آدمی اکیلا کیوں رہ جاتا ہے؟


منٹو اور عصمت نے بھی وقت سے آگے نکلنے کی سزا کاٹی اور اب سنیل گنگو پادھیائے کی باری ہے۔

منیر نیازی کی ایک انتہائی انوکھی اور مختصر سی نظم ہے۔ اس نظم کی اور باتوں کے علاوہ اس کا ایک انوکھا پن یہ ہے کہ اس کا عنوان نظم کے متن سے بڑا ہے۔ یہ نظم انہوں نے پہلے پنجابی میں لکھی اور پھر خود ہی اسے اردو میں بھی کیا۔

نظم کا عنوان ہے : ویلے توں اگے لنگن دی سزا
اور نظم ہے : بندہ کلّا رہ جاندا اے
یعنی: وقت سے آگے نکنے کی سزا
آدمی اکیلا رہ جاتا ہے

اس وقت میں منیر نیازی کی شاعری پر یا اس نظم پر بات نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس نظم کے ذریعے سعادت حسن منٹو کو یاد کرنا چاہتا ہوں اور اس کی وجہ ہے مغربی بنگالی کے اس وقت بلا مبالغہ زندہ ادیبوں میں سب سے بڑے ادیب اور دانشور سنیل گنگو پادھیائے کے خلاف کولکتہ کی ایک عدالت کا یہ حکم کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے اور انہیں تین دسمبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

یہ مقدمہ صرف ان پر ہی نہیں دوسرے تین افراد پر بھی بنایا گیا ہے اور اور انہیں بھی عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان لوگوں میں بنگال کے سب سے بڑے اخبار ’آنند بازار پتریکا‘ کے مدیر اویک کمار سرکار، اخبار کے ناشربجت کمار باسو اور چیف ایگزیکٹیو سوبر مترا شامل ہیں۔

اخبار ’آنند بازار پتریکا‘ نے چند مہینے قبل سنیل گنگو پادھیائے کا ایک بیان شائع کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ علم کی دیوی سرسوتی کی مورتی کو دیکھ کر ان میں جنسی جذبات پیدا ہوتے تھے۔
اکہتر سالہ سنیل نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ جب نوعمر تھے، انھوں نے اپنے انہی جنسی جذبات سے مغلوب ہو کر ایک بار سب کی آنکھ بچا کر سرسوتی کا بوسہ بھی لیا تھا۔

ان کے اس بیان کے اشاعت کے بعد ایک ریٹائرڈ پولیس افسر بیبھوتی بھوشن نندی نے عدالت سے درخواست کی کہ سنیل گنگو پادھیائے نے ان کے اور ان جیسے ہندوؤں کے جذبات مجروح کیے ہیں اور ایک ایسی دیوی کی بے حرمتی کی ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں۔

عدالت نے بیبھوتی بھوشن نندی کی درخواست سننے کے بعد مذکورہ بالا حکم جاری کر دیا اور اب تین دسمبر کو سنیل اور آنند بازار پتریکا کے مدیر، ناشر اور چیف اگزیکٹیو کو عدالت میں پیش ہونا ہے۔
سنیل گنگو پادھیائے کی اس وقت تک 250 سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ناول، افسانے، شعری مجموعے اور سفرنامے سب کچھ شامل ہیں۔

بیبھوتی بھوشن نندی کی شکایت اپنی جگہ لیکن جسے سرسوتی کا حسن و جمال متاثر نہ کرے اس کے مرد تو مرد انسان ہونے پر شک کیا جانا چاہیے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ سنیل جی کے بیان سے سرسوتی کے حسن کا ایک نیا پہلو اجاگر ہوا ہے لیکن سنیل گنگو پادھیائے کو تو اس بات کی سزا ملنی چاہیے کہ انہوں نے غالب کو نہیں پڑھا یا پڑھا ہے تو غور سے نہیں پڑھا ورنہ غالب نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا:

ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

ورنہ عدالت کو بھی یہ سوچنا چاہیے تھا کہ مدعیہ تو سرسوتی کو ہونا چاہیے تھا جس کا سنیل گنگو پادھیائے نے جنسی جذبات سے مغلوب ہو کر بوسہ لیا اور مدعیہ کو بھی یہ شکایت یا انصاف طلبی کی درخواست اس وقت کرنی چاہیے تھا جب ملزم نے واردات کی تھی، جب اتنے عرصے وہ بوسہ لیے جانے کے بعد چپ رہی ہیں تو اب بیبھوتی بھوشن نندی جی کے جذبات کہاں سے بیچ میں آ گئے۔ شاید بھوشن نندی جی رقابت اور حسد کے جذبات کے تحت عدالت پہنچ گئے ہیں۔ ویسے بھی ان کا طریقہ پولیس والا نہیں۔

لیکن مدعاعلیہ بھوشن نندی کہتے ہیں کہ وہ براہ راست عدالت میں اس لیے آئے ہیں کہ ملزم انتہائی با اثر ہے اور پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کے کہنے پر بھی ملزم کے خلاف وہ نہیں کرے گی جو وہ چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم بھی عدالت ہی سے کہتے ہیں کہ وہ مدعی سے سرسوتی کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے کہے اور اگر وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ ملزم نے ان کا بوسہ لیا تھا اور یہ ملزم کا تخیلاتی یا شعری خیال نہیں ہے اور یہ کہ انہیں اس کے باوجود بھی ملزم کے بیان اعتراض اور اس کے خلاف کارروائی سے دلچسپی ہے تو ضرور یہ کارروائی کی جائے، ورنہ تو اس کارِ فضول میں پڑنے سے کیا۔ کل کوئی شیو لنگ کا بوسہ لینے کا انکشاف کر دے گا اور کوئی اور اس بارے میں جذبات کے مجروح ہونے کا مقدمہ لے کر آ جائے گا تو عدالت کیا کرے گی؟

عدالت کو یہ بات ذہن پر رکھنی چاہیے کہ ادیبوں پر اس سے پہلے بھی برصغیر میں مقدمات بنتے رہے ہیں۔ مثلاً سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کے افسانوں پر بھی مقدمات بنائے گئے اور لاہور میں رائے صاحب لالہ سنت رام کی عدالت نے منٹو پر دو سو روپے جرمانہ بھی کر دیا جب کہ انہیں افسانوں کے پورے مجموعہ پر ساڑھے تین سو روپے معاوضہ ملا تھا۔

لیکن آج رائے صاحب لالہ سنت رام کا نام تاریخ میں ہے تو اس مضحکہ خیز فیصلے کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے ایک ایسے ادیب کو فحش نگاری پر جرمانہ کیا اور یہ سزا دی کہ اگر اس نے جرمانہ ادا نہ کیا تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا جسے آج اردو سب سے بڑا اور دنیا کا ایک اہم افسانہ نگار تصور کیا جاتا ہے اور معتوب افسانے دھواں اور کالی شلوار سمیت تمام افسانے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد جو اب اس بات پر ہنستی ہے منٹو اور عصمت کے افسانوں کو فحش بھی سمجھا جاتا تھا لیکن کیا کیا جائے ایسے لوگوں کی آج بھی کمی نہیں جو اپنا اور اپنے ارد گرد کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔

ایسے لوگ معاشرے میں تو ہوتے ہی ہیں لیکن جب یہ لوگ صحافت میں پہنچ جاتے ہیں تو بہت نقصان دہ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے بچوں پر اعتماد نہیں کرنے دیتے اور انہیں ان کے پڑھ کر بگڑ جانے کے خوف سے ڈراتے رہتے ہیں۔

منٹو اور عصمت نے وقت سے آگے نکلنے کی سزا کاٹی اور اب سنیل گنگو پادھیائے کی باری ہے۔ یہ وقت تو گزر جائے گا لیکن سنیل جی کا نام اور ان پر چلایا جانے والا یہ مقدمہ مستقبل کے لوگوں کو یہ بتانے کے لیے باقی رہ جائیں گے کہ اکسیویں صدی میں بھی برصغیر میں کیسے کیسے لوگ اور عدالتیں تھیں۔
(جون 2006 میں ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ خارج کر دیا گیا تھا)۔
7 اکتوبر 2005


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).