نواز شریف کو یقین تھا کہ ایٹمی وزیراعظم کے خلاف بغاوت ناممکن ہے


کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی مثال گھوم گھوم کر ہماری حقیقت ہی کیوں بنتی ہے۔ جو پہاڑ ہم کھودتے ہیں اس کے اندر سے چوہا کیوں برآمد ہو جاتا ہے۔ ہم ہمیشہ غلط پہاڑ کی کھدائی میں جت جاتے ہیں یا غلط پہاڑ ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ جن اقوام نے ہمارے سامنے اپنے پہاڑوں پر کھدائی شروع کی، وہاں خزانے برآمد ہو گئے۔ ادھر ہم ہیں کہ اکہتر سال سے کھودے چلے جا رہے ہیں اور کبھی ایک پہاڑ کبھی دوسرا، مگر نکلتا چوہا ہی ہے۔

بیس سالوں میں پہاڑوں کی کھدائی کے نتائج دیکھیں۔ جب 1999 میں ہم باضابطہ طور پر نئی نئی ایٹمی قوت بننے کے مزے لے رہے تھے، بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور کے مینار پاکستان پر تقریر کر چکے تھے کہ پاکستان کو بھارت کی مہر نہیں چائیے، اس کی اپنی مہریں چلتی ہیں کہ کارگل ہو گیا۔ پتہ چلا کہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے والا نواز شریف در اصل غدار ہے۔ دوسری طرف نواز شریف کے نزدیک فوجی حکومت غیر ایٹمی پاکستان میں تو آسکتی ہے مگر اب ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیر اعظم کے خلاف فوج کوئی کارروائی نہیں کرے گی اور اسی یقین کے بطن سے پرویز مشرف نمودار ہوئے، تاریخ تھی 12 اکتوبر۔

14 اکتوبر کے اخبارات کے صفحہ اول پر امریکہ سفیر کا بیان دمک رہا تھا، ”پرویز مشرف اس خطے میں امریکہ کی آخری امید ہیں“۔ یقین دلایا گیا کہ اب پاکستان میں بے رحم احتساب ہو گا اور کوئی چور بچ نہیں پائے گا، ابتدائی دنوں میں بے نظیر بھٹو نے مشرف حکومت کو ساتھ دینے کا یقین دلاتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا مگر یہاں مشرف سے امیدوں کا ایسا طوفان اٹھ چکا تھا کہ انہوں نے کسی سیاسی جماعت کی مدد کو ضروری خیال نہ کیا، مشاہد حسین سید راوی ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے آرمی چیف پرویز مشرف سے بات کرنے کے لئے آرمی ہاؤس خود کالز کی مطلب یہ کہ آپریٹر سے نہیں خود کالز کر کے آرمی ہاؤس کے آپریٹر سے کہا کہ میں بے نظیر بھٹو بات کر رہی ہوں میری بات جنرل مشرف سے کروائیے اور ہولڈ کروانے کے بعد انہیں بتایا جاتا کہ جنرل مشرف مصروف ہیں۔

پنجاب میں میاں اظہر سابق گورنر ہی تھے جن کی گفتگو پرویز مشرف سے ہوتی تھی۔ میاں اظہر سیاستدانوں میں ایسی شان سے گھومتے جیسے نوجوان لڑکیوں کے ہجوم میں کسی ایک کو خوابوں کے شہزادے کے رشتے کا پیغام موصول ہو جائے مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ سنڈریلا نہیں بلکہ اس کی ماں کا کردار نبھا رہے تھے۔

فضاؤں میں تیرتے ہوئے ملک پر قبضہ کرنے کی ادا نے آسمان سے مسیحا اترنے کی شرط کسی حد تک پوری کردی اور مسیحا نے ہمیں ایک سات نکاتی ایجنڈا عطا کر دیا۔ اب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، تھانوں میں رونق لگ گئی، جنرل امجد نیب کے سربراہ بنے، جنرل تنویر نقوی نے قومی تعمیر نو کے سربراہی سنبھال لی، اور ترقی کا نیا سفر شروع ہوا، تین سالوں کی کھدائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل امجد نیب کی سربراہی چھوڑتے وقت جنگ کے پینل کو بس ایک انٹرویو عطا فرما گئے جس میں بے بسی اور دکھ کا برملا اظہار کیا اور بتایا کہ وطن عزیز کے ساتھ جو مظالم کیے گئے ہیں وہ بتا نہیں سکتے، مگر یہ ضرور کہ وہ کسی سویلین وزیراعظم کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔

مرحوم ارشاد حقانی اصرار سے لکھتے رہے کہ خدارا، جنرل صاحب اگر کچھ اور نہیں تو بتا تو جائیں کہ آپ کی نظر میں مجرم کون ہیں۔ جواب میں کچھ نہیں ملا۔ کمال کا جذبہ شہادت ہے، سچی شہادت یا گواہی، کا مقام زندگی دے کر شہادت سے کم تو نہیں۔ مگر ہمارے اعلیٰ فوجی افسران شاید اس منطق سے متفق نہیں۔ ادھر مشرف کی کھدائی سے چوہدری برادران سمیت پیپلز پارٹی پیٹریاٹ برآمد ہوئی، میر ظفر جمالی جیسا تحفہ وزیر اعظم بنا، سندھ میں علی مہر نامی ایک دلچسپ کردار وزیر اعلیٰ بنا، یہ وہی حضرت ہیں جو نیلا کرتہ اور سفید شلوار پہنے آج کل وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرتے ہیں۔ مقتدرہ کو ایسا گوہر نایاب دوسرا کون ملتا، اور یوں احتساب کا عمل اپنے شاندار انجام کو پہنچ گیا۔

فوجی آمریت، جاگیرداری اور ملا بھائی کا بے مثال اتحاد تو ہمیشہ سے تھا ہی مگر جنرل مشرف کو یہ اعزاز بھی ملا کہ خود کو لبرل کہلانے پر مصر طبقات بھی جنرل مشرف کو دل و جان سے چاہنے لگے، خوشگوار شامیں، جنگ کی ریل پیل، ڈالروں کی بارش اور شیخ رشید کی انقلابی وزارت اطلاعات ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے کہ نو مارچ 2007 کو اچانک ایک نیا پہاڑ ہمارے سامنے آیا اور قوم نے پھر کھدائی شروع کر دی، مسیحا بدل چکا تھا، یا یوں کہیں کہ نیا مسیحا سامنے آ چکا تھا۔

افتخار چودھری نامی یہ مسیحا جس کو چیف جسٹس بنوانے میں چوہدری شجاعت حسین کا مٹی پاؤ میرٹ کام آیا تھا اب ہماری امیدوں کا واحد مرکز بنا، ہم نے کھدائی شروع کر دی۔ ”ریاست ہو گی ماں کے جیسی والا“ خواب بڑا دلکش تھا ہم نے دیکھنا شروع کر دیا اور پھر یوں ہوا کہ وہ خواب چیف جسٹس کی بحالی کی حد تک پورا ہوگیا۔ آدھی منزل یا ادھورے خواب پورا ہونے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔

جب میں جیو نیوز سے منسلک تھا اور کراچی سے مارننگ شو کا میزبان تھا تب، بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، پس منظر آپ جانتے ہیں کہ مشرف نے جیو کو کیسے زچ کیا تھا اور دوبئی تک سے جیو کی نشریات بند کروا دی تھیں۔ حامد میر کا کیپٹل ٹاک کچھ دن محمد مالک نے ہوسٹ کیا تھا۔ ان دنوں دفتر کی ایک ملاقات میں میر ابراہیم رحمان نے کہنے لگے، Aniq sb always be careful what you wish for، میں نے مطلب پوچھا تو کہنے لگے ”دیکھیں ہم مشرف سے جان کی چھڑانے کی خواہش میں لڑتے رہے، اپنا اربوں روپے کا نقصان کروا بیٹھے، اور جیت آصف زرداری گئے“۔ اب ایک نئی لڑائی کا سامنا تھا۔ ایک اور کھدائی شروع ہوئی۔

