جج خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں


جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی دو حضرات کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا۔ ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور دوسرے چیف جسٹس ثاقب نثار۔ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس صدیقی کی ایک تقریر نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے سب سے بڑے فیصلے کو اتنا متنازع بنا دیا کہ فیصلہ بے حیثیت ہو کر رہ گیا۔ چیف جسٹس کے تمام اہم فیصلوں کی حیثیت خس و خاشاک کی طرح بہ گئی۔

ہماری تاریخ میں دو کردار بڑے اہم گزرے ہیں۔ ایک مولوی تمیزلدین اور دوسرے جسٹس منیر۔ جسٹس منیر کے بدقسمت فیصلے نے ریاست پاکستان اور عدلیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان کی تاریخ میں ان کو ہمیشہ ”جمہوریت دشمن“ کے نام سے یاد رکھا جائے گا جبکہ مولوی تمیز الدین خان کو نسل در نسل احترام اور محبت سے یاد کیا جائے گا۔

تاریخ کے اس آئینے میں اگر ہم جسٹس ثاقب نثار کی تصویر دیکھنا چاہیں تو ہمیں جسٹس منیر نظر آئیں گئے اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے عکس پر سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے دو معزز جج صاحبان جسٹس محمد بچل میمن اور جسٹس محمد بخش جنہوں نے مولوی تمیزالدین کے حق میں تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا نظر آئیں گئے۔ بعد میں اس فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس منیر نے کالعدم کروا کر گورنر جنرل غلام محمد کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں کے راستے کو ہموار کیا۔ اور آج تک ملک کا جنتا بھی نقصان ہوا ہے اس میں اس فیصلے کا مرکزی کردار یے۔

مستقبل میں یہ ضرور لکھا جائے گا کہ جب عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا تھے ہمارے چیف جسٹس ڈیم بنانے، ہسپتال درست کرنے، سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھے۔ اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ معزز عدالت میں سرعام چیف جسٹس ملزمان کے ساتھ ساز باز کرتا نظر آیا۔ ہزار ارب دے دو اور تمام مقدمات ختم کروا دو۔ ایسا چیف جسٹس تو دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں گزرا ہو گا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ایک فقید المثال جج تھے۔

سچ کہا ہے کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کے فیصلے چیخ چیخ کر بول رہے ہیں اور سننے والوں نے اچھی طرح یہ فیصلے سن کر مسترد بھی کر دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).