم کی پُر شکوہ دعوتوں کی ساری پلاننگ لالہ شہباز کے ساتھ مل کر اپنے سید ہارون انس شاہ صاحب کرتے ہیں۔

اگر اس قسم کی کسی کے ہاں ”خوشی“ کا کوئی موقع یا امکان نہ بن پا رہا ہو، اور مارکیٹ مندی کا رجحان ہو تو گروپ میں ایک دو ساتھی ایسے بھی ہیں جو ”دعوت بکرا“ کے لیے کسی کے ہاں چھؤٹی موٹی خوشی کے عوض بھی گروپ میں سے ہی کوئی ”مرغا پھانے“ کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

ایسی دعوتوں کے مستقل مہمانوں میں مجھ سمیت شکیل میر، عبدالقدوس میاں، سید ہارون انس، ماسٹر مسعود، عمران بٹ، چوہدری عامر لنگڑیال، راجہ اظہر، رضوان شاکر، کرامت علی، محمد فرمان، عدنان فردین، چوہدری اخلاق، خرم وڑائچ نیو جرسی سے احمد یونس، پہاپا منیر سہیل اور ناصر بھٹی ضروری حصہ ہوتے ہیں۔

ایسی کوششیں رنگ لائیں اور گزشتہ رات حافظ سلیمان نے اپنی زیرو میٹر گاڑی لینے کی خوشی میں دعوت دی ہوئی تھی۔ گروپ میں شامل اکثر دوستوں کی زیادہ تر تعداد ٹیکسی اینڈ لیموزین کمیشن میں کام کرنے والے اوبر اور لفٹ ڈرائیورز کی ہے۔ اس لیے دورانِ محفل گفتگو کے زیادہ تر موضوعات، روز مرہ کی پاکستانی سیاست کے گرد ہی گھومتے ہیں۔

گاڑیوں، پولیس کی جانب سے سے ملنے والی ٹکٹوں، نیویارک پولیس سمن جاری کرنے کے لیے کہاں کہاں چھپ کے کھڑی ہوتی ہے، علاوہ ازیں موٹر مکینکس، آٹو ورکشاپس ٹیکسی میں بیٹھنے والے مسافروں کی عادات ونفسیات بلکہ ان کی ”چغلیاں“ کھل ڈھل کر آپس میں شئر کی جاتی ہیں۔

ہاں کبھی کبھار امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے بات چیت ہو جاتی ہے۔ ورنہ ایسی محفلوں، خصوصاً مقامی دیسی ریستورانوں میں اپنے بھائی لوگ اپنے اپنے علاقوں کی مقامی سیاست، پاکستانی سیاست، اور اپنے اپنے پسندیدہ ٹی وی اینکرز اور ان کے ٹاک شوز کے تبصروں کے اوپر اپنی تجزیہ نگاری کے جائزے پیش کیے جا رہے ہوتے ہیں۔

بعض اوقات تو نوبت اونچی اونچی آوازوں سے ہوتی ہوئی ایک دوسرے کی پارٹیوں کو طعنوں اور گالیوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملہ لڑائی مار کٹائی تک بڑھے، ہوٹل انتظامیہ کا کوئی بندہ آ کر بیچ بچاؤ کراونے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسرا ایک مثب پہلو اور سوچ جو سب سے زیادہ قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ان سب دوستوں نے پاکستان میں ڈیم فنڈ کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ہزاروں ڈالر کی مل کر ایک کمیٹی ڈالی ہوئی ہے۔ اور باقاعدگی کے ساتھ ڈیم فنڈ کے لیے اپنے عطیات بھجوا رہے ہیں۔ جوکہ یقیناً ایک قابل تعریف پہلو ہے۔ اسی لیے بیرون ممالک سے اس ڈیم کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ رقوم امریکہ ہی سے بھجوائی گئی ہیں۔

امریکی سینماؤں میں کون سی نئی مووی چل رہی ہے۔ کون سی اچھی کتاب کی ریکارڈ سطح پر آج کل سیل ہو رہی ہے۔ یا وہ اس کے زیرِ مطالعہ ہے۔ لائبریری میں مہینے میں کون کتنی بار جاتا ہے، بچوں کے ساتھ آیندہ موسم گرما یا سرما میں تفریح کے لیے کس کا، کہاں پر جانے کا پروگرام ہے، اس قسم کے دلکش موضوعات پر گفتگو اکثر دوستوں کی جانب سے کم ہی سننے کو ملتی ہے۔

میری خواہش ہے کہ وطنِ عزیز سے دور کثیر تعداد میں زرمبادلہ ذخائر بھجوانے والے دوستوں کی ایسی دعوتوں اور محفلوں میں دیگر بین الاقوامی سیاسی موضوعات، امریکہ کی اندرونی وبیرونی سیاست خصوصاً خارجہ پالیسی پر بھی کھل کر آپس میں تبادلہء خیال کیا جائے۔ کون سے تھیٹر میں کون سا اچھا ڈرامہ چل رہا ہے کھانے کی دعوتوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی دیکھنے چلیں۔ دن رات محنت مزدوری کرنے کے ساتھ اپنے لیے تفریح کے مواقع پیدا کریں۔ جو کہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).