یہ وقت وہ تھا جب لندن پلٹ شریف برادران، اخبار نویسوں سمیت ہر کسی کو یقین دلا رہے تھے کہ جلا وطنی کے بعد وہ تبدیل شدہ فرشتوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اب وہ کبھی سایوں کی مدد نہیں لیں گے، جمہوریت کو مضبوط کریں گے، کابینہ مختصر ترین ہو گی، اہل افراد ہی حکومتی اداروں کو سنبھالیں گے جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا، نوجوانوں کو طاقت ملے گی، اور گورننس کی ایسی مثال پیش کریں گے کہ مغربی دنیا ہم سے شرمائے گی۔

ادھر زرداری حکومت روتی دھوتی بھی رہی اور پیسہ بھی چھاپتی رہی۔ وقت پورا ہونے پر، لندن پلٹ نواز شریف، وزیر اعظم بن گئے اور چند دن بھی نہ گزرے کہ لندن پلٹ کو احساس ہوا کہ ترقی کی اصل کنجی لندن میں بیٹوں کا کاروبار بڑھانے اور لندن کے بارہا دوروں میں چھپی ہے۔ اب وقت آیا کہ عمران خان نے دھرنے کی کال دے ڈالی، ایک نیا شور، نیا ہنگامہ، ہم نے پھر پہاڑ کھودنا شروع کر دیا۔ دھرنا تو کامیاب نہ ہوا البتہ ہماری بے چینی کو قرار دلوانے کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار مسیحا کا روپ دھار چکے تھے۔

ان کی مسیحائی پہلے سندھ میں پیپلز پارٹی پر اترنا شروع ہوئی، لندن پلٹ نواز شریف اور شہباز شریف نے صورتحال کا خوب مزا اٹھایا اور جو کچھ ہو رہا تھا اسے آئین کے عین مطابق قرار بھی دے ڈالا۔ ادھر عمران خان نے جس پہاڑ کی کھدائی شروع کی تھی اس کی بنیادوں میں اچانک پانامہ پیپرز کا دھماکہ ہو گیا، پورا پہاڑ ہی لرز اٹھا اور باقی کام نئے نویلے مسیحا نے خود اپنے ذمے لے لیا۔ انتخابات ہوئے، کامیابی کو عمران خان نے اپنی اور خود کی تحریک کا پھل جانا، عوام کا مسیحا ایک بار پھر بدل چکا تھا، فطری طور پر یہ جاتے ہوئے مسیحا کو ناگوار گزرا۔ اب مسیحائی کا رخ کے پی کے کی جانب مڑا تو سہی مگر ہاتھ سے پھسلتی ریت کی طرح وقت نکل گیا۔ سیاست دانوں کی تصاویر سرکاری اشتہارات سے نکال کر درست مسیحا کی تصویریں تو لگتی رہیں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں بچا تھا۔

کمال کے واقعات ہوئے، دورہ برطانیہ، انیل مسرت کی میزبانی، سرکاری افسروں کو مولا جٹ والی دھمکیاں، میڈیا کو دھمکیاں، کاروباری افراد کو دھمکیاں، خود وکیلوں کو طعنے۔ ملک ریاض سے کمرہ عدالت میں سبزی منڈی والے بھاؤ تاؤ ہوئے، نتیجہ پھر بھی ٹائیں ٹائیں فش۔ جسٹس ثاقب نثار کا دور ہر طرح سے غیر معمولی رہا، بس ایک کام رہ گیا، پہاڑی سلسلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی تقریر پڑھیں تو قانون اور شاعری کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک ایک فقرے پر داد دینے کو دل مچل جاتا ہے لیکن آپ جانتے ہیں اس حسین گفتگو میں کیا چھپا ہے؟ ایک اور کدال، ایک اور پہاڑ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).