برطانیہ میں فرقہ واریت کی سازش


اس وقت دنیا کو اگر کسی شے سے خطرہ ہے تو وہ مذہب نہیں ہے بلکہ مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی انتہا پسندی ہے۔ اور یہی انتہا \"sibteپسندی وہ کوکھ ہے جہاں سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بین الا قوامی قوتوں کی آپس کی سیاسی چپقلش نے اس فتنے کو ہوا دی۔ اور مسلم دنیا کی غیر جمہوری قوتوں نے اس سازش میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جس کی سب سے بڑی مثال اس وقت مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال ہے۔ اور اس کے بعد پاکستان ہے۔ شام عراق اور یمن تو تقریباً تباہ ہو چکے۔ پاکستان الحمدوللہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہے۔ لیکن بہت بڑی قیمت ادا کر چکنے کے بعد۔ ساٹھ ہزار ذندہ جیتے جاگتے انسانوں کا خون کوئی معمولی قربانی نہیں ہے۔ اگر ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک ندی بہہ نکلے۔ پاکستانی قوم نے بڑی ہمت سے آگ اور خون کے اس دریا کو عبور کیا ہے۔ لیکن فتنہ ابھی مکمل طور ختم نہیں ہوا۔ پچھلے ہفتے سعودی عرب میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اور جس مقام کو نشانہ بنایا گیا وہ مسلمانوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد نبویﷺ ۔ کعبہ یعنی اللہ کا گھر اور بیت المقدس۔ یہ تین مقدس ترین مقامات ہیں۔ مسجدنبویﷺ پر حملہ بیک وقت ان تینوں مقامات پر حملہ ہے۔ کیا اب بھی کسی دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ مذہب کے نام پر پھیلائے ہوئے اس فتنے کا براہ راست نشانہ اسلام نہیں ہے؟

 مذہب کے نام پر پھیلائے گئے اس فتنہ تہ الکبریٰ کے ایک سے زیادہ چہرے ہیں۔ ایک تو وہ ہے جسے مذہب کے غلبے اور دنیا کے مروجہ نظام ہائے حکومت کو بزور قوت مٹا کر اپنا مخصوص مذہبی نظام نافذ کرنے کا مخصوص ایجنڈا ہے۔ جس کے وکلا ہر محاز پر سرگرم ہیں۔ اخبارات کے صفحات سے لیکر ٹی وی کی سکرین تک ان سے محفوظ نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ بڑی حد تک ان کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ اور ذرائع ابلاغ سے ہٹ کر محراب و منبر سے بھی یہ طبقہ اپنا کام بخوبی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اصل ضرب عضب اس وقت شروع ہو گی جب اس طبقے پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ دوسرا چہرہ اس مہیب فتنے کا بدترین فرقہ واریت ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے مذہبی جنونیت پیدا ہو رہی ہے۔ اور اس وقت بدقسمتی سے کوئی بھی ایسا مسلم فرقہ نہیں ہے جو اس فتنے سے مکمل بچا ہوا ہو۔ ہر فرقے کے دامن میں ایسے شر پسند اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو ساتوں دن صبح و شام امن کے درپے رہتے ہیں۔ قرآن مقدس نے ایسے ہی عناصر سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے۔ ” جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ کی زمین پر فساد مت پھیلاو، تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“ ایشیا و افریقہ کی مسلم دنیا تو اس فتنے کی بھڑکائی ہوئی آگ کا براہ راست نشانہ ہے ہی۔ اور جو جو مقامات ابھی تک اس آگ کی تپش سے قدرے بچے ہوئے تھے،انہیں تاک تاک کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی کے بعد بنگال کی صورتِ حال یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے۔

دوسری طرف مغربی دنیا ہے۔ جہاں ایشیا سے لیکر افریقہ تک کے مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ مثلاً جرمنی میں صرف ترک مسلمانوں کی تعداد دو ملین سے زائد ہے۔ یہی صورت حال برطانیہ کی ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کی تعداد ایک ملین سے زائد ہے۔ امریکہ سے لیکر برطانیہ تک اور ابھی حال ہی میں فرانس اور بیلجیم تک دہشت گردی کا براہ راست نشانہ بن چکے ہیں۔ یہاں کے جمہوری نظام کو سلام ہے کہ مسلمان ان بڑے واقعات کے بعد بھی پوری طرح محفوظ ہیں۔ شائد امن کی یہی صورت حال دیکھ کر امن کے دشمن اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر پا رہے۔ اب کچھ عرصے سے مسلمانوں کے اندر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی ایک منظم سازش پرورش پا رہی ہے۔ میں نے اس پر تسلسل سے لکھا ہے۔ اور ضرورت ہے کہ دوسرے لکھنے والے بھی اس طرف توجہ دیں۔ بی بی سی نے اس طرف توجہ دی ہے۔ اور اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ برطانیہ میں تقریباً 100ایسے” علما “موجود ہیں جنہوں نے ایک فرقے کو کافر قرار دیتے ہوئے فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ ذہن نشین رہے یہ وہ فرقہ نہیں جسے پاکستان کے قانون نے غیر مسلم قرار دے رکھا ہے۔ لندن میں واقع اس فرقے کی عبادت گاہ کی بیرونی دیوار پر بھی اس فتوئے کو رقم کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ رات گئے برطانوی مذہبی ٹی وی چینلوں پر مناظرے بھی ایک عام سی بات ہے۔ مشرقی لندن میں واقع ایک اہم ترین مقام پر پچھلے سال ایک مخصوص جلوس کے بعد پاکستان سے خصوصی دعوت پر بلائے گے ایک خطیب کی تقریر سننے کا مجھے اتفاق ہوا ۔ جس پر میں نے ایک پورا کالم لکھا تھا۔ اس سال ٹھیک اسی مقام پر پچھلے اتوار 3جولائی کو ایسا ہی واقعہ پھر پیش آیا۔ لیکن اس دفعہ اس کی سنگینی تمام حدود کو توڑ گئی۔ اس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ اگر یہ واقعہ کسی مسلم ملک میں پیش آیا ہوتا تو اس وقت وہاں بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلی جا چکی ہوتی۔ اس واقعے کی وڈیو یو ٹیوب پر چڑھائی جا چکی ہے۔ آج جب میں نے اسے دیکھا تو اڑھائی ہزار لوگ اس خطرناک نفرت بھری تقریر کو سن چکے تھے۔ جس میں ایک عرب خدوخال کا نوجوان ایک مخصوص فرقے کے علما کا لباس زیب تن کیے ہوے انگریزی میں تقریر کر رہا ہے۔ اور وہ کچھ کہہ رہا ہے جس کو یہاں اشارتاً بھی لکھا نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے کہ دوسرے فرقوں والے اس کا نوٹس لیں اور معاملات کنٹرول سے باہر ہو جائیں۔ اس فرقے کے آکابرین اور علما کا کام ہے کہ بغیر کوئی وقت ضائع کیے ہوئے اس کا نوٹس لیں۔ جن کے فرقے کے جھنڈے تلے یہ فتنہ پل رہا ہے۔ بہت سارے دوسروں کی طرح میں خود حیران ہوں کہ برطانوی مقتدرہ کیا اس فتنے سے بے خبر ہے؟  کیا وہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب یہاں بھی بے گناہ لوگ اس فتنے کا شکار ہوں گے؟ دیگر ساری دنیا کی طرح اس فتنے کا کوئی براہ راست شکار ہو گا تو وہ ایک عام مسلمان ہوگا۔ اور وہ عام مسلمان کس دن بیدار ہو کر اس فتنے سے آگاہ ہو گا جو اس کی آئندہ نسل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments