زلمے خلیل زاد کی آنیاں جانیں اور انجماد کے تیس برس



افغان حکومت کے سربراہ نے امریکا اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ باغی جنگجوؤں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے افغان حکومت کی مدد کریں تاکہ اسلام پسند اور جدت پسندوں کی ایک مشترکہ حکومت تشکیل دی جاسکے۔
کابل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 63 سالہ سربراہِ حکومت کا کہنا تھا کہ اس طویل جنگ میں فتح کسی کی نہیں ہوگی، اس لیے جتنی جلدی ہوسکے تمام جنگجوؤں کو حکومت کا حصہ بننا چاہیے تاکہ افغانستان کو جنگ سے نجات مل سکے۔
افغان سربراہ حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان اور افغانستان سے باہر تمام جنگجو کمانڈروں سے بات چیت جاری ہے، امید ہے جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک سے باہر رہنے والے باغی کمانڈروں کی ملکی صورتحال کا پتہ نہیں لیکن افغانستان میں رہ کر حکومت کے خلاف لڑنے والے کمانڈروں کو اندازہ ہے کہ اس جنگ سے عوام بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں اس لیے مذاکرات میں پیشرفت کی امید کی جاسکتی ہے۔
افغان حکومت جنگجوؤں کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے آئین میں تبدیلی کے لیے بھی تیار ہے۔اطلاعات کے مطابق ایک اہم جنگجو کمانڈر کو حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی گئی تھی لیکن مذکورہ کمانڈر نےوہ پیشکش ٹھکرا دی۔ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ایسے میں اگر فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو ملک میں سیاسی اور عسکری بحران جنم لے سکتا ہے۔ غیر ملکی افواج کے سربراہاں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت ان کے بعد ملک کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لیے انخلاء سے پہلے کابل میں ایک قومی حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔

افغان حکومت کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو۔ اس لیے پاکستان اور امریکا کو چاہیے کہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے جنگجوؤں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس رپورٹ کے اہم کرداروں کے نام یہ ہیں۔

افغان حکومت کا سربراہ: محمد حسن شرق، وزیر اعظم افغانستان 1988
باغی جنگجو: افغان مجاہدین
غیر ملکی افواج: سویت یونین فورسز
موجودہ افغان حکومت:ڈاکٹر نجیب اللہ صدر افغانستان

یہ رپورٹ آج سے تیس برس قبل 30 اگست 1988 کو نیو یارک ٹائمز میں چھپی تھی۔ رپورٹ میں سے صرف کرداروں کے نام نکال دینے سے جو منظر سامنے آتا ہے وہ آج کے منظر نامے سے رتی برابر مختلف نہیں ہے۔رپورٹ کو 30 سال 5 ماہ 17 دن گزر گئے لیکن آج بھی محمد حسن شرق کی جگہ عبد اللہ عبداللہ ، افغان مجاہدین کی جگہ طالبان، سویت یونین فورسز کی جگہ امریکی افواج اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی جگہ اشرف غنی لکھ دیں تو باقی افغانستان اور پاک افغان تعلقات کی صورتحال وہیں کھڑی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تیس برس بعد بھی افغانستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو کیا زلمے خلیل زاد کی آنیاں جانیاں صورتحال کو بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).