پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟


بہت خوبصورت دن تھے وہ جب ہم سارا دن سکول میں ٹاٹ کو سائے کے پیچھے گھسیٹتے رہتے۔ سکول کے کھلے میدان میں تا حد نگاہ پھیلے درختوں میں سب سے اچھی جگہ پر کلاس لگانے کی کوشش میں صبح ہی نشانی کے طور پر اپنی تختیاں رکھ آتے تھے۔ ماسٹر صاحب بظاہر کاپیاں چیک کرنے میں مصروف ہوتے لیکن کسی کی ہلکی سی بھی ہلتی گردن انہیں صاف دکھائی دیتی تھی اور وہ فورا سرزنش کرتے۔ گھر میں کوئی بھی سوغات بنتی اس میں استاد کا حصہ ضرور ہو تا۔ استاد کے کسی ذاتی کام کو کرنا بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ ان کی ایک آواز پر سب سے پہلے دوڑتے ہوے پہنچنا سب کی خواہش ہوتی۔ مار کھا کر بھی کبھی ان کی عزت میں کمی نہیں آنے دیتے۔

اور استاد وہ جو دین کا درس آخرت کی فکر دنیا کی تعلیم اور کردار کی تعمیر ایک ہی تنخواہ میں کرتے تھے۔ کہیں سربازار مل جاتے تو رستے سے گزرنے کے آداب بتاتے کہیں گھر میں ملاقات ہو جاتی توگھر والوں کے حقوق یاد دلاتے۔ مسجد میں دکھائی دیتے تو باتوں باتوں میں وضو کے فرائض سکھا دیتے۔ کچھ سکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔

جدت نے تعلیم کی جانب رخ کیا تو لال اینٹوں سے بنے سادہ ماڈل سکولوں کی جگہ ایجوکیشن سسٹم نے لے لی۔ جدید طرز کے دلہن کی مانند سجے سنورے کلاس رومز دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں موجود اساتذہ تعلیم کو پیسے کمانے اور وقت گزاری کاذریعہ سمجھنے لگے نتیجے میں پڑھنے والے بچے تعلیم کو کم اور سٹیٹس کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔ استاد کا رتبہ اور اس کا ادب جدید تعلیمی نظام میں شاید شامل ہی نہیں۔ دور حاضر کے طالب علموں کی نظر میں استاد وہ مزدور ہے جس کے گھر کا چولہا اس کی فیس کا محتاج ہے۔

جدید ایجوکیشن سسٹم نے استاد اور طالب علم دونوں کو اپنے مقصد سے ہٹا دیا نا تو استاد اپنے پیشے سے انصاف کر رہے ہیں اور نہ ہی طالب علموں میں علم کی طلب باقی ہے۔ تعلیم سے تربیت کہیں بہت دور رہ گئی ہاتھ میں آیا تو بس کاغذ کا ٹکڑا۔ جس کا نام غالباً ڈگری رکھا گیا۔ جو دوکی بجائے چار وقت کی روٹی کمانے کے لیے تو کافی ہے لیکن زندگی گزارنے کے لیے وضع کیے گئے آداب، مذہب اور اصولوں کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے۔

غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پہ بے حیائی اور بے راہ روی کا ایسا طوفاں برپا کیا گیا ہے جو نئی نسل کو اپنی جڑوں سے اکھاڑ کر بہت دور پھینکے گا جہاں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لمبی چوڑی فیسوں کے بل تعلیم کے اعلیٰ معیار کی ضمانت سمجھی جا رہے ہیں جسے ادا کر کے والدین اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جو تعلیم تربیت نہ کر سکے وہ سفیدے کے درخت کی مانند ہے جو زمین کا سارا پانی بھی چوس لیتا ہے اور چھاؤں نہیں دے پاتا۔

پرائیویٹ اسکول مذہبی تعلیم سے تو دور تھے ہی لیکن اب اینٹی پاکستان بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو پہلے دین سے دورکیا گیا اور اب ان کو ان کے وطن سے بھی جداکیا جا رہا ہے۔ وہ دین جو ان کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے تھا آج ان کی نظر میں شدت پسندی ہے اور جس ملک کے تحفظ کے لیے ان کو جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے اس کے لیے ان کے دلوں میں نفرت بھری جا رہی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ان والدین کے لئے جو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی خواہش میں ایسے سکولوں کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ ان اساتذہ کے لیے جو پیغمبری پیشے کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم ضرور دیں لیکن یہ اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ جس ادارے میں آپ اپنے بچے کے مستقبل سنوارنے کے لیے اپنی محنت کی کمائی پانی کی طرح بہا رہے ہیں کہیں وہ ان بچوں کو اس سمت نہ لے جائیں جو نہ ہماری بنیاد ہو نہ منزل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).