بے روزگاری کے فوائد


میری اس وقت آنکھیں فرط جذبات سے نم ہو گئیں جب میں نے حکومت کو پوری محنت کے ساتھ بے روزگاری میں اضافے کے کام کرتے ہوئے دیکھا، وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے گذشتہ برس کے اعداد و شمار پر لیبر فورس سروے رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں فی الحال موجودہ حکومت کی طرف سے معیشت کی تباہی کے عظیم الشان اثرات کا کوئی ذکر نہیں کہ ادارے بند ہو رہے ہیں، ملازمین فارغ کئے جا رہے ہیں، خود میرے اپنے شعبے سے ایک انداز ے کے مطابق پندرہ ہزار صحافی بے روزگار ہو چکے۔ اس صورتحال میں وہ ادارے اور مالکان خراج تحسین کے مستحق ہیں جو مختلف طریقوں سے کارکنوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں مگراس کے باوجود یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ بے روزگار افراد کی تعداد میں ایک لاکھ 70 ہزار کا اضافہ ہوا اور یوں یہ تعداد الحمدللہ 37 لاکھ 90 ہزار ہو گئی ہے۔

 کیا آپ جانتے ہیں کہ بے روزگاری کتنی بڑی نعمت ہے اور اگر نہیں جانتے تو اس مضمون کا مطالعہ یقینی طور پرآپ کے علم میں اضافہ کرے گا۔ بے روزگاری فراغت لاتی ہے اور دنیا بھر میں فراغت کے حصول کے لئے بڑے بڑے عہدے دار اور سرمایہ دار تڑپتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ امریکا کے ایک صدر کو چھٹیوں کی صورت میں فراغت نصیب ہوئی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ افریقہ کے ایک ملک میں لطف اندوز ہونے کے لئے پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے ایک قصبے میں جھیل کنارے بیٹھے خوب صورت بچے کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھا۔ صدر کو وہ بچہ بہت پسند آیا، اپنی بیوی سے مشورے کے بعد پیشکش کی کہ وہ ان کے ساتھ امریکا چلے۔ بچے نے پوچھا، وہ امریکا جا کے کیا کرے گا، جواب ملا کہ تمہیں پڑھائیں، لکھائیں گے، بڑا آدمی بنائیں گے۔بچے نے پھر پوچھا کہ وہ بڑا آدمی بن کے کیا کرے گا، پھر جواب ملا کہ تم ہماری کمپنی کے سی ای او بن جانا ، سیاست میں حصہ لینا اور امریکا کے صدر منتخب ہوجانا۔ بچے نے مزید سوال کیا کہ وہ امریکا کا صدر بننے کے بعد کیا کرے گا تو اسے مزید جواب ملا کہ وہ دنیا پر حکمرانی کرے گا، اس کے ایک اشارے پردنیا بھر میں حکومتیں بنیں گی اور ٹوٹیں گی۔ بچے کا استفسار تھا کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ امریکی صدر اس سوال کو سن کر سٹپٹائے او ربولے کہ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد تم ریٹائر ہوجانا اور اس قصبے میں آ کر مچھلیاں پکڑنا۔ وہ بچہ مسکرایااور بولا، یہ کام تو اتنی محنت کرنے اور وقت ضائع کرنے سے پہلے ہی کر رہا ہوں۔ سو پیارے پڑھنے والو، ذرا اس فراغت کی اہمیت کو سمجھو۔

سیانے کہتے ہیں کہ دنیا میں جتنی بھی اہم ایجادات ہیں وہ فراغت ہی سے وجود میں آتی ہیں مثال کے طور پر نیوٹن کا کشش ثقل کا قانون ہے جس کی بنیاد پر بڑی بڑی ایجادات کو ممکن بنایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نیوٹن ایک درخت کے نیچے سو رہا تھا کہ اس کے سرپر ایک سیب آ کے گرا۔ اب اس معاملے کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر نیوٹن فارغ نہ ہوتا تو وہ ایک درخت کے نیچے سونے کی بجائے کہیں محنت مزدوری کر رہا ہوتا تو سیب اس کے سر پر کیسے گرتا۔ دوسرے اگر وہ فارغ نہ ہوتا تو سیب گرنے کے بعد اس پر غوروفکر کرنے کی بجائے اسے کھا جاتا اور اپنے کام میں دوبارہ لگ جاتا تو قانون کیسے جنم لیتا مگر اس نے سیب کے گرنے کے بعد بیٹھ کے غوروفکر شروع کر دیا کہ یہ درخت سے نیچے سر پر ہی کیوں گرا، یہ ٹوٹنے کے بعد اوپر آسمان کی طرف کیوں نہیں چلا گیا، وہ فارغ بیٹھا سوچتا رہا، سوچتا رہا اور بالآخر کشش ثقل کا قانون دریافت کر لیا۔ اب آپ کو اندازہ ہوا ہو گا کہ جب حکومتیں شہریوں کو بے روزگار کر کے فراغت عطا کرتی ہیں تو وہ کیسے کیسے دانش ور اور سائنسدان پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ اب آپ اپنے بستر پر لیٹ کر غوروفکر شروع کر سکتے ہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے نتائج اتنے ہی حیران کن ہوں گے جتنے جوتوں کے ایک سٹور پر سیل کے لئے لگائے گئے بینر پر لکھا ہوا تھا حیران کر دینے والی رعایت۔ ایک خاتون نے جوتا پسند کیا اور پوچھا کہ اس کی قیمت کتنی ہے، جواب ملا اصل قیمت ہے چار ہزار روپے اور سیل میں آپ کو ملے گا تین ہزار نو سو نوے روپے میں، وہ خاتون چیخ کر بولیں صرف دس روپے کی کمی، سیلز مین مسکرایا اور بولا، دیکھا، آپ کو حیرت ہوئی ناں، ہماری سیل ہی حیران کر دینے والی ہے۔

دیکھو دوستو! زندگی ان کی بھی گزر جاتی ہے جو ساری عمر کچھ نہیں کرتے بس گھر پر بیٹھ کے دوسروں کی کمائی سے روٹیاں توڑتے ہیں اور گزر ان کی بھی جاتی ہے جو تھوڑے تھوڑے پیسے کمانے کے لئے نااہل اور نکمے باسز کی باتیں سنتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ گالیاں تو دونوں کو ہی سننی پڑتی ہیں چاہے وہ گھر والوں کی سن لی جائیں یا باس کی لہذا عقل مندی یہی ہے کہ بغیر کچھ کئے ہی باتیں سنی جائیں۔ کہتے ہیں کہ بے روزگاری صحت کے لئے بھی بہت مفید ہے کہ صحت اسی وقت خراب ہو گی جب آپ دن رات محنت کریں گے، کبھی سر میں درد ہو گا اور کبھی بخار ہوجائے گا لیکن جب آپ بے روزگار ہوں گے تو ایسی کوئی جسمانی تھکن اور ذہنی مشقت آپ کو نہیں کرنی پڑے گی،اگر کوئی حکومت اپنے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے توا س سے بڑا عوام کا ہمدرد کوئی نہیں ہے۔ میں نے آج تک کسی بے روزگار کو کے ایف سی، میکڈونلڈ اور او پی ٹی پی جیسی مضر صحت اور غیر ملکی اشیاء ٹھونستے ہوئے بھی نہیں دیکھا، اگراس کے پاس عیاشی کرنے کے لئے سو، پچاس روپے آبھی جائیں تو وہ انڈا شامی برگر کھاتا ہے اوروزیراعظم کے ویژن کے مطابق انڈوں کی فروخت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ بے روزگاری ہمارے بہت سارے سماجی مسائل بھی حل کرسکتی ہے کہ ہم سب اپنے معاشرے میں بڑھتے ہوئے مغربی اثرات سے شدید نالاں ہیں لیکن اگر آپ بے روزگار نہیں ہیں اور اچھا خاصا کما رہے ہیں تو آپ اپنے بچوں کو مہنگے انگریزی میڈیم سکول میں داخل کروا دیں گے جہاں سے ویلنٹائن اور ہالووین ڈیز سمیت نجانے کون کون سے خرافات سیکھ کے آجائیں گے ۔ اگر آپ بے روزگار ہیں تو آپ کی دوڑ مدرسے یا سرکاری سکول تک ہی ہو گی جس سے آپ کے بچے مشرقی تہذیب کے نمونے بن کے باہر نکلیں گے اور عین ممکن ہے کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح بے روزگاری کی عظیم الشان بے فکری والی زندگی گزاریں۔

چھوٹے موٹے کام کرنے والوں کے لئے بے روزگاری بہت ضروری ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو سڑکوں اور مارکیٹوں میں تجاوزات قائم کرتے ہیں، بازاری اور گھٹیا زبان استعمال کرتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ لبرٹی سے شاہ عالمی تک ان تجاوزات والوں کو گھروں میں بٹھانے سے مارکیٹیں اور بازار کتنے کھلے ڈلے اور صاف ہو گئے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسی بے روزگاری کے ذریعے ہی پرانے اور گندے پاکستان کی جگہ ہم نیا اور صاف ستھرا پاکستان بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ میری باتوں سے اتفاق کرتے ہیں اور نیوٹن کی طرح عظیم الشان کردارادا کرنا چاہتے ہیں تو بے روزگاری کے فروغ میں جناب اسد عمر کا ساتھ دیں۔ مجھے یقین ہے کہ محض چھ ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں ستتر فیصد کمی، غیر ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافے، مہنگائی کی شرح کو سات فیصد تک لے جاتے ہوئے ہم بے روزگاری کو کم از کم دس گنا ضرور بڑھا سکتے ہیں۔ اس کا ایک اور فائدہ آبادی میں کمی کی صورت میں بھی ہوگا، بے روزگار نہ صرف بچے پیدا کرتے ہوئے ڈریں گے کہ انہیں پالنا کیسے ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ خود کشیوں کی صورت میں ہم بھی آبادی میں کمی کا وہ خواب پورا کر لیں جو ہمارے جانے والے چیف جسٹس نے دیکھا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